منتخب کردہ کالم

پھر سے وہی کہانی….نذیر ناجی

ٹی وی کے تمام رپورٹروں اور مبصرین کو‘ کراچی کے ایک چینل کے فیلڈ رپورٹر‘ شاہد غزالی سے تربیت لینا چاہئے کہ فیلڈ رپورٹنگ کیسے کی جاتی ہے؟ ایم کیو ایم کے پاس غضب کے پرجوش مقررین موجود ہیں۔ الطاف بھائی تو اپنی نوعیت کے منفرد اور واحد مقرر ہیں‘ جن کی نہ تو کوئی نقل کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کے انداز میں‘ جوش اور جذبے سے بھری تقریر کر سکتا ہے۔سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف‘ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کی ”تقریبات‘‘ کا اہتمام جس انداز میں کیا گیا‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔پولیس نے تو جھک ماری ہی تھی لیکن اس قانونی غلطی کا استعمال‘ جیسے ایم کیو ایم کے تربیت یافتہ ماہرین نے کیا ‘ اس سے اندازہ ہوا کہ الطاف حسین کی تربیت‘ ضائع نہیں گئی۔ انہوں نے نہ صرف فنِ خطابت میں ایک نئی طرز ایجاد کی بلکہ اہل تشیع کے ذاکرین اور شہرت یافتہ فلمی ایکٹرز کی خوبیوں کو یکجا کر کے‘ جو نیا طرزِ خطابت متعارف کروایا‘اسے ابھی تک کوئی دوسرا سیاسی کارکن یا لیڈر اختیار نہیں کر سکا۔بطور ایک سیاسی جماعت‘ ایم کیو ایم نے اپنی قوت کا اظہار کرنے کے جو طریقے اختیار کئے‘ انہیں بھی نہ کوئی ڈاکوئوں کا گروہ اختیار کر سکا۔ نہ کوئی مافیا اس کی نقل کر پایا۔ اور نہ ہی مخالفین کی ذرا سی کھانسی پر‘ طوفان کھڑا کرنے کا ہنر کسی کو آیا۔میں نے اس تحریر کے شروع میںٹی وی چینل کے ایک فیلڈ رپورٹر‘ کی مثال دی ہے‘ جسے بلاتامل صحافیوں کے الطاف حسین کا نام دیا جا سکتا ہے۔ایم کیو ایم کے کارکنوں‘ کے جوش و جذبے کو‘ اس طرح ڈاکٹرفاروق ستار بھی بیدار نہیں کرپائے ہوں گے ‘ جیسے شاہد غزالی نے کیا۔ڈاکٹر فاروق ستار تھک کر خاموش ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں نے بھی‘ حالات و واقعات کو اپنے انداز میں آگے بڑھنے دیا۔لیکن مذکورہ رپورٹر تھے کہ نہ وہ تھکے۔ نہ ان کی آواز بیٹھی۔ نہ ان کے ہاتھوں کی پرجوش حرکات و سکنات میں‘ فرق پڑا۔اور نہ ہی جوشِ خطابت میں کمی آئی۔اگر ایم کیو ایم کے رنگ میں‘ اس طرح کی رپورٹنگ کرنے والے چند مزید رپورٹرز ‘میدان میں اتار دئیے جائیں‘ تو الطاف بھائی اور خواجہ اظہار الحسن جو درد انگیز اور پرسوز تقریریں کرنے کے ماہر ہیں‘ انہیں میدان میں اترنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
سندھ کی نئی حکومت نے شاید پہلی مرتبہ‘ ایم کیو ایم کو چھیڑنے کی غلطی کی ہے۔ایس ایس پی‘ رائو انوار کو شاید اپنے پیشرو پولیس والوں کا انجام یاد نہیں رہا‘ جنہوں نے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے‘ ایم کیو ایم کے مطلوبہ کارکنوں کو حراست میں لینے کی ہمت کی تھی۔جیسے ہی ایم کیو ایم کو اقتدار میں پھر سے حصہ ملا‘پولیس کے وہ تمام ملازمین‘ ایک ایک کر کے گولیوں کا نشانہ بننے لگے ۔ روایت یہ ہے کہ جس جس پولیس والے نے ایم کیو ایم کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تھا‘ وہ زندگی سے محروم ہو گیا۔ ایس ایس پی ‘رائو انوار غیر معمولی جرات بلکہ پاگل پن کے مالک لگتے ہیں کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے ایک بڑے رہنما کو گرفتار کرنے کی ہمت کی۔ اگر قدرت نے انہیں تحفظ نہ دیا تو چند ہی روز کے بعد‘ ایم کیو ایم کے فدائی‘ انہیں ان کے پیشروپولیس والوںکے انجام تک پہنچا دیں گے۔میں نے یہ کالم لکھنے کے لئے‘ چند حوالے نکالے تھے ‘جن سے یہ کالم لکھنے میں مدد لی جا سکتی تھی۔ خواجہ اظہار کی گرفتار ی کے مناظر دیکھ کر‘ مجھے مصطفی کمال‘ انیس قائم خانی‘ رضا ہارون‘ انیس ایڈووکیٹ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی فکر پڑ گئی ہے۔ بے شک وہ الطاف بھائی کے مکتب سے فیض یافتہ ہیں لیکن جو آگ خواجہ اظہار الحسن اور ڈاکٹرفاروق ستار نے‘ بذات خود دہکائی اور بھڑکائی ہے۔ اس کے سامنے راندگان درگاہ کے قدم تو کیا جمیں گے؟ خون جم جائے گا۔
آج کی صورت حال میں‘سندھ کے وزیراعلیٰ کی حالت ایک بوکھلائے ہوئے سیاسی چوزے جیسی تھی۔جو حکم دینے کے بعد‘ اس کے نتائج کو دیکھ کر اس قدر تیزی سے بوکھلائے کہ فوراً ہی ایس ایس پی ‘ رائو انوارکو معطل کر دیا۔جس نے حکومت کے فیصلے کے مطابق‘ خواجہ اظہار کو گرفتار کیا تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ سندھ انتظامیہ کے تمام شعبے‘ خواجہ اظہار کی صلاحیتوں سے واقف نہیں۔ وہ چاہیں تو کیلے سے پھسل کر گرے ہوئے ‘ایم کیو ایم کے کسی کارکن کو خراش آنے پر‘ ایسی صف ماتم بچھائیں گے کہ پورے شہر میں اشتعال پھیل جائے۔پھسلنے‘ خرا ش آنے اور اس میں سے لہو‘ رسنے کا منظرخواجہ صاحب یوں بیان کریں گے کہ روتے روتے سامعین کی ہچکیاں بندھ جائیں گی۔اور اگرپرسوز بیان کے ساتھ ٹی وی رپورٹر شاہد غزالی کی رجزیہ رپورٹنگ بھی شامل ہو جائے ‘ تو ”مسافروں‘‘ کی حکومت لڑکھڑا کے گرتی دکھائی دے گی۔صوبائی حکومت کے اصل سربراہ‘ جناب آصف زرداری بہت دنوں سے” مسافرانہ‘‘ زندگی گزار رہے ہیں۔انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا تھا۔ا یسا کرنے کے لئے صرف دو اینٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طویل عرصہ گزر گیا‘انہیں دو اینٹیں میسر نہیں آئیں ۔ دوسری طرف ان کا نوجوان اور باعزم بیٹا‘ ڈالی ڈالی اڑتا پھر رہا ہے۔کبھی وہ امریکہ کے کسی پیڑ پر جا بیٹھتا ہے۔ کبھی دبئی میں کھجور کی ڈالی پر بسیراکرتا ہے۔ کبھی کراچی میں پپیتے کے پیڑ پر‘ پنجے گاڑتا ہے۔ کبھی لاہو رمیں اپنے گھونسلے کا رخ کرتا ہے۔ اور کبھی آزادکشمیر کے دراز‘ تن آور درختوں پر آرام کرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہے۔
میں نے کل ہی مصطفی کمال کا ایک انٹرویو دیکھا ہے۔ جس میں وہ بہت چہک چہک کر باتیں کر رہے تھے۔ آج اس انٹرویو کا ایک اقتباس‘ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ”الطاف حسین نے جس روز