منتخب کردہ کالم

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ…علی معین نوازش

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ…علی معین نوازش
پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت سے مسائل کا سامنا کیا ہے۔ اگر اُن کی گنتی کرنے بیٹھ جائیں تو ایک طویل فہرست بن جائے گی۔تاہم ایک بات تو ماننی پڑے گی اور وہ یہ کہ جتنے بھی مسائل کا سامنا کیا یا اب بھی پاکستان کو کرنا پڑ رہا ہے، اُن سے نبردآزما ہونے کے لیے ہم نے عملی طور پر کوئی اِقدامات نہیں کیے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسائل کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب وہ مسائل بڑھ جاتے ہیں تب ہم اُن کا حل تلاش کرتے ہیں دہشت گردی کے مسئلے کو ہی لے لیجیے، جس کا پودہ 80کی دہائی میں لگایا گیا اور پچھلی دہائی کے آخر تک، کہ جب وہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا، تب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے۔ بِجلی کا مسئلہ لے لیں۔ ہم نے کئی سال سنگین لوڈ شیڈنگ برداشت کی اور اب بھی کر رہے ہیں مگر جب لوڈشیڈنگ شروع ہونے سے پہلے ڈیمانڈ تیزی سے بڑھ رہی تھی مگر تب بھی ہم نے کچھ نہیں کیا۔ آج بھی بہت سے مسائل سر اُٹھا رہے ہیں جن کے مستقبل میں ہم پر تباہ کُن اثرات ہو سکتے ہیں۔ اِن میں تعلیم، صحت اور بڑھتی ہوئی بُنیاد پرستی بھی شامل ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا ہمیں خاتمہ کرنا ہے۔ البتہ، اِن میں سے سب سے اہم مسئلہ اور جس کا حل فوری طور پر ضروری ہے، وہ پانی کا مسئلہ ہے۔جب میں پانچ سال کا تھا، ہمارے گھر میں ایک کُنواں ہوتا تھا۔ہم اُسی کنویں کا پانی پیتے بھی تھے اور اِستعمال بھی کرتے تھے اور وہ ہمارے لیے کافی ہوتا تھا۔ مگر میرے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ کُنواں سوکھتا گیا۔ اس کے حل کے لیے ہم نے گھر میں بور کروایا۔ وہ بھی کچھ سال تک ہی کارآمد رہا اور وہ بھی سوکھ گیا۔ اُس کے بعد ہمیں ”واٹر سپلائی” پر انحصارکرنا پڑا۔اِبتداء میں تو مسلسل پانی آتا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ پانی ہفتے میں صرف چند گھنٹے ہی آنے لگا۔ اور پھر وہاں سے بھی پانی کی فراہمی بند ہو گئی۔ اب ہمیں ٹینکروں سے پانی لینا پڑتا ہے یا پھر منرل واٹر کی بوتلوں سے۔ یہ صِرف میری روداد نہیں، پورے پاکستان کا یہی حال ہے۔آپ کو جان کر شاید تعجب ہوکہ پاکستان ”واٹر سٹریس لائن ” سے 1990 میں نیچے جا چکا تھا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پانی کے شدید دباؤکا اشکار ہو گیا۔ اُس کے بعد 2005 میں پاکستان پانی کی کم ترین سطح سے بھی نیچے چلا گیا یعنی پانی نایاب ہو گیا۔اب اندیشہ یہ ہے کہ 2025تک یعنی اب سے 7 سال بعد، پاکستان کو شدید قلت آب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرا تصور کریں، اب سے سات سال بعد ہم پانی کو اُسی طرح ترس رہے ہوں گے جیسے ابھی بجلی کو ترستے ہیں۔پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا پانی کا صارف ہے۔ مگر ہم صر ف دریائے سندھ کے نظام اور بارشوں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ اور بارشیں موسمی تبدیلی کے باعث سالہاسال سے کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہیں۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں پانی نہیں آتا۔ اُنھیں پانی حاصل کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے یا ٹینکر مافیا سے پانی لینا پڑتا ہے۔پاکستان کے خشک علاقوں میں صورتِ حال اس سے بھی بدتر ہے۔ ہمارے پاس دہائیوں سے پانی کی فراہمی کا کوئی نیا اور بڑا نظام نہیں بنایا گیا۔ ہم نے 60 کی دہائی کے بعد سے کوئی بڑا ڈیم بھی نہیں بنایا۔زیادہ پریشان کُن بات تو یہ ہے کہ پاکستان صرف تیس روز کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کر خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ بھارت تیزی سے ان دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جو کہ پاکستان کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے ؟جو کہ ہماری زرعی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔ جنگی صورتِحال کے پیش ِنظر بھارت ہمیں ہمارے آبی وسائل کو کافی حد تک کم کر رہا ہے اور ہم اِس کا کوئی مُتبادل تلاش نہیں کر رہے۔
پانی کی قلت سے نمٹنا کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ لیکن اس سے بروقت نمٹنا اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر عمل درآمد ضروری ہے وگرنہ لوگ مر جائیں گے۔ انسانی جسم میں پانی کا تناسب ساٹھ فیصد ہوتا ہے لہٰذا بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔سب سے پہلے، ہمیں ملک بھر میں پانی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے ڈیموں کی تعمیر اورآبپاشی کے نظام تک بہتر رسائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پانی کی رسائی کو خشک عِلاقوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا، ہمیں گہری ڈرلنگ کے ذریعہ زیرِ زمین پانی تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر زیرِ زمیں سطح آب کم بھی ہو تو ہمیں رسائی رہے۔تیسری بات ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم پانی ضائع نہ کریں،ترسیل اور روزمرہ استعمال میں دونوں میں۔ یہ ایک قیمتی وسیلہ ہے اور اِس کا اِستعمال بھی اُسی حساب سے ہونا چاہیے۔ ہمیں اب پانی کو ری سائیکل کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ اس وقت ہمارا استعمال شدہ پانی نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں چلا جاتا ہے۔ نہ صرف اس سے آلودگی بڑھتی ہے بلکہ اس سے پانی ضائع بھی ہوتا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے ہم، گندے پانی کو ری سائیکل کر کے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بارشوں کے اِضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ہم پانی کے بڑے ذخائر بنا کر مون سون بارشوں کو ذخیرہ کر کے استعمال میں لا سکتے ہیں۔
ایک اور ذریعہ آب، سمندر ہے۔ ٹریٹمنٹ کے ذریعے، ہم سمندر کے پانی کو پینے اور استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ مگر ابھی بھی ایک بھی پلانٹ ایسا نہیں جو کہ پانی کو قابلِ استعمال بنا سکے۔ یہ بات باعث ِشرم ہے کہ کراچی جیسا شہر جو کہ ایک بہت بڑے سمندر کے کنارے ہے، وہ اس کو استعمال کرنے کے قابل نہیں۔آخر میں ایک اہم بات یہ کہ ہمیں صرف پانی کی ایک اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے جو کہ پانی کی ترسیل کی دیکھ بھال بھی کرے اور یقینی بھی بنائے۔ اتھارٹی میں ایسے ماہرین ہوں جو کہ مسائل کا حل پیش کریں، ریسرچ بھی کریں اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی بھی کریں۔ اتھارٹی کو فنڈز کی فراہمی بھی ضروری تاکہ پانی کے منصوبے شفافیت سے لگائے جا سکیں۔اس مسئلے کو توجہ نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا بااثر طبقہ اور پالیسی میکرز کے لئے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے پاس پینے کا پانی اور ٹینکرز خریدنے کے لیے معاشی وسائل موجود ہیں یا پھر وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے اپنے گھروں تک پانی کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ ہمارے بہت سے حکمران پوش علاقوں میں رہتے ہیںتاہم، ہماری آبادی کی اکثریت مسئلے کا شکار رہتی ہے۔ہماری حکومت اور حکمرانوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ پانی انسان کی اہم ضرورت ہے۔ پانی سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے۔ ہم کھانے کے بغیر تو ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں مگر پانی کے بغیر چند روز ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ حکومت اب اس بات کو یقینی بنائے کہ آنے والے برسوں میں ہر پاکستانی کو پانی میسر ہو گا۔ کیونکہ لوڈشیڈنگ جتنی بھی بری ہو وہ انسانی جان نہیں لیتی مگر پانی کی قلت چند دنوں میں انسان کو مار دیتی ہے