منتخب کردہ کالم

پٹواریوں کا پاکستان .. کالم حسن مجتبیٰ

پٹواریوں کا پاکستان .. کالم حسن مجتبیٰ

کئی دن ہوئے کہ، شاید فاروق احمد لغاری کے دور صدارت میں جن دنوں راضی فارم اسکینڈل والی خبریں چل رہی تھیں تو اسلام آباد میں بلیو ایریا والے علاقے میں مجھ سے سندھ کے دور دراز علاقے جیکب آباد سے آئے ہوئے کسی شخص نے ایوان صدر کا پتہ پوچھا تھا۔ میں نے اسے بقول شخصے وہ ’’کرائے کیلئے خالی ہے‘‘ ایوان صدر کا پتہ بتاتے ہوئے اس بزرگ شخص سے پوچھا تھا کہ ایوان صدر میں اسے آخر کیا کام پڑ گیا ہے؟ تو اس نے کہا تھا ’’ ایک با اثر شخص نے علاقے کے پٹواری سے مل کر میری زمین کے کھاتوں میں ردوبدل کروا لیاہے۔ اور اسکی شکایت مجھے صدر مملکت کو کرنی ہے۔‘‘ تو میں بزرگ کی اس بات پر اپنی ہنسی نہ روک سکا تھا۔ میں نے برجستہ کہا تھا کہ بزرگو اس وقت تو خود صدر فاروق لغاری کوبھی کچھ ایسی ہی نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے کہ اس نے اپنے علاقے کے پٹواریوں کو اپنے اثر ورسوخ سے اپنے راضی فارم کے کھاتے تبدیل کرواکر اوپر مہران بنک سے قرضے لیے۔
یہ انیس سو چورانوے کا زمانہ تھا جب صدر کو آئین کے اٹھاون ٹوبی کے تحت اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور وزیر اعظم کو پھر غلام اسحاق خان تھا یا فاروق احمد لغاری کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستانی صدر کے ایسے اختیارات پر پڑوسی ملک بھارت کے ایک ممتاز صحافی نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ ’’ اتنی جلدی صدر غلام اسحاق خان اپنے چشمے کا نمبر تبدیل نہیں کرتا جتنی تیزی سے اس نے منتخب وزیر اعظم اور منتخب حکومتیں تبدیل کیں ‘‘ پھر ایسا ہو ا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تاریخی محاذ آرائی میں خود تو حکومتیں ان سمیت ڈنڈا ڈولی ہوئیں لیکن غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کو بھی ترتیب وار ، بنوں کے اسماعیل خیل ( جہاں غلام اسحاق خان تو شاذو ناد ر گئے ہوں ) اور ڈیرہ غازی خان کے چوٹی زیریں جانا پڑ گیا۔
کس نے جانا تھا کہ وہ آصف علی زرداری جو بقول جرمن مصنف ہینگ جی۔ کیئسلنگ (کتاب :فیتھ یونٹی ڈسپلن آئی ایس آئی پاکستان) کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بینظیر بھٹو کے ساتھ زیادتیوں کیلئے جیلوں میں رکھا اور ’’بار گیننگ چپ‘‘ کے طور پر استعمال کیا، ایک دن اسی ایوان صدر میں ریاست کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان بھی ہوگا اور پاکستان کی تاریخ میں وہ اور اسکی حکومت اپنی میعاد بھی پوری کریں گے۔ لگتا ہے کہ شاید صدر زرداری اور اسکی پارٹی آخری تھے جنہوں نے اپنی مدت پوری کی لیکن وزیر اعظم کی قربانی انہوں نے بھی دی۔
ملک سے محلاتی سیاست اور محلاتی سازشیں ہیں کہ جاتی ہی نہیں۔ بس اختیارات اور طاقت کے منبع اور تکون تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی اسے ٹرائیکا کہتے ہیں تو کبھی کچھ۔
اب پاکستان کی وہ روایتی اسٹیبلشمنٹ کا تصور نہیں رہا اس میں مزید ادارے اور افراد شامل ہو چکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا حامی میڈیا بھی اس کاایک حصہ ہی بنا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ملک کے جو اصلی اور وڈے مامے چوہدری ہیں سو ہیں۔ بندوق اور قلم کے دھنی اب تیری سرکا ر میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ ملک ہے کہ آج تک چھپنی محلاتی سیاست اور چھپنی محلاتی سازشوں کا شکار ہے۔
