منتخب کردہ کالم

پاناما کیس کا انجام … اکرام سہگل

پاناما کیس کا انجام … اکرام سہگل

پاناما کیس اپنے آخری اور ممکنہ طور پر فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ 16مئی 2016ء کو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ذرایع آمدن اور اثاثوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ لیکن یہ ریکارڈ جے آئی ٹی کو دیا گیا اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے شریف خاندان کے وکلاء کو یہی یاد دلایا کہ ’’ہم پہلے دن سے منی ٹریل اور ذرایع آمدن کی تفصیلات کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے انھیں یاد دہانی کرائی کہ ’’آپ نے خود ہی بارِ ثبوت اٹھایا تھا۔‘‘ 22اپریل کو نواز شریف نے قوم سے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ اگر ان پر لگائے گئے الزامات میں رتی برابر بھر بھی صداقت ہوئی تو وہ مستعفی ہوجائیں گے، لیکن اب وہ یہ وعدہ بھلا چکے ہیں۔ شریف خاندان کی سیاسی بقا ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے میں ہے۔

نواز شریف کے وکلاء نے جے آئی ٹی کی جانب سے شریف خاندان کی جائیدادوں سے متعلق 15 مقدمات، بشمول حدیبیہ پیپر مل مقدمہ، دوبارہ کھولنے کی سفارشات کو حدود سے تجاوز قرار دیتے ہوئے جے آئی ٹی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل کی جانب سے بڑے تحمل کے ساتھ یہ وضاحت کردی گئی کہ لندن فلیٹس کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کے بعد منی ٹریل ثابت کرنا بھی شریف خاندان ہی کے ذمے ہے، وزیراعظم اور ان کے خاندان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا پورا موقعہ فراہم کرنے کے لیے ہی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

میاں نواز شریف نے جس طرح جے آئی ٹی کے سوالات سے پہلو تہی کی، اس رویے کو دیکھتے ہوئے، معزز جج صاحبان نے وزیر اعظم کے وکلاء سے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا جج ان کے مؤکل کی جانب سے حقائق چھپانے پر ازخود کوئی رائے قائم کرلیں یا یہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیا جائے؟ شریف خاندان کے باہمی تعلقات انتہائی مضبوط ہیں، یہ ایک جما جڑا خاندان ہے، لیکن تعجب ہے کہ خاندان کا کوئی بھی فرد ایونفیلڈ فلیٹس کے بارے میں نہیں جانتا۔ جسٹس احسن نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ جب وزیراعظم کے بچوں نے 1993ء میں وہاں سکونت اختیار کی تو ان کا کوئی ذریعۂ آمدن نہیں تھا۔ یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ ’’(شریف خاندان کی) سعودی عرب، دبئی اور لندن کی جائیدادوں کے لیے رقم کہاں سے آئی؟‘‘

عزیز دوست حیدر مہدی کہتے ہیں کہ نواز شریف، مریم صفدر، حسن شریف، حسین شریف اور اسحاق ڈار کے خلاف الزامات کی جو فہرست ترتیب پائی ہے اس میں بدعنوانی، منی لانڈرنگ، بیرون ملک رقوم کی غیر قانونی منتقلی، ریکارڈ میں عمداً تحریف، دستاویزات کی جعل سازی، قانون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، مختلف مواقع پر کذب بیانی، سرکاری مناصب پر فائز ہونے کے باوجود نجی ملازمت، شفاف منی ٹریل کی عدم موجودگی میں جائیداد کی خریداری اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں نیب، ایف بی آر اور ایس ای سی پی جیسے سرکاری اداروں کے ذریعے روڑے اٹکانے جیسے دس سنگین الزامات شامل ہیں، انھیں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔

وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے منگل کو ہونے والی سماعت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حسن نواز کیپٹل ایف زیڈ ای کے مالک ہیں اور وزیراعظم 2014ء تک اس کے بورڈ چیئرمین رہے۔ لاء فرم خلیفہ بن ہویدن ایڈوکیٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات کے لیبر قوانین کو پیش نظر رکھا جائے تو نواز شریف 2014ء تک بطور چیئرمین اس کمپنی سے دس ہزار درہم تنخواہ لیتے رہے ہوں گے۔ ’’جمہوریت کے نام پر۔۔۔‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والے کالم میں عرض کیا تھا’’پاناماگیٹ مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے عوامی منصب پر فائز مقدمے کے ایک فریق پر بارِ ثبوت رکھا ہے، یہ ذمے داری استغاثہ کے بجائے خود ملزم پر عاید کردی گئی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار حضرت عمرؓ کی مثال دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’حکمران کا احتساب دوسروں سے مختلف معاملہ ہے۔‘‘

’’ہوشیار رہنا بہتر ہے‘‘ کے عنوان سے ایک اور کالم میں عرض کیا تھا :’’جو کرپشن کو برداشت کرنے اور اس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں انھیں وائٹ کالر جرائم اور منظم جرائم میں فرق کرنا ہوگا۔ مجرموں کو بھتہ وصولی، جائیدادوں کے حصول، قتل،اغوا برائے تاوان اور مذہبی مسلح گروہوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی سطح پر سہولت فراہم کرنے والے شہریوں کے خلاف اپنی ’’دہشتگرد ریاست‘‘ بنانے کے ذمے دار ہیں۔ یہ کسی صورت ’’آئینی‘‘ نہیں اور نہ ہی رضا ربّانی کی بیان کردہ ’’جمہوریت‘‘ کی کسی تخیلاتی تعریف کے مطابق ہے۔

کراچی کا بلاول ہاؤس (اس کے رہایشی اور اطراف کی جائیدادیں) ایک علامت ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے ادارے اکثر مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والے مجرموں کے خلاف آنکھیں، کان اور زبان کیوں بند کیے رکھتے ہیں۔ حکومتی اداروں کا من مانے استعمال کو برداشت یا نظر انداز کرنے کے سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔ سپریم کورٹ ہی احتساب کے لیے آخری امید ہے اس توقع کے ساتھ کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ دوبارہ جنم نہیں لے گا۔‘‘

ملک کو شدید خطرات کا سامنا ہے، ایسی صورت حال میں قمر جاوید باجوہ کب تک تحمل کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟ شریف خاندان کی جانب سے تاخیری حربوں کے استعمال، کارندوں کے ذریعے دھول اُڑانے، خوف اور اختلاف کے بیج بونے جیسے پینتروں نے اس تأثر کو مزید مضبوط کردیا ہے کہ وہ حقائق کو مسخ کررہے ہیں۔

شریف خاندان کے خلاف ٹھوس شواہد کے انبار لگ چکے اور ان کے وکیل عرب شاہی خاندان سے جلد بازی میں حاصل کیے گئے خط سے ان شواہد کے مقابلے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اگر کسی عرب شہزادے کا تنخواہ دار ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ہماری ’’قومی سیکیورٹی‘‘ بھی انھی کے مفادات کی رہینِ منت ہے؟

گلاسگو کی اسٹارتھ کلائڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر گلن نیوے نے 2003ء میں اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا تھا کہ جمہورت میں فریب دہی نہ صرف کبھی کبھی ناگزیر ہوجاتی ہے بلکہ یہ عین قانون کے مطابق ہوسکتی ہے، اگر منتخب نمایندہ ایسا کوئی کام عوامی مفاد میں کرتا ہے اور اسے حلقہ انتخاب کی حمایت بھی حاصل ہو۔ پاکستان میں کئی سیاست دانوں پر یہ بات حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ عوامی اور قومی مفادات کبھی اہل سیاست کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ عوام کی جانب سے جب کبھی احتساب اور شفافیت کا مطالبہ زور پکڑتا ہے، حال اور ماضی کے ہمارے سیاست داں شکوک و شبہات کی فضا بنانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے اور ان کی جانب سے فریب کاری کے حربوں کا استعمال بڑھ جاتاہے۔شفافیت مطلوب ہے تو سرکاری مناصب پر فائز ہونے والوں کو اختیارات سے تجاوز اوردروغ گوئی سے روکنے کے لیے، ہمیں کڑے پیمانے نافذ کرنا ہوں گے۔

منتخب وزیراعظم کی نااہلی سے کس کو خوشی ہوگی؟ اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ لیکن دوسری جانب بد قسمتی سے جھوٹ، کردار کُشی اور ڈرانے دھمکانے کے جو حربے استعمال کیے گئے، ان کے جواب میں عدلیہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرا گال بھی پیش کردے، تو کیا ہمارا نظام انصاف اس نظیر کا متحمل ہوسکتا ہے؟ نہال ہاشمی کی دھمکی فراموش نہیں کی جاسکتی۔