منتخب کردہ کالم

پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی کوششیں۔۔۔ تنویر قیصر شاہد

مجھے پچھلے ایک سال سے بوجوہ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے بڑے اور مہنگے ہسپتالوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔ ویسے تو گذشتہ کئی برسوں سے یہ اعصاب شکن سلسلہ جاری ہے لیکن یہ جو سال گزرا ہے، اس نے تو گویا جان ہی نکال دی ہے۔ ڈاکٹروں اور ادویات فروشوں کو بُک بھر بھر کر روپے دینا پڑتے ہیں۔ ذاتی طور پر یہ تلخ تجربہ ہوا کہ امراض کے مقابل مالی وسائل دستیاب نہ ہوں تو لوگوں کو گھر بار، پانڈے ٹینڈے کیوں اور کیونکر فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ اور یہ کہ بیماریاں گھر کا ہونجا کیسے پھیرتی ہیں۔ اسی لیے تو سیانے دعا مانگتے ہیں کہ شالا، کوئی کچہری اور ہسپتال کا منہ نہ دیکھے۔ انفرادی سطح پر آئی ایس پی آر، وزارتِ اطلاعات اور ملک ریاض صاحب کا بحریہ ٹاؤن دستگیری اور اعانت کاری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا دائرہ خدمت ظاہر ہے وسیع ہے نہ یہ بیس کروڑ عوام کے اکثریتی حصے تک رسائی رکھتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب میرے بیٹے کو اچانک شیاٹیکا درد نے اپنی گرفت میں لے لیا تو ایک اور بڑی ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا۔ لاہور اور اسلام آباد کے دو معروف نیوروسرجنوں سے رابطہ کیا تو علاج کے لیے ایک نے دو لاکھ اور دوسرے نے ڈھائی لاکھ روپے طلب کیے۔ تب یہ اندازہ ہوا کہ بے چارگی اور بے بسی کے مارے بے وسیلہ عوام، امراض لاحق ہونے کے باوجود، ٹونے ٹوٹکوں اور محض نیم حکیم بابوں کی طرف کیوں بھاگتے ہیں۔ مہنگی دواؤں اور مہنگے ڈاکٹروں کی فیسیں تہی دست لوگ افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ نیم حکیموں اور دَم درود کرنے والوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک روز وہ خجل خوار ہوکر قبر میں جا پہنچتے ہیں۔ اگر ریاست اور اس کے حکمران باوسائل ہوں اور عوام کے دکھوں سے آشنا بھی تو عوام کو بیماریوں کی رسوائیوں سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ہسپتالوں کی راہداریوں میں تڑپتے بے آسرا مریضوں کی چیخیں بلند ہورہی ہیں مگر ریاست کہاں ہے؟
لگتا ہے وزیراعظم محمد نواز شریف کے کانوں تک ان تنگدستوں کی چیخیں آخر کار بازگشت بن کر جاٹکرائی ہیں۔ وہ مستحق اور بے وسیلہ مریضوں کی دستگیری کرتے ہوئے عملی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے چونکہ ذاتی حیثیت میں ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے واسطہ پڑ رہا ہے، اس لیے مَیں شرحِ صدر کے ساتھ شہادت دے سکتا ہوں کہ ریاست اور حکمرانوں کی طرف سے جب جاں بہ لب مریض کی دستگیری کی جاتی ہے تو اسے ہر اعتبار سے کس قدر ریلیف ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں جناب نواز شریف کا شروع کردہ ’’نیشنل ہیلتھ پروگرام‘‘ ملک بھر کے تنگدستوں اور بے وسیلہ مریضوں کے لیے نعمتِ کبریٰ سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ یہ پروگرام صحیح معنوں میں مستحقین کو ریسکیو کرنے سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے 23 ضلعوں میں، پہلے فیز کے طور پر، اس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس کے لیے نو ارب روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔ بی آئی ایس پی کے فراہم کردہ اور تصدیق شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر غریب اور نادار مریض پچاس ہزار سے لے کر تین لاکھ روپے تک کے سرکاری طبّی اخراجات سے مستفید ہو سکیں گے۔ اگر خدانخواستہ بیماری زیادہ مہلک ہے تو وزیراعظم نواز شریف کے شروع کردہ ’’نیشنل ہیلتھ پروگرام‘‘ کے تحت حکومت چھ لاکھ روپے کے اخراجات بھی سرکار ہی برداشت کرے گی۔ یہ سہولت سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ان ہسپتالوں اور تئیس اضلاع کی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے۔ مستحقین، جنہیں کمپیوٹرائزڈ گورنمنٹ میڈیکل کارڈ جاری کیے گئے ہیں، استفادہ بھی کررہے ہیں۔ ٹی وی پر علاج کی نئی سہولتوں کے حوالے سے جن مریضوں کے انٹرویو دکھائے اور سنائے جارہے ہیں، یہ محض ڈرامہ نہیں ہیں اور نہ ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے متراف ہے۔ وزیراعظم جناب نواز شریف کی طرف سے یہ نعمت واقعی معنوں میں عمل بن کر لوگوں تک رسائی اختیار کرچکی ہے۔ یہ شاندار سہولت دراصل وطنِ عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کی جانب اولین قدم ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہئے۔ یوں جناب نواز شریف کے اس مکالمے پر یقین ہونے لگتا ہے جس میں وہ یوں کہتے سنائی دیتے ہیں: ’’سیاست دراصل عوام کی خدمت کا نام ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’اب غریب اور مستحق مریضوں کو علاج کے لیے اپنے گھر بار اور برتن فروخت نہیں کرنا پڑیں گے۔‘‘
وطنِ عزیز، جہاں ’’عوامی خدمت‘‘ کے نام پر عوام کا ہمیشہ استحصال کیا جاتا رہا ہے اور لوگ فلاحی ریاست کا تصور محض ایک وہمہ اور خواب سمجھتے ہیں، میں نیشنل ہیلتھ کے اس شاندار پروگرام پر عوام اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ اگرچہ ابھی اکثریتی عوام کو اس پروگرام تک رسائی نہیں ہے لیکن رفتہ رفتہ اس خدمتی دائرے سے سبھی مستفید ہوتے جائیں گے۔ گذشتہ تھوڑے سے ایام کے دوران صرف وفاقی دارالحکومت میں ایک ہزار کے قریب مستحق ترین غریب مریض اس پروگرام کے تحت جدید اور شاندار علاج معالجے کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ فوری طور پر ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا دائرہ کار آزاد کشمیر میں مظفر آباد اور کوٹلی کے اہم شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ مظفر آباد میں ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار خاندان ’’نیشنل ہیلتھ پروگرام‘‘ کے سہولت و صحت کارڈز وصول کرچکے ہیں۔ اگر کوٹلی کے لوگ بھی اس فہرست میں شامل کر لیے جائیں تو استفادہ کرنے والے خاندانوں کے افراد کی تعداد بیاسی ہزار تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک بھر میں پینتیس لاکھ افراد، پہلے فیز میں، جناب نواز شریف کی فراہم کردہ اس سہولت سے منسلک ہوں گے۔ یقیناًاس کا کریڈٹ براہ راست وزیراعظم صاحب کو جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی جانب اٹھنے والا یہ قابلِ تعریف قدم فی الحقیقت بانی پاکستان کے آدرشوں کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ بھی تو پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے، وگرنہ متحدہ ہندوستان میں تو ویسے بھی اسلامیانِ ہند زندگی بِتا ہی رہے تھے۔
عوام کو علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم مفت فراہم کرنا بھی فلاحی ریاست کی بنیادی اور اولین ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم جناب نواز شریف جہاں عوام کو صحت کی سہولتیں مفت بہم پہنچانے کے لیے میدان میں اترے ہیں، وہیں ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی پاکستانی عوام کو ماڈرن اور جدید سہولتوں سے مزین تعلیم کی دولت و نعمت فراہم کررہی ہیں۔ مریم نواز شریف صاحبہ تعلیم کے میدان میں خدمت کا جو جذبہ لے کر سامنے آئی ہیں، یہ بھی دراصل ان کے اپنے والدِ گرامی کے ’’پرائم منسٹر ایجوکیشن ریفارمز پروگرام‘‘ ہی کا حصہ ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ تعلیمی اصلاحات کی فوری اور بروقت تنفیذ کے لیے وزیراعظم کی صاحبزادی بروئے کار آرہی ہیں۔ ابھی یہ عظیم منصوبہ صرف اسلام آباد تک محدود ہے جہاں کے 422 سکولوں کالجوں اور ان میں زیرِ تعلیم بچوں کا مستقبل بنانے اور سنوارنے کا بیڑہ اٹھایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بائیس سکولوں کو ہر طرح سے مکمل کیا گیا ہے۔ انہیں جدید بسیں، ماڈرن لیبارٹریاں، سائنس ٹیچرز اور آئی ٹی لیبز فراہم کردئیے گئے ہیں۔ طلباء اور اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے اور انہیں کڑے نظم و ضبط میں لانے کے لیے بایو میٹرک کا نظام بھی متعارف کروا دیا گیا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف کی نیت اور اعلان یہ ہے کہ آئندہ ایک برس کے اندر اندر اسلام آباد کے باقی چار سو سکولوں و کالجوں کو بھی اسی طرح جدید سے جدید تر بنا کر ماڈل کی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پروگرام دراصل محترمہ مریم ہی کا برین چائلڈ ہے جس میں آدرشوں کے تمام ممکنہ رنگ بھرنے کے لیے بنتِ نواز شریف نے گذشتہ سال واشنگٹن میں خاتونِ اول محترمہ مشعل اوبامہ سے بھی ملاقات کی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان بھر کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی خاتون اول نے مریم نواز شریف کو سات کروڑ ڈالر کی تعلیمی امداد فراہم کرنے کا یقین بھی دلایا تھا تاکہ Let Grils Learn پروگرام کے تحت پاکستان کی زیادہ سے زیادہ بچیاں علم حاصل کرسکیں۔ خدا کرے محترمہ مریم نواز شریف اس عظیم تعلیمی اور اصلاحی منصوبے میں خاطر خواہ کامیاب ہوسکیں۔