منتخب کردہ کالم

پاناما اسکینڈل اور نیوگریٹ گیم .. ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

پاناما اسکینڈل اور نیوگریٹ گیم .. ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

قومی مفادات کے تحفظ کیلئے خود انحصاری کے اصولوں پر مبنی ایسی معاشی پالیسیاں اپنانا ہمارے لئے ناگزیر ہوگیا ہے جن کے نتیجے میں معیشت کی شرح نمو میں پائیدار بہتری آئے، برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو اور عام آدمی کی حالت بہتر ہو۔ گزشتہ 12برسوں میں برآمدات کے شعبے میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ گزشتہ 10برسوں میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں برآمدات میں اضافے کے جو اہداف مقرر کئے جاتے رہے تھے ان کے حصول میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ چند حقائق یہ ہیں۔
(1) 2007 میں کہا گیا تھا کہ مالی سال 2013 تک برآمدات کو 45ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا مگر برآمدات صرف 24.8 ارب ڈالر رہیں۔
(2) جولائی 2012سے جون 2015 کے تین برسوں میں برآمدات کے مجموعی حجم کو 95ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف تھا مگر برآمدات صرف 74ارب ڈالر ہی رہیں۔
(3) 2017-18 کیلئے برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا مگر ایسا نظر آرہا ہے کہ برآمدات 25ارب ڈالر تک بھی نہ پہنچ پائیں گی۔
(4) اگست 2014میں جاری کردہ حکومت کے ’’وژن 2025کے مطابق 2025تک برآمدات کو 150 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے جس کے حاصل ہونے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔
برآمدات کے شعبے میں مسلسل ناکامی کے اسباب کا تعین کرنے کا تو یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا مگر ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ منصفانہ نظام کے ذریعے ٹیکسوں کی وصولی بڑھائے بغیر نہ تو پاکستانی معیشت مشکلات سے نکل سکتی ہے اور نہ ہی ملکی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے تقریباً 3200 ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے۔ ہم نے اب سے تقریباً 22ماہ قبل ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی استعداد 8000ارب روپے سالانہ ہے جبکہ پاکستان استعداد سے تقریباً 5000ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے (جنگ 24ستمبر2015) اگر وطن عزیز میں وفاق اور چاروں صوبوں میں برسر اقتدار سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد اور وصول کریں اور معیشت کو دستاویزی بنائیں تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 5فیصد کرنے اور پیٹرولیم لیوی ختم کرنے کے باوجود موجودہ مالی سال میں ہی ٹیکسوں کی مد میں ہدف سے تقریباً 4000ارب روپے سالانہ زیادہ وصول ہونے کی گنجائش ہے۔ یہی نہیں، اگر ’’ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ ڈالا جائے تو موجودہ مالی سال میں 2000 ارب روپے کی اضافی وصولی ممکن ہے۔
یہ امر یقیناً تشویشناک ہے کہ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے مندرجہ بالا امور کے ضمن میں قانون سازی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی اور ان قوانین پر موثر عمل درآمد کئے بغیر معیشت میں پائیدار بہتری کی باتیں خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت اس بات پر بجا طور پر خوشی کا اظہار کررہی ہے کہ توانائی کے شعبے میں چین قرضے نہیں بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چین نے اپنی سرمایہ کاری پر نہ صرف منافع کی شرح بہت زیادہ رکھی ہے بلکہ ٹیکسوں وغیرہ کی مد میں پاکستان سے بہت زیادہ مراعات لی ہیں۔ چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان نے صرف گزشتہ تین برسوں میں تقریباً 24ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ اٹھایا ہے۔ چین کی سخت شرائط کو تسلیم کرنا بحرحال پاکستان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری عملاً آہی نہیں رہی ۔ اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری ابتدائی برسوں میں پاکستان کیلئے قرضوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہوگی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ قرضوں پرشرح سود کے مقابلے میں چینی سرمایہ کاری پر شرح منافع کئی گنا زیادہ ہے۔ چنانچہ یہ ازحد ضروری تھا کہ پاکستان ٹیکسوں کی وصولی اور قومی بچتوں کی شرح بڑھانے، برآمدات کو فروغ دینے اور جاری حسابات کا خسارہ کم کرنے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھاتا مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا بلکہ منفی پیش رفت ہی ہورہی ہے۔
