منتخب کردہ کالم

پھر خوف کیوں؟…ڈاکٹر صفدر محمود

پھر خوف کیوں؟…ڈاکٹر صفدر محمود
قوموں کے عروج و زوال کے ساتھ تاریخ بھی بدلتی رہتی ہے۔ قومیں ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں، 1857کے دو تین برس بعد کے برطانوی تجزیے دعوے کرتے ہیں کہ برطانوی حکمرانوں نے مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا تھا اور تجزیہ نگاروں کو یقین تھا کہ اب انگریز آرام سے ہندوستان پر دو صدیوں تک حکومت کرسکتے ہیں لیکن وہی کچلے ہوئے مسلمان بیدار ہوئے، منظم ہوئے اور تحریک آزادی کے ذریعے نوے برس کے اندر اندر ہندوستان کو تقسیم کرکے ایک آزاد مسلمان مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ شاید ایسا نہ ہوسکتا اگر مسلمانوں کو اعلیٰ درجے کی قیادت نصیب نہ ہوتی ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی اور اس کی کامیابیاں کافی حد تک لیڈروں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ ذرا تاریخ کو گہری نظر سے پڑھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کیا آج کا پاکستان وہی ہے جو 1947میں معرض وجود میں آیا تھا؟ کیا آج کا پاکستان وہی ہے جس پر 1958اور 1977میں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا مسلط کئے تھے؟ کیا آج کا پاکستان ویسا ہی ہے جس پر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے آرمی رول نافذ کیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر سوال کا جواب نفی میں ملے گا کیونکہ پاکستان بالکل بدل چکا ہے، ادارے، سیاست، عسکری سوچ اور عزائم، میڈیا، عام شہری حتیٰ کہ ہر شے بدل چکی ہے۔ پرانے پاکستان میں حکمرانوں کا نہ کبھی احتساب ہوا تھا نہ ہی انہیں کوئی ایسا ا ندیشہ ہوتا تھا، چنانچہ وہ بلا خوف و خطر لوٹ مار کرتے اور بیرون ملک اثاثے بناتے رہے۔ عدلیہ حکمرانوں کی مرہون منت رہی اور ان کی مرضی کے فیصلے جاری کرتی رہی۔ ڈوگر کورٹ اور جسٹس منیر کورٹ ہماری تاریخ کا افسوسناک باب ہیں لیکن اب عدلیہ بھی بدل چکی، فوج بھی اپنی حدود متعین کرچکی، میڈیا بھی آزاد ہے، عام شہری بھی پہلے کی نسبت زیادہ باشعور ہوچکا ہے، سیاسی پارٹیاں بھی زیادہ متحرک ہیں اور ملک کی فضا پر تبدیلی کے واضح آثار نظر آتے ہیں۔ احتساب وقت کی اہم ضرورت ہے اور احتساب کے ادارے کو مضبوط کئے بغیر کرپشن پر قابو نہیں پایا جاسکتا، اگر ضمیر مطمئن ہے اور دامن صاف ہے تو احتساب سے گھبرانا کیوں اور اس کے لئے کسی ادارے پر الزام لگانا یا عدلیہ کو مطعون کرنا کیوں؟ البتہ سب کا احتساب قومی مفاد کا تقاضا ہے اور میرا خیال ہے اب اس اصول سے فرار ممکن نہیں ہوگا۔ باری سب کی آئے گی لیکن دھیرے دھیرے، خوش فہمی اللہ کی نعمت ہے اور مایوسی مایوس لوگوں کا مرض ہے جسے کفر بھی کہا گیا ہے۔ میں پاکستان کی تاریخ و سیاست کا طالبعلم ہونے کے ناطے محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان بدل رہا ہے ،تبدیلی کا یہ عمل جاری رہے گا۔ پاکستان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس لئے بار بار ماضی کی مثالوں کو موجودہ پاکستان پر اپلائی کرنا اور پرانے واقعات سے نتائج کشید کرکے ان کا موجودہ صورتحال پر اطلاق کرنا تبدیلی کے عمل کو جھٹلانا ہے جبکہ تبدیلی قوموں اور ملکوں کا مقدر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تبدیلی کی رفتار مدہم ہوتی ہے ا ور کبھی کبھی تیز ہوجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا وہ انصاف کرنے یا انصاف دینے کے اہل نہیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ جیسے ماضی میں عدلیہ حکمرانوں کی مرضی کے فیصلے دیتی رہی ہے اب بھی ایسا ہی کرے ،یہ بھی ضروری نہیں کہ جرنیلوں کی ذہنی ساخت ہمیشہ ایک ہی جیسی رہے اور ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق یا پرویز مشرف کے عزائم موجودہ جرنیلوں کے بھی خواب ہوں۔ ’’مظلوم‘‘ سیاسی جماعتیں یہ تاثر دیں کہ عدلیہ کی ڈور کوئی غیر مرئی ہاتھ(Invisible) ہلاتا ہے تو بات قابل فہم ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ اس یقین میں مبتلا رہے ہیں کہ کوئی مائی کا لعل ان کا احتساب نہیں کرسکتا اور نہ کسی میں ان کی طرف’’انگشت نمائی‘‘ کی جرأت ہے لیکن جب پڑھے لکھے تجزیہ نگار ہمہ وقت ماضی کی مثالیں دے دے کر کسی غیر مرئی ہاتھ کی جانب اشارے کریں اور احتسابی عمل کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا کریں تو تھوڑی سی حیرت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بیمار ذہنیت سے نکلنا ہوگا اور تبدیلی کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔ اسی طرح جب کوئی دانشور یا سیاستدان نئے عمرانی معاہدے کی بات کرتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے عمرانی معاہدے کی رسم چل نکلی ہے اور ہمارے یہ مہربان ابھی تک مشہور فرانسیسی فلاسفر روسو کے دور میں رہ رہے ہیں۔ حضور ہم کئی صدیاں آگے نکل آئے ہیں۔ اب جمہوریتوں کے اپنے آئین ہوتے ہیں جنہیں منتخب اسمبلیاں بناتی ہیں اور ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں ایک آئین اور دستور موجود ہے جس میں سارے شعبوں کے دائرہ کار کی وضاحت کردی گئی ہے۔ آئین کی موجودگی میں آپ کس عمرانی معاہدے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟ابھی کل آپ نے اٹھارویں ترمیم کرکے آئین کو نئے تقاضوں کے سا نچے میں ڈھالا تھا۔ اسے نیا عمرانی معاہدہ قرار دیا گیا تھا۔ اب آئین سے بالا تر کس عمرانی معاہدے کا چرچا کیا جارہا ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے؟
میں ذاتی طور پر دھرنوں کو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اس کلچر پر قابو پایا جائے جس سے نہ صرف مخلوق خدا ذلیل و خوار ہوتی ہے اور حکومت کا بھرم ختم ہوتا ہے بلکہ بین ا لاقوامی سطح پر بھی جگ ہنسائی ہوتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ فیض آباد دھرنے کی نوبت کیوں آئی؟ ظاہر ہے کہ حکومت نے ختم نبوتؐ جیسے حساس ترین معاملے کو چھیڑ کر دھرنے کو خود دعوت دی۔ اب اسے ایک سازش کا رنگ دے کر الزام فوج پر لگانا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا فوج نے حکومت کو ختم نبوت کے حوالے سے سازشی انداز میں تبدیلیوں کا مشورہ دیا تھا؟ کیا ہمارے سیاسی مقدر کے حاکم سیاسی حکمران یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں اور بھڑکتے تندور میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ کیا محترم جناب سیالوی صاحب کے جلسے میں پانچ(5)اراکین اسمبلی اوردوسرے عہدیداروں سے استعفے کسی ایجنسی نے دلوائے ہیں؟ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے پبلک ہونے کے بعد چار سیاسی جماعتوں کا الائنس بن رہا ہے جو سیاسی کھیل کا حصہ اور حزب مخالف کی حکمت عملی کا تقاضا ہے۔ کیا زرداری صاحب کو کسی عسکری ایجنسی نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پاس بھیجا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ حکمران جماعت کے جیالے اور ہمارے دانشور اسے بھی کسی عسکری ایجنسی کا کارنامہ قرار دیں گے کیونکہ ہم اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لئے تیار ہی نہیں حالانکہ جب انتخابات قریب آتے ہیں تو اس طرح کے الائنس بنا کرتے ہیں۔ فی الحال اس پیش رفت کا محرک ماڈل ٹائون سانحہ ہے جس نے چودہ معصوم جانیں کھالیں اور جسے ساڑھے پانچ گھنٹے تک ساری قوم نے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھا لیکن بیدار’’مغز‘‘ حکمران بے خبر رہے، جب اس کے ڈانڈے سازشوں سے ملائے جائیں تو چند لمحوں کے لئے سوچئے گا کہ کیا ماڈل ٹائون میں قتل عام کا مشورہ کسی ادارے نے دیا تھا؟ یہ عجیب بات ہے کہ ہم اپنے قصور، نالائقی اور جرم کا نہ تجزیہ کرتے ہیں نہ ہی تسلیم کرتے ہیں اور ہر مخالف بات کو کسی ایجنسی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ایجنسیاں معصوم ہیں یا وہ سازشیں نہیں کرتیں سوال یہ ہے ان کو موقع کس نے دیا۔ اپنی کرپشن، منی لانڈرنگ، نالائقی اور بدنیتی پر پردہ ڈ النے کے لئے دوسروں کو الزام دیا جاتا ہے ورنہ اپنا دامن صاف ہو تو پھر خوف کیوں؟