منتخب کردہ کالم

پاگلو اب بھگتو چائے والے کو!… نازیہ مصطفیٰ

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جابرانہ تسلط اور بھارتی فوج کے ظلم و ستم کے خلاف کشمیری عوام کا مسلسل احتجاج دنوں کی سنچری مکمل کرکے ناصرف نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے بلکہ کشمیریوں کی لازوال جدوجہد اور عزمِ پیہم کی نئی داستان بھی رقم کیے چلا جارہا ہے۔ اس خالص عوامی احتجاج میں کشمیری عوام اب تک ایک سو پندرہ سے زیادہ جانوں اور بچوں کی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں بلکہ پیلٹ گولیوں سے زخمی ہونے والے پندرہ ہزار کشمیریوں کا خون بھی اس احتجاج کو لہورنگ بنا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوامی احتجاج کو چار ماہ ہونے کو ہیں، لیکن ایک جانب بھارت کے جوروستم میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے نہ ہی دوسری جانب کشمیریوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک درجن سے زیادہ تنظیموں کے اتحاد سی سی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز اب تک نو ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرچکی ہیں۔کشمیر میں لاگو خصوصی کالے قوانین کے تحت گرفتار ہونے والوں کی اکثریت کو مختلف جیلوں میں منتقل کرکے اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ سی سی ایس کی تحقیق کے مطابق پندرہ ہزار زخمی افراد میں سے چار ہزار افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ایسے ہیں جن کے چہرے پر پیلٹ گنز کے چھروں کے زخم آئے ہیں۔ سینکڑوں افراد آنکھوں میں چھرے لگنے سے جزوی یا مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو چکے ہیں،بینائی سے محروم ہونے والے افراد میں بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں جو گلیوں اور محلوں میں کھیلتے ہوئے ان چھروں کی زد میں آگئے تھے۔بھارتی حکومت نے یاسین ملک اور میر واعظ جیسے حریت کانفرنس کے سرکردہ کشمیری رہنماؤں سمیت حریت کانفرنس کے ایک ہزار سے زیادہ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کررکھا ہے،ان کے علاوہ ستاسی سالہ سید علی گیلانی اور شبیر احمد شاہ اپنے گھروں پر نظر بند ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں جبر کی ایک نئی تایخ رقم ہورہی ہے۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں احتجاج کی لہر نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا،حتیٰ کہ کشمیر میں نہتے عوام پر چھروں والے کارتوس چلانے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں بھی چیخ اُٹھیں۔ کشمیریوں کے احتجاج کی لہر کو دبانے اور اس کی طرف مبذول ہونے والی توجہ کا رخ موڑنے کیلئے بھارتی حکومت اور فوج نے مل کر پہلے اُڑی کے فوجی کیمپ پر ”دہشت گرد‘‘ حملے کا ڈرامہ رچایا، جو پہلے ہی ہلے میں بری طرح ناکام ہوگیا اور پھر اِس ڈرامے کی دوسری قسط میں بھارتی حکومت اور بھارتی فوج نے مل کر آزاد کشمیر میں ”سرجیکل سٹرائیک‘‘ کی ”فلم‘‘ چلانے کی کوشش کی اس فلم کا خوب ڈھنڈورا پیٹ کر اِسے کامیاب کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ فلم اُڑی کے ڈرامے سے بھی زیادہ بری طرح پٹ گئی۔ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کرکے مبینہ دہشت گردوں کے مبینہ کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کرکے اپنی جانب سے تو بڑا تیر مارا تھا، لیکن پہلے بھارت کے اِس دعوے کے خلاف پاکستان کی جانب سے فوراً ہی تردید آگئی ، پھر مسئلہ یہ ہوا کہ خود بھارتیوں کو بھی اپنی فوج کی اس طرح کی ”دلیری‘‘ پر یقین نہ آیا۔ اس لیے ہندوستانی میڈیا اور اپوزیشن نے اپنی حکومت اور فوج سے اس سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت مانگنا شروع کردیے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کا کوئی ”جراحی حملہ‘‘ جب ہوا ہی نہ تھا تو اس کے ثبوت کہاں سے فراہم کیے جاتے؟ یوں بھارت کیلئے پاکستان، دنیا اور اپنوں کے سامنے جھوٹ کو نبھانا مشکل ہوگیا۔ بھارتی حکومت نے اپنوں کو مطمئن کرنے کیلئے کہنا شروع کردیا کہ ”فوج نے حملے کے شواہد دے دیئے ہیں‘‘ لیکن بھارتی نائب آرمی چیف نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں خود ہی ثبوتوں کا بھانڈا پھوڑ ڈالا کہ ”فوج کو کارروائی کے لیے بھیجا تھا، شواہد اکٹھا کرنے کے لیے نہیں‘‘۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ”ماموں‘‘ بننے والے بھارتی عوام کے نمائندوں نے عوام کے سوالات فوجی جرنیلوں کے سامنے رکھے تو وہ کوئی اطمینان بخش جواب دے سکے اور نہ ہی شواہد فراہم کرنے کی یقین دہانی کراسکے۔
سرجیکل سٹرائیک کے کوئی ثبوت نہ دے سکنے کے باوجود بھارتی سرکار سرجیکل سٹرائیک کے دعوے پر بضد ہے، حالانکہ ساری دنیا سمجھتی ہے کہ بھارتی فوج کا پاکستانی علاقے میں داخل ہوکر کسی بھی قسم کا آپریشن کرنا سرے سے ہی خارج ازامکان ہے۔ جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاک بھارت سرحد، ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر دونوں جانب بہت بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات ہیں، بھارت کی جانب سے دو تین کلومیٹر کی بات کی جاتی ہے حالانکہ ایل او سی پر ہر پانچ سو میٹر (نصف کلومیٹر) پر فوجی چوکیاں موجود ہیں۔اس کے علاوہ ایل او سی پر پاک فوج کی ایک کور سے زیادہ تعداد میں فوجی دستے ہر وقت موجود رہتے ہیں اور پاک فضائیہ بھی شمال سے جنوب تک فضائی حدود پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔ دنیا نے بھارتی دعووں کو کوئی اہمیت دینے کی بجائے سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کی حقانیت پرکھنے کیلئے درجنوں سوالوں کی کسوٹی بھارت کو تھمادی ہے کہ”آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں‘‘۔ عالمی میڈیا نے بھی بھارتی ”شوخوں‘‘ کو بتادیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کسی بڑی کارروائی کے بغیر اور خاموشی سے سرجیکل سٹرائیک ممکن نہیں ہے، کیونکہ سرجیکل سٹرائیک میں مخالف کے علاقے کے اندر گھس کر کارروائی کرنابھارتی فوج کے بس کی بات ہی نہیں۔ یوں بھی سرجیکل آپریشنز نہایت مشکل ہوتے ہیں، ایسے آپریشنز کیلئے فوج کی بے پناہ مہارت کے ساتھ ”اسٹیلتھ ٹیکنالوجی‘‘جیسی اعلیٰ پائے کی تکنیکی مدد بھی درکار ہوتی ہے اور یہ ٹیکنالوجی فی الحال بھارت کے پاس موجود نہیں ہے۔
قارئین کرام!!کم و بیش تین سال قبل نریندر مودی کو بھارتی عوام نے اِس امید کے ساتھ اپنا وزیراعظم چنا تھا کہ ایک غریب گھرانے میں جنم لینے والا شخص اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد غریبوں کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کرے گا۔ بھارتی عوام نے مودی کو اپنی ڈوبتی نیا باحفاظت منجھ دھار سے باہر نکال لانے کیلئے پردھان منتری بنایا تھا۔ بھارت واسیوں نے نریندر مودی کو خطے کی تقدیر بدلنے کیلئے اپنا وزیراعظم منتخب کیا تھا، لیکن بھارت کے آخری انتخابات کے بعد سے گنگا دیس میں پہلے سے موجود مسائل حل ہونے کی بجائے ناصرف مسائل مزید بڑھ گئے ہیں، بلکہ مسائل کی سنگینی اور شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔آج کشمیر سے لے کر بحر ہند تک انڈیا کے چپے چپے پر اگر آئے روز ہندوستانیوں کیلئے نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں تو یہ سارے گل کسی اور نے نہیں بلکہ گجرات کے اُسی چائے والے نے کھلائے ہیں، جس کے پیچھے کچھ عرصہ قبل صرف گجراتی ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی اکثریت پاگل ہوئے پھرتی تھی۔جن ہندوستانیوں نے انتخابات میں مودی کو ووٹ نہیں دیے تھا، وہ اب بی جے پی کے حامیوں کو برملا کہہ رہے کہ ”پاگلو! اب بھگتو چائے والے کو!