پاناما پیپرز کے معاملے میں شعوری اور غیر شعوری طور پر ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ قوم نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے جس سے معیشت غیر مستحکم ہورہی ہے۔ اس خطرے کا ادراک بھی نہیں کیا جارہا کہ آنے والے برسوں میں قرضوں و ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے درکار رقوم میں اضافہ ہوگا جبکہ سی پیک منصوبوں کے تحت نہ صرف ہماری درآمدات بڑھیں گی بلکہ توانائی کے منصوبوں میں چین کی سرمایہ کاری کے منافع کی رقوم بھی بیرونی کرنسی میں باہر جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا بیرونی شعبہ دبائو کا شکار ہوگا ۔ نیو گریٹ گیم کے تحت استماری طاقتوں کے مقاصد کے حصول میں پیش رفت کیلئے یہ انتہائی ساز گار ماحول ہوگا۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس صورتحال کے ضمن میں چین کی قیادت کو اعتماد میں لے کر ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اسٹیٹ بینک میں مناسب رقوم ڈالر کی شکل میں درمیانی مدت کیلئے جمع کرا دیں۔ اس مدت میں برآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا جائے۔ اس ضمن میں یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 2007میں حکومت نے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مالی سال 2013 تک پاکستانی برآمدات کو 45ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانا تھا یعنی 2013 اور 2017 کی مدت میں مجموعی برآمدات 225ارب ڈالر ہونا تھیں مگر یہ برآمدات صرف تقریباً 115 ارب ڈالرز ہیں یعنی ہدف سے 110 ارب ڈالر کم۔ موجودہ حکومت نے 2025تک برآمدات کو 150ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف رکھا ہے۔ اسی ہدف کو ذہن میں رکھتے ہوئے 2020 کیلئے بھی برآمدات کا ہدف مقرر کیا جائے۔
اب وقت آگیا ہے کہ بینکوں کے قرضوں کی معافی کے مقدمے کا جلد فیصلہ کیا جائے جو سپریم کورٹ میں 2007 سے زیر سماعت ہے کیونکہ خود چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قرضے معاف کروا کر رقوم ملک سے باہر منتقل کردی گئی ہیں۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ماہرین اس پر خاموش ہیں۔
اگر مندرجہ بالا گزارشات پر توجہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ جلد یا بدیر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑ سکتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان نے 26ستمبر 2008کو فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ کئے گئے ایک سودے کے تحت آئی ایم ایف سے 6.4 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرایا تھا۔ یہ اس وقت کی حکومت کا قوم کے ساتھ ایک عظیم دھوکہ تھا۔ اس قرضے کی ادائیگی کے نام پر موجودہ حکومت نے 2013ء میں امریکی سفارش پر آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر ایک اور قرضہ لیا تھا۔ آنے والے برسوں میں اگر پاکستان کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا پڑتا ہے تو اس کا بڑا مقصد سی پیک سے منسلک ادائیگیاں کرنا ہوگا… سی پیک منصوبہ پہلے ہی امریکہ کو کھٹک رہا ہے چنانچہ امریکی اشارے پر آئی ایم ایف قرضے کی شرائط اتنی سخت کرسکتا ہے جن کے نتائج کا سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ اس وقت نیوگریٹ گیم کے تحت امریکی رویہ بھی مزید معاندانہ ہوچکا ہوگا۔ اللہ حکمرانوں کو بصیرت دے اور پاکستان کی حفاظت کرے۔ (آمین)

………………..
کالم حامد میر