منتخب کردہ کالم

پاشا صاحب کی قلمی دوستی..گل نوخیز اختر

پاشا صاحب کی قلمی دوستی..گل نوخیز اختر
جہاں پولیس کے آئی جی‘ ایڈیشنل آئی جی اور دیگر سینئر افسران جمع ہوں وہاں یقینا واردات بھی کوئی بڑی ہوئی ہوتی ہے۔ آج ایسی ہی ایک واردات کا احوال سنانا مقصود ہے۔ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنا انتہائی سنگین واردات ہے لیکن اگر یہ واردات کسی ‘آئی جی‘ صاحب سے سرزد ہوئی ہو تو بندہ کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ طاہر انوار پاشا صاحب نے سرِعام یہ واردات کی ہے اور مجھ ایسے لکھاریوں سے اچھا سفرنامہ لکھنے کا حق چھین لیا ہے۔ پاشا صاحب کی کتاب ‘ازبکستان‘ منظر عام پر آئی تو مشرقی روایات کے عین مطابق ادبی حلقوں میں دبے دبے الفاظ میں تحسین کے الفاظ سننے کو ملے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی کتاب واقعی بہت اچھی ہو۔ اس سے پہلے کہ میں کتاب خریدتا‘ یہ خود بخود مجھ تک پہنچ گئی۔ طاہر انوار پاشا صاحب ”روزنامہ دُنیا‘‘ کے باقاعدہ قاری ہیں اور اپنی شخصیت کی طرح شگفتہ اور ہنستی مسکراتی تحریریں پڑھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں اچھا رائٹر بننے کے لیے لکھنے سے زیادہ پڑھنا ضروری ہے۔ پاشا صاحب نے اسی اصول پر عمل کیا اور ساری زندگی پولیس اور کتابوں کے درمیان گزاری۔ بطور ایڈیشنل آئی جی پنجاب ریٹائر ہوئے اور قلم سنبھال لیا۔ سفر تو انہوں نے بہت سے کئے لیکن کتابی شکل میں ازبکستان کا سفرنامہ تحریر کیا۔ کسی بھی کتاب کے پہلے پانچ صفحے دیگ کے ابتدائی دانوں کی طرح ہوتے ہیں‘ چکھتے ہی نمک مرچ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ دانے میںنے بھی چکھے اور پھر جب تک پوری دیگ ختم نہیں کر لی‘ سکون نہیں آیا۔ پاشا صاحب کی اسی کتاب کی تقریب رونمائی گزشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں اتنے آئی جی شریک تھے کہ لگ رہا تھا شاید اِس بار پولیس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے۔ پاشا صاحب کی خواہش تھی کہ کمپیئرنگ میں کروں‘ انکار ناممکن تھا کیونکہ پوری فورس سامنے تھی۔ یہاں خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی جناب ناصر درانی بھی بطور خاص شریک تھے اور پوری تقریب میں اتنا کھل کر مسکراتے رہے کہ دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا کہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ اُن کی محبت اور خلوص کو سب نے سراہا۔
اگر آپ نے طاہر انوار پاشا کی کتاب پڑھی ہے تو یقینا آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاشا صاحب فنِ تعمیر کی باریکیوں سے کس قدر آگاہ ہیں۔ میں تو اُنہیں مشورہ دوں گا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ٹھیکیداری شروع کریں‘ کروڑوں میں کھیلیں گے۔ انہوں نے ازبکستان کا سفر اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ کیا‘ حالانکہ سیانے فرماتے ہیں ایسے ممالک میں جاتے وقت نہیں ‘ آتے وقت بیگم ساتھ ہونی چاہئیں۔ ویسے بھی غیر ملکی سفر میں اہلیہ کو ساتھ لے جانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے بندہ فائیو سٹار ہوٹل میں جائے اور اپنا کھانا ساتھ لے جائے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاشا صاحب کی اہلیہ جتنی خوش مزاج ہیں‘ سفر میں انہوں نے پاشا صاحب کی بہترین دوست کا بھی کردار ادا کیا ہوگا۔ ساری تقریب میں مقررین نے پاشا صاحب سے جتنی بھی پیار بھری چھیڑ چھاڑ جاری رکھی‘ اُن کی اہلیہ ‘ صاحبزادیوں اور صاحبزادوں نے سب سے زیادہ لطف لیا۔ پاشا صاحب کی کتاب میں خود بھی بہت سی پھلجڑیاں موجود ہیں جس میں ‘دل آرام‘‘ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔کہیں کہیں تو یہ شک بھی پڑا کہ کتاب ازبکستان سے زیادہ ‘دل آرام‘ کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ سفرنامہ لکھنے کے دو طریقے ہیں‘ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سفر کیا جائے۔ پاشا صاحب نے نہ صرف سفر کیا بلکہ ایک ایک تفصیل کو اپنی نظر سے قاری کو یوں دکھایا ہے کہ پورا ازبکستان فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آتا ہے۔
قریب کی صدارت اُستاد محترم عطاء الحق قاسمی نے کی اور جیسے ہی سٹیج پر آئے‘ ہر طرف قہقہے بکھیر دیئے۔ اُستاد محترم نے اپنی تقریر کا آغاز انگلش میں کیا‘ فرمایا ”میری تقریر کے دو حصے ہیں‘ پہلا حصہ انگلش میں اور دوسرا اُردو میں… اور اس کے ساتھ ہی پہلا حصہ ختم ہوتا ہے‘‘۔ سعید انجم کھوکھر‘ ڈاکٹر سیّد اختر جعفری‘ ناصر محمود ملک‘ کارٹونسٹ جاوید اقبال‘ ڈاکٹر کامران‘ ازبک سفارت خانے کے پریس اٹیچی میجر سعد اللہ تشماتوف اور دیگر مقررین نے پاشا صاحب کے سفرنامہ کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی۔ تشماتوف خالصتاً ازبک باشندے ہیں لیکن انہوں نے گفتگو میں جو اُردو کا تڑکا لگایا وہ سب کے دل کو چھو گیا۔ اس موقع پر انہوں نے لاہور کی خوبصورتی کا ذکرکرتے ہوئے بڑی خوشی سے بتایا کہ وہ کہاں کہاں کی سیر کر چکے ہیں‘ تقریب میں اُن کی اہلیہ بھی موجود تھیں اورخوش ہو رہی تھیں کہ پتا نہیں اُن کے شوہر کیا کہہ رہے ہیں لیکن بہرحال سارا ہال تالیاں بجا رہا۔
میں تو اُزبکستان نہیں گیا لیکن مجھے لگتا ہے اب اگر مجھے وہاں جانے کا موقع ملا توکسی گائیڈ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پاشا صاحب نے اتنی تفصیل سے ہر چیز کا ذکرکر دیا ہے کہ مجھے یقین ہے خود اُزبک لوگوں کو بھی اُن میں سے کئی چیزوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس سے قبل کبھی پاشا صاحب کا نام بطور لکھاری سامنے نہیں آیا‘ اُنہوں نے اچانک ہی انٹری ڈالی اورسب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اچھی کتاب اپنا آپ خود منواتی ہے‘ اسے پڑھنا نہیں پڑتا‘ یہ نظروں کی حدت سے الفاظ کو پگھلاتی ہوئی سطروں کا سفر طے کرتی چلی جاتی ہے۔ پاشا صاحب‘ صاحبِ کتاب تو بن چکے ہیں‘ ان کا اگلا سفر پتا نہیں کہاں کا ہوگا لیکن یہ طے ہے کہ جہاں بھی جائیں گے واپسی پر ایک اور کتاب ضرور لکھیں گے۔ مجھ سے اکثر قارئین یہ پوچھتے ہیں کہ آپ پچھلے دنوں تھائی لینڈ گئے تھے‘ وہاں کا سفرنامہ کیوں نہیں لکھتے؟ اب میں کیسے سمجھائوں کہ وہاںکی تحریر نہیں‘ تصویر قابلِ بیان ہے۔
عام طور پر کتابوں کی تقریب رونمائی محض تقریروں اور مصنف کی تعریفوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ آدھے گھنٹے بعد جماہیاں آنے لگتی ہیں اور حاضرین بیٹھے بیٹھے نیند پوری کر لیتے ہیں‘ لیکن یہ نرالی تقریب تھی جس میں قہقہے لگ رہے تھے اورحاضرین اتنی توجہ سے سب کی گفتگو سن رہے تھے گویا ٹائی ٹینک کا سب سے خوشنما سین ہو… یعنی وہی… جہاز میں پانی بھرنے والا۔ ڈاکٹر کامران نے فرمائش کی کہ جس طرح کلام شاعر بزبان شاعر ہوتا ہے اسی طرح کلام نثر‘ بزبان مصنف بھی ہونا چاہیے۔ اچھا مشورہ تھا لہٰذا تقریب کے اختتام پر پاشا صاحب سے ان کی زبانی کتاب کے دو پیراگراف سنے گئے۔ خوشی سے معمور چہروں کے درمیان یہ شام ثابت کر گئی کہ بلاوجہ کڑھنے اور جلنے سے بہتر ہے کہ کوئی اچھی کتاب پڑھی جائے‘ اچھی محفل میں شرکت کی جائے‘ شرارتی ماحول میں کچھ کام کی باتیں کی جائیں‘ کچھ سیکھا جائے اور محبت کے فروغ میں اپنے حصے کی ایک شمع روشن کی جائے۔ طاہر انوار پاشا صاحب کا بے حد شکریہ جنہوں نے کتاب اور تقریب کی صورت میں دوخوشیاں فراہم کیں ورنہ حالات اس قسم کے ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو یہ بھی پسند نہیں آتا کہ آپ اپنی مرضی سے کسی سے ملتے کیوں ہیں۔ بعض چہروں کی تازگی اس لیے بھی ختم ہوتی جا رہی ہے کہ انہوں نے لطافت کو اس حد تک اپنے سے دور کر لیا ہے کہ اُن کا بس چلے تو پھول کو بھی ‘چک‘ مار لیں۔ پاشا صاحب جیسے لوگ غنیمت ہیں جو زندہ دل ہیں‘ پیار باش ہیںاور قلمی دوستی کے قائل ہیں۔