چھپنی محلاتی سیاست اور محلاتی سازشیں کیا ہیں؟ چھپنی اس لیے کہ یہ زیادہ تر انیس سو چھپن سے ہی ملک سے نقشے باری کچھ اس طرح ہوئی تھیں کہ عوام کو اب تک بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ مس چھپن فلم بھی اس زمانے کی بات ہے۔ تو تھر میں بڑا قحط جسے ’’چھپنی ڈکار‘‘یا ’’چھپنی قحط‘‘ آج بھی کہا جاتا ہے۔ انیس سو چھپن کا پہلا دستور بنا بھی اور پھر معطل و مسترد ہوا۔ کسی نے تب ایک طالب علم سے پوچھا تھا کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہے تو طالب علم کا جواب تھا آج صبح تک تو فیروز خان نون تھا اب دوپہر کا پتہ نہیں۔ اور اب بھی معاملہ کوئی زیادہ اندیشوں کی حد تک مختلف نہیں۔اور جب وزیر اعظم ہو ہی ’’کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن‘‘ کی سطر بنا ہو منیر نیازی کی تو پھر۔
لیکن پاکستان میں پاور یا طاقت کا ایک اور منبع ہے جسکی طاقت رہنے ہی رہنی ہے انقلاب آئیں کہ بغاوتیں یا تبدیلیاں آ کر چکنے کے بعد چلی جائیں کہ ٹھہر جائیں وہ اصل طاقت ہے پٹواری کی۔ پٹواری اور اسکی پٹوار رہتے اسٹیٹس کو تک قائم رہنی ہے۔ کہ یہ ملک جناح صاحب اور ان کے ٹائپ رائٹر سے زیادہ پٹواریوں نے ہی بنایا تھا کہ غلط ملط لکیریں تو پینسلوں سے نقشوں پر انہوں نے ہی کھینچی تھیں۔ ریڈ کلف نے نقشوں پر درانتی پکڑی ہوئی تھی۔نثر اسکی پہلے سے ہی خراب تھی۔ تبھی تو اگر رسوئی مشرقی پنجاب میں رہ گئی تو گھر کا آنگن مغربی پنجاب میں۔ تبھی تو کچھ دن ہوئے اس ملک کی اپنے اور ہمارے دنوں کی عظیم فنکارہ روحی بانو اپنے ایسے آج میں بھی ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو میں کہہ رہی تھی کہ میرے پرکھے (بڑے) اس (مشرقی) پنجاب میں رہ گئے۔ ٹی وی اسکرین سے وہ مجھ کو جھانک رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پٹوار نے اس ملک کے سب لوگوں کو روحی بانو بنایا ہوا ہے۔ اس پٹوار اور اسکے پٹواری کا نہ شہباز شریف کچھ کر سکتا ہے نہ عمران خان۔
میرے اس وقت دو دوست پنجاب کے دو مختلف شہروں میں اپنی اپنی پٹواروں میں پٹواریوں کے ترلے کرنے گئے ہوئے ہیں کہ وہ انکے آبا ئو اجداد کی زمینوں سے کھلواڑ مت کھیلیں پلیز!سندھ میں تو پورے کا پورا محکمہ مال اب کہتے ہیں کمپیوٹر میں حنوط شدہ ہے لیکن اسکی چابی بلاول ہائوس میں ہے۔ سندھ کی سب زمینوں پر بلاول ہائوس اور ہر شہر میں بلاول ہائوس بناکر دینے والوں کی نظر ہے ۔ اور پٹواری اپنی پٹوار کے سرخ بستے لے جا کر وہاں بیٹھے ہیں۔ صرف کراچی کے ملیر ضلع کے تپہ ملیر و گڈانی کے پٹواری کی پاور سندھ کے چیف سیکرٹری اور آئی جی سے زیادہ ہے۔
آج تک کرپشن پر بڑے بڑے بھاشن دینے والے بڑے توپ خان نہ کسی صدر اور نہ وزیر اعظم نے کسی ڈی سی سے پوچھا ہے کہ انکے ملکی دوروں کے دوران ریسٹ ہائوس اور سرکٹ ہائوسوں میں منزل اندازی کے وقت جو خدمات و کھانے پینے پیش کیے جاتے ہیں تو انکا کس طرح بیچارہ پٹواری بندوبست کرتا ہے اور اسکی رقوم کہاں سے آتی ہیں؟ ظاہر ہے اس چھوٹے موٹے کاشتکار کی جیب سے جس کیلئے ہی فیض احمد فیض نے کہا تھا:
جس کی ایک انگشت سرکار نے کاٹ لی، دوسری مالیے کے بہانے پٹوار نے کاٹ لی۔ پٹوار نے ملک کاٹ لیا۔

……………….
تعلیمی کیئرئر پر سوالات اور جوابات