منتخب کردہ کالم

پانامہ‘ اقامہ اور ’’سیرت چیئر‘‘…..رئوف طاہر

پانامہ‘ اقامہ اور ’’سیرت چیئر‘‘…..رئوف طاہر

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ ابھی نہیں آیا تھا، جے آئی ٹی میں (بعض ستم ظریف جسے واٹس ایپ جے آئی ٹی قرار دیتے) دو گھنٹے پیشی کے بعد مریم نواز میڈیا کے روبر تھیں۔ وطن عزیز میں ”بالادستی‘‘ کی طویل کشمکش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: نواز شریف کو ایک بار پھر نکال دیا گیا تو وہ پھر آ جائے گا… ”روک سکتے ہو، تو روک لو‘‘۔ گزشتہ شام جم خانہ میں حفیظ اللہ خاں کے ہفتہ وار ”نیازی دربار‘‘ میں بھی یہی معاملہ زیر بحث تھا، نواز شریف کے جلسے‘ جن میں مریم اپنے والد کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں، خلقِ خدا کی شرکت اور نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے حساب سے ہر جلسہ پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ مظفر آباد میں تو میاں صاحب دلچسپ (اور جرأتمندانہ) تجربہ کر گزرے‘ اپنے بعد مریم کی تقریر۔ اہم ترین (اور مقبول ترین) مقرر کو سب سے آخر میں بلایا جاتا ہے کہ حاضرین میں سب سے زیادہ اشتیاق اسی کے لئے ہوتا ہے جس کے بعد جلسہ اکھڑ جاتا ہے لیکن مظفر آباد میں ایک مختلف اور منفرد واقعہ ہو گیا۔ میاں صاحب حاضرین کی بے کنار محبتیں سمیٹ چکے تو مائیک سے ہٹتے ہوئے مریم کو پکارا: تم بھی آئو اور سلام کرو۔ تاحدِ نگاہ پھیلے ہوئے جم غفیر میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ یہاں خواتین بھی بڑی تعداد میں تھیں لیکن حضرات و خواتین میں کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا، باپ کے بعد بیٹی کے لئے بھی فراواں جذبات میں رتی بھر بھی کمی نہ آئی۔ وہ کہہ رہی تھیں: میری رگوں میں بھی کشمیری خون دوڑ رہا ہے۔ نعروں کا شور تھما تو انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا: وہ وقت دور نہیں جب سرینگر میں بھی ہم آزادی کا جشن منائیں گے۔ تب یوں لگا جیسے آزادی کی صدا کنٹرول لائن کے اس پار‘ سرینگر تک پہنچ رہی ہو۔ پھر مانسہرہ میں مریم کا ”سولو شو‘‘ بھی شاندار رہا۔ گوجرانوالہ اور سرگودھا میں بھی یہی کیفیت تھی۔
اتوار کی شام شیخوپورہ کے جلسے میں لگتا تھا کہ گزشتہ سبھی ریکارڈ ٹوٹ گئے ہوں۔ معزول وزیراعظم اور (اس کی صاحبزادی) کی ”تحریک عدل‘‘ تاریخ ساز بنتی جا رہی تھی۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی جب عمران خان نے چیلنج کیا تھا‘ تم ”عدلیہ کے خلاف‘‘ میدان میں نکلو، میں تم سے بڑے جلسے کر کے دکھائوں گا اور اب حریف کی ”تحریک عدل‘‘ اس کے لئے اعصاب شکن بنتی جا رہی تھی۔ آخر کار وہ چیخ اٹھا، عوامی ریلیوں کا یہ تماشا بند کرو۔
”دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ٹو نائٹ وِد معید پیرزادہ میں تو کمال ہو گیا۔ 28 جولائی کا فیصلہ آیا تو جسٹس (ر) وجیہہ الدین اور جناب ایس ایم ظفر سمیت کتنے ہی ماہرینِ آئین اسے ایک کمزور فیصلہ قرار دے رہے تھے۔ نواز شریف نے ”تحریکِ عدل‘‘ کی بنیاد بھی اسی پر رکھی، ”کیس پانامہ کا تھا‘ سزا اقامہ پر سنا دی گئی‘‘۔ ہفتے کی شب معید پیرزادہ کے ٹاک شو میں یہی بات تقریباً انہی الفاظ میں عمران خان کہہ رہے تھے۔ نواز شریف کے بڑے بڑے جلسے اور ان میں عوام کی بھرپور شرکت پر وہ یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہے کہ عدلیہ نے کمزور فیصلہ دیا اور نواز شریف اسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مزید فرمایا: عدلیہ نے نواز شریف پر توہین عدالت کا کیس نہیں کیا‘ وہ کسی اور ملک میں ہوتا تو عدلیہ اسے جیل میں ڈال دیتی، اسی سے وہ شیر ہو گیا۔ یہاں وہ اس خوش فہمی کا اظہار کئے بغیر بھی نہ رہے کہ عوامی تائید و حمایت کی یہ لہر عارضی ہے۔
جم خانہ سے ہم پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے استاد‘ اپنے ہمدمِ دیرینہ ڈاکٹر امان اللہ ملک کے ساتھ نہر کنارے ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں مقیم‘ ایک ریٹائرڈ عسکری دانشور کے ہاں چلے آئے۔ انہیں ریٹائر ہوئے تین دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چکا لیکن اپنے ”ادارہ جاتی احباب‘‘ سے اب بھی گہری رسم و راہ رکھتے ہیں۔ ان سے تبادلہ خیال کا اپنا لطف ہوتا ہے کہ وہ کسی سے اندھی نفرت یا بے سبب محبت کا شکار ہوئے بغیر معاملات کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لیتے اور دوسرا نقطۂ نظر بھی کامل غور و فکر سے سنتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ نواز شریف کو روکنا تھا تو جی ٹی روڈ پر روک دیتے۔ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف ایک مؤقف لے کر نکلے اور لوگ تھے کہ متاثر ہوتے چلے گئے۔ اب کہ ملک میں عملاً انتخابی مہم شروع ہو چکی (اس روز شیخوپورہ میں نواز شریف کا، حیدر آباد میں مولانا فضل الرحمن کا، نوشہرہ میں سراج الحق کا اور نوشہرو فیروز میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا جلسہ تھا) نواز شریف کو جیل میں ڈال دینا اسے اور اونچا اڑانے کا باعث بن جائے گا۔
”روک سکتے ہو، تو روک لو…‘‘ شاعر نے یہی بات ایک اور انداز میں کہی تھی ؎
جو دبا سکو تو صدا دبا دو‘ جو بجھا سکو تو دیا بجھا دو
صدا دبے گی تو حشر ہو گا‘ دیا بجھے گا تو سحر ہو گی
نواز شریف کی مثال اس بیٹسمین کی ہے جو ایک ”چانس‘‘ مل جانے کے بعد کریز پر جم گیا اور پھر بے خوف و خطر چوکے، چھکے لگا نے لگا۔ یہاں ایک سوال بھی تھا‘ کیا ایسے میں ”میچ‘‘جاری رہے گا؟ عام انتخابات جولائی میں ہو جائیں گے؟ اور اہم تر سوال یہ کہ کیا ملک کسی ماورائے آئین اقدام کا متحمل ہو سکتا ہے؟
2018ء عام انتخابات کا سال ہے۔ پائپ لائن میں موجود منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کے سنگِ بنیاد رکھے جانے کا سال۔ یہاں ہم ایک اہم منصوبے کی یاددہانی کرانا چاہتے ہیں۔ ملک کی 9 سرکاری یونیورسٹیوں میں ”سیرت چیئرز‘‘ کے قیام کا منصوبہ۔ کوئی تین سال پہلے (سات جنوری 2015ء کو) وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت ایک اجلاس میں 9 منصوبوں کی منظوری دی گئی۔ ان میں ایک منصوبہ پبلک سیکٹر کی 9 یونیورسٹیوں میں ”سیرت النبیؐ چیئرز‘‘ کا بھی تھا۔ مقصد پیغمبر ِ اسلام سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے حوالے سے درج ذیل 9 موضوعات پر تحقیق تھا:
-1 لیڈر شپ اینڈ گورننس -2 انٹر فیتھ اینڈ کمیونل ہارمنی -3 ہیومن رائٹس اینڈ سوشل جسٹس -4 بزنس، کامرس اینڈ پراپرٹی رائٹس -5 ایجوکیشن اینڈ نالج -6 سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ -7 سوشل جسٹس اینڈ ویلفیئر -8 جینڈر سٹڈیز اینڈ رائٹس آف ویمن -9 گلوبل پیس۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام اس منصوبے کے لئے 192 ملین روپے کی منظوری بھی دی گئی۔ اخبارات میں اشتہارات کے ساتھ سلیکشن پراسیس کا آغاز ہوا، چار مارچ 2016ء درخواستوں کے لئے آخری تاریخ تھی، ”انٹر فیتھ اینڈ کمیونل ہارمنی‘‘ کے موضوع پر پشاور یونیورسٹی میں چیئر کے لئے ڈاکٹر قبلہ ایاز (اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین)کا انتخاب ہو گیا۔
جون؍جولائی 2017ء میں باقی ماندہ موضوعات میں سے تین پر مزید سلیکشن ہوگئی۔ ”ہیومن رائٹس اینڈ سوشل جسٹس‘‘ کے لئے ڈاکٹر حافظ محمد اشرف (گلاسکو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے ساتھ تعلیم و تحقیق کا وسیع تجربہ) ”جینڈر سٹیڈیز اینڈ رائٹس آف ویمن‘‘ کے لئے ڈاکٹر شاہدہ پروین (ایسوسی ایٹ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی) اور ”گلوبل پیس‘‘ کے لئے ڈاکٹر محمد الیاس (ایسوسی ایٹ پروفیسر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) کو سلیکشن کی اطلاع دے دی گئی‘ تب سے معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، (نئے چیئرمین کے انتخاب کے لئے اشتہار آ چکا) اب کہ حکومت زیر تکمیل منصوبوں کو تیزی سے مکمل کر رہی ہے ”سیرت چیئرز‘‘ کا یہ کارِ خیر بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ جناب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزرا احسن اقبال اور بلیغ الرحمن پنج وقتہ نمازکی دعائوں میں ”فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ‘‘ میں اسے بھی شامل کر لیں۔