منتخب کردہ کالم

پانامہ لیکس اور اخلاقی دھماکہ…،.جنرل(ر) غلام مصطفی

یوں تو پاکستان کا ہر دن تاریخی ہے اور بعض حلقوں کی جانب سے اگر چھٹیوں کے حوالے سے ڈیمانڈ مان لی جائے تو پھر شاید 365 بھی کم پڑجائیں، ان دنوں میں 21 اپریل 2016ءجمعرات کا دن اپنی ایک الگ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ میڈیا کل صبح سے رات تک اور رات سے اب تک کل کے ہونے والے اس غیر معمولی واقع کا مختلف پہلو سے جائزہ لے رہا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نظر سے اور بساط کے مطابق اس واقعے کی تشریح کررہا ہے، تعریف کررہا ہے اور کچھ دوست اپنے تحفظات کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ اس دن ہوا کیا؟ فوج میں انتہائی اعلیٰ درجے کی قیادت میں سے چند افراد کو سزا دی گئی اور اس سزا کی کھلے عام تشہیر بھی کی گئی، جس وجہ سے سزا دی گئی وہ اس سے قبل بھی زیر بحث تھی یعنی معاشرے کی رگ و پے میں سرایت کر جانے والی ہر طرح ، ہر قسم اور ہر سطح کی بدعنوانی۔ دوسرا پہلو اس کی کھلے عام تشہیر کا ہے جس نے سب کو حیران کردیا، عام طور پر اس واقعے بارے جن امورپر تمام مکتبہ فکر کے لوگ متفق ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے:
٭ برائی کیخلاف احتساب ہونا چاہیے، ہوتا ہوا نظر آئے اور آئندہ مسلسل عمل کے طور پر اپنایا جائے۔
٭ اس ملک میں مقدس سمجھی جانے والی ایک گائے تو قربان ہوگئی۔
٭ قانون کو بلاتفریق لاگو کیا گیا سینئر ترین سے لے کر جونیئر ترین آفیسر ایک ہی صف میں کھڑے کردیئے گئے۔
٭ سب سے اہم کہ جنرل راحیل شریف نے یہ ثابت کردیا کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
قارئین کیلئے جاننا ضروری ہے کہ فوج کا ایک خود احتسابی نظام موجود ہے اور بھرپور طریقے سے کام بھی کررہا ہے۔ اس میں کہیں کمی تو ممکن ہے لیکن اس کی افادیت اور اس کے موثر ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ فوج میں اس قسم کی کارروائیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیںپبلک نہیں کیاجاتا تھا۔ کل کے واقعے میں فرق صرف یہ ہے کہ سخت ترین سزا کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر بھی کی گئی اس کے مقاصد کیا تھے؟ کیوں اتنا بڑا قدم اٹھانا ضروری سمجھا گیا؟ اور اس کے بعد تواقعات کیا ہیں؟ ان کو سمجھنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کل کے اس واقع کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ پانامہ لیکس اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات یا ان پر رد عمل اور پھر کوہاٹ میں آرمی چیف کا انتہائی واضح اور غیر مبہم بیان جس میں انہوں نے دو تین باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں سرفہرست بدعنوانی کی موجودگی میں دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کامیابی میں مشکل کا ذکر کیا، ساتھ ہی ملک کی ترقی اور سالمیت کیلئے بھی بدعنوانی کا خاتمہ ضروری قرار دیا گیا اور ساتھ ہی انہوں نے یہ پیش کش بھی کی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے جو ادارہ بھی آگے بڑھے گا فوج اس کی ہر طرح سے مدد کرے گی ۔
کل کا اقدام دراصل ایک بہت بڑا چیلنج ہے اگر سمجھا جائے تو سب سے زیادہ امتحان ہماری سیاسی قوتوں کا ہے۔ نظام عدل بھی اس کا مخاطب ہے اور جنرل راحیل نے ذاتی طور پر بھی اپنے لئے شاید زندگی میں سب سے بڑا چیلنج کھڑا کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کون کون اس چیلنج کو قبول کرتا ہے اور عوامی تواقعات پر پورا اتر کر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ضرب کاری لگانے کیلئے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج کا ساتھ دیتا ہے۔ کیا سیاستدان اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرسکیں گے ؟ اللہ کرے ایسا ہی ہو، اگر ایسا ہوتا تو ملکی حالات میں بہتری یقینی ہے۔ یقینا ہم سب کی توقع بھی یہی ہے اور دعا بھی لیکن اگر یہ نہ ہوسکا تو پھر کیا ہوگا؟اگر سیاسی قیادت اپنے فرائض میں ناکام رہتی ہے یا فرائض کی ادائیگی میں بددلی یا بدنیتی کا مظاہرہ کرتی ہے پھر اس کے بعد نظام عدل کا امتحان ہوگا کہ ہماری عدلیہ کیا اقدامات اٹھاتی ہے اور اگر نظام عدل یہ چیلنج قبول کرنے سے اجتناب کرتا ہے تو پھر یہ وہ مقام ہوگا جہاں پر جنرل راحیل شریف اور افواج پاکستان کودہشت گردی کے خاتمے، ملکی بقا اور ترقی کیلئے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہوا، اللہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان کو اس امتحان سے دوچار نہ کرے۔ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ہمارا نظام عدل کسی ایسے دوراہے پر کھڑا نظر نہ آئے جہاں ملکی سالمیت اور ترقی داﺅ لگ جائے۔ اللہ کرے جمہوریت کی دعویدار ہماری سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور جہاں ضرورت ہو قربانی بھی دے، اپنے ذاتی گروہی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے آپ کو اور جمہوریت کو سرخرو کرجائے اور قوم کے باقی اداروں کو اپنے کام کرنے دے اور کسی بڑے امتحان سے بچالے۔
بحیثیت قوم یہ ہم سب کی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ سیاستدان اس کو چیلنج سمجھتے تو ضرور ہیں لیکن اسے قبول کرنے کی بجائے اپنی روایتی فکر اور سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وہ اقدام کریں گے یا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے یہ بلا ٹل جائے۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں رائج نظام مملکت اپنے آپ کو درست کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور نظام کی تبدیلی ممکن نہیںکیونکہ نظام سے مستفید ہونے والے جن کے فیصلوں پر ذاتی یا گروہی مفاد حاوی رہا ہو اور وہ اب تک کامیاب بھی ہوتے رہے ہوں وہ اسے کیونکر تبدیل کریں گے۔بدقسمتی سے جب یہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہورہا تھا تو ہماری سیاسی قیادت اس وقت تک یہ بھی طے نہ کرسکی تھی کہ آیا پانامہ لیکس سچ بھی ہیں کہ نہیں،اور اگر سچ ہیں تو ان کی تفتیش و تحقیق کروانا بھی ضروری ہے یا نہیں ؟ اور اگر تحقیق کروانی ہی پڑے جائے تو پھر کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ نتیجہ اپنی منشا کے مطابق نکل سکے؟ جبکہ باقی دنیا پانامہ لیکس کے نتیجے میں فیصلہ کن اقدامات اٹھارہی ہے چند ممالک میں وزیراعظم سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات استعفیٰ دے چکے ہیں۔ حتیٰ کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی نہ صرف کمیشن بن چکا ہے بلکہ اگلے دو تین دنوں میں اپنی رپورٹ بھی پیش کردے گا ۔ ہماری قیادت کا فروعی معاملات پر بحث اور اختلاف صاف ظاہر کررہا ہے کہ ان کے ارادے قوم کے تواقعات کے برعکس ہیں اور وہ یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار نہیں اگر حالات اس ڈگر پر چلتے رہے تو پھر کیا ہوگا؟ یہ اتنا بڑا چیلنج ہے جس کا بوجھ صرف جنرل راحیل شریف محسوس کرسکتے ہیں ان کی سوچ یا کیفیت کیا ہوگی وہ جانتے ہیں یا پھر اس ملک کا ذی ہوش اور صاحب رائے طبقہ ۔
ایک سوچ یہ بھی ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اگر حکمرانوں نے سستی دکھائی بھی تو عوامی دباﺅ کی وجہ سے ناچاہتے ہوئے حکمران فیصلہ کن اقدام پر مجبور ہوجائیں گے اگر یہ نہیں ہوتا تو ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ ہمارا نظام عدل، احتساب کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر وہ تمام کچھ کر گزرے جو ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں بدعنوانی کا خاتمہ بھی ہواور نظام بھی چلتا رہے اور دہشت گردی کیخلاف ہماری جنگ بھی منطقی انجام تک پہنچے۔ اس کے بعد تحریر لکھتے میرے ہاتھ کانپ جاتے ہیں لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ افواج پاکستان اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتی ہے اور انہیں پورا کرنے کیلئے انتہائی پرعزم بھی ہیں۔ کم از کم اب تک اگر کسی کو اس میں شک تھا تو 21 اپریل کے واقع کے بعد دور ہوجانا چاہیے۔٭٭