منتخب کردہ کالم

ٹرسٹ وردی (نوخیزیاں) گل نوخیز اختر

پنجاب پولیس کی نئی وردی میں ایک ایسی خصوصیت ہے جس کا شائد خود ابھی تک پنجاب پولیس کو بھی پتا نہیں۔وہ پولیس والے جو ابھی تک نئی وردی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہے ان کی اکثریت جب اِس خصوصیت پر دھیان دے گی تو یقینا روحانی خوشی محسوس کرے گی۔میں نے بڑے غور سے اِس وردی کو دیکھا ہے اور مجھے یقین ہے پرانی وردی کی نسبت نئی وردی کی جیبیں بڑی ہیں…!!!
نئی وردی کے بعد پرانی وردی کا کیا بنے گا؟ کیا وہ میوزک بینڈ والے پہن سکیں گے؟ اس کا ابھی تک اعلان تو نہیں ہوا لیکن ظاہری بات ہے پرانی وردی کا خوف جاتے جاتے جائے گا۔پنجاب میں جب ٹریفک وارڈنز کی وردی تبدیل کی گئی تھی تو اُس وقت بھی یہی خیال تھا کہ نئی وردی نئے خیالات ابھارنے کا باعث ہوگی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا، پرانی وردی والے ٹریفک اہلکار پچاس روپے میں مان جاتے تھے، نئے والوں نے ریٹ تبدیل کرکے پانچ سو روپے کردیے۔پولیس کی نئی وردی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایسے کپڑے سے تیار کی گئی ہے جو گرمیوں سردیوں دونوں موسموں میں چل سکتا ہے نیز یہ کپڑا مارکیٹ میں دستیاب نہیں یعنی یہ صرف پولیس کی وردی میں ہی استعمال ہوا ہے۔اچھی بات ہے کہ پولیس کی نئی وردی کی نقل تیار کرنا مشکل ہوگا لیکن عوام کو تو پولیس کی وردی کا کبھی خوف رہا ہی نہیں۔خوف تو اُس رویے کا ہے جو اس وردی کے اندر چھپا ہوتاہے۔گزشتہ دنوں جب اچانک پولیس نے ‘رد الفساد‘ کے
تحت ہر کرائے دار کی تلاشی کا سلسلہ شروع کیا تو ایک دن میری جانب بھی آن دھمکے، فرمایا کہ کرایہ نامہ تھانے لے جائیں اور وہاں’فرنٹ ڈیسک‘ سے ‘کلین چٹ‘ بنوا لیں۔مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب نئی مصیبت شروع۔ انکار ناممکن تھا۔ فرنٹ ڈیسک کیا چیز تھی اس بارے میں مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔ تھانے پہنچا تو ایک کمرے کے باہر ‘فرنٹ ڈیسک‘ لکھا دیکھا۔کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا اور اندر نظر پڑتے ہی سمجھ گیا کہ غلط جگہ آگیا ہوں۔ سامنے نہایت صاف ستھرا کمرہ تھا‘ ایک خوش شکل لڑکی اور لڑکا عوامی لباس پہنے بیٹھے تھے اور ان کے آگے کمپیوٹرز رکھے ہوئے تھے۔میں نے احتیاطاً پوچھا تو پتا چلا کہ یہی فرنٹ ڈیسک ہے۔ تعجب ہوا کہ یہ کیسی پولیس ہے جس کی شکلیں بھی اچھی ہیں اورچہرے پر نفرت بھی نہیں۔اس سے بھی زیادہ بڑا جھٹکا اُس وقت لگا جب لڑکے نے نہایت محبت سے مسکراتے ہوئے پوچھا ” آپ چائے لیں گے؟‘‘۔ایک دم سے میری ساری ٹینشن ختم ہوگئی،میں ریلیکس ہوگیا۔ اتنے سے جملے نے میری ساری پریشانی اُڑا کے رکھ دی تھی۔ میں نے نفی میں سرہلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور اپنا کرایہ نامہ ان کے آگے رکھا۔ انہوں نے تین چار سوالات کیے اور پانچ منٹ کے اندر اندر مجھے ایک کمپیوٹرائزڈ کلین چٹ تھما دی۔میرا ذہن تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ پولیس اچانک اتنی اچھی کیسے ہوگئی ۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ چونکہ میں کالم نگار ہوں، ٹی وی پر بھی آتا ہوں اس لیے یہ مجھے پہچان کر مجھے عزت دے رہے ہیں۔ یہی بات میں نے اُن سے پوچھی تو وہ ہنس پڑے، کہنے لگے کہ یہاں آنے والے ہر ”سائل‘‘ کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔میرے لیے یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل تھا لہٰذا وہاں سے فارغ ہوکر میں تھانے کے باہر آکر اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد جتنے بھی لوگ وہاں سے باہر نکلے ان سے میں نے فرداً فرداً پوچھا کہ آپ کے ساتھ فرنٹ ڈیسک کا رویہ کیسا تھا‘ سب کا ایک ہی حیران کن جواب تھا کہ یہ تو پولیس والے لگتے ہی نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کا پولیس سے اعتماد اٹھ چکا ہے، انہیں پتا ہے کہ ان کے ساتھ ڈکیتی ہوئی تو ایف آئی آر چوری کی درج ہوگی۔ موبائل گم ہوگا تو محض خانہ پری کے لیے ایک درخواست لے لی جائے گی اور اس کا نذرانہ بھی کم ازکم دو سوروپے ادا کرنا پڑے گا۔سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے پولیس اہلکار بھی اذیت ناک رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے خربوزے بھی کھانے ہوں تو ایسی جگہ گاڑی روکتے ہیں جہاں سے ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ پڑتی ہو۔ایسے میں اگر آپ انہیں گاڑی ذرا دائیں بائیں کرنے کا کہہ دیں تو اِن کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے انگارے آپ کی زبان بند کردیتے ہیں۔آپ نے اکثر گلی محلوں اور مارکیٹوں میں کسی انسپکٹر کے نام کے بینر لگے دیکھے ہوں گے کہ ‘علاقہ میں چوری اور جرائم کے خاتمہ پر ہم فلاںتھانیدار صاحب کے شکرگزار ہیں‘‘ ۔ یہ بینر کلچر حال ہی میں متعارف ہواہے اور اس کو لگوانے والے عموماً خود بھی جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں ‘ اس بات کا تھانیدار صاحب کو بھی بخوبی علم ہوتاہے لیکن بینر پھر بھی لگا رہتاہے۔
ضرورت صرف وردی بدلنے کی نہیں،ضرورت کلچر بدلنے کی ہے ورنہ پولیس کو کسی بھی نام سے پکاریں وہ پولیس ہی رہے گی۔وردی کا خوف اپنی جگہ لیکن وردی کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہونا بنیادی چیز ہے۔ یہ احساس اُس وقت بھک سے اڑ جاتاہے جب وردی میں پھنسا ایک موٹا سا کانسٹیبل آپ کے قریب آکر بیہودہ سی گالی دے کراپنا مطمع نظر بیان کرتاہے۔تھانے میں جائیں تو ہر اہلکار کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ جس تھانے کے باہر بورڈ لگا ہو کہ تھانیدار صاحب ہر شام چار بجے سے سات بجے
تک سائلین کی خدمت کے لیے حاضر ہیں سمجھ جائیں کہ خصوصاً اِس وقت تھانے میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔میں ذاتی طور پر پولیس کی تھکا دینے والے ڈیوٹی کے مخالف ہوں، مجھے یہ بھی پتا ہے کہ پولیس والے کتنا مشکل کام کرتے ہیں‘ ان کی قربانیوں سے بھی انحراف نہیں لیکن یہ سب چیزیں اُس وقت کھوہ کھاتے جا پڑتی ہیں جب یہ عام عوام کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہمارے ایک انسپکٹر دوست بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ وہ ایک دیہاتی علاقے میں تعینات ہوئے تو انہوں نے نوٹ کیا کہ روز تھانے کے باہر ایک بابا جی کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے اپنے ماتحت سے پوچھا تو پتا چلا کہ بابا جی کا ٹریکٹرچوری ہوگیا ہے اور وہ روزانہ رپورٹ لکھوانے آتے ہیں لیکن انہیں کوئی اندر نہیں آنے دیتا۔ میرے دوست نے فوراً بابا جی کو اندر بلایا‘ اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا ‘ ان کے لیے چائے اور گرما گرم جلیبیاں منگوائیں اور نہایت عزت سے سارا مسئلہ پوچھا۔ بابا جی کی آنکھوں میں آنسوآگئے‘ نہ انہوں نے چائے پی‘ نہ جلیبی کھائی‘ صرف اتنا کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ”پُتر! ٹریکٹر جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا تھانے کے باہر ذلیل ہونے کا تھا‘ آج پہلی دفعہ نہ صرف تھانے کے اندر آنے کی اجازت ملی ہے بلکہ کرسی پر بٹھا کر چائے بھی منگوائی گئی ہے‘ میرے لیے یہی کافی ہے‘ اب مجھے ٹریکٹر چوری کی رپورٹ بھی نہیں کروانی…‘‘
ہم سب ایسے ہی ہیں‘ ہمیں بیماری کا آرام دوائوں سے نہیں ڈاکٹر کی محبت بھری توجہ سے آتا ہے‘ ہمیں چوری کا نہیں پولیس والوں کے رویے کا دُکھ ہوتاہے۔ پولیس والے اگر محبت سے بات کرلیا کریں تونہ ان کی وردی بدلنے کی ضرورت ہے نہ ماڈل تھانے بنانے کی۔وردی سے فرق نہیں پڑتا‘ بندہ خود’ٹرسٹ وردی‘ ہونا چاہیے خواہ وہ سول کپڑوں میں ہی کیوں نہ ہو۔میری تجویز ہے کہ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک کا شعبہ بھی تھانے سے کہیں باہر منتقل کیا جائے تاکہ یہ خوبصورت لوگ بھی کہیں تھانے کے روایتی ماحول میں نہ رنگے جائیں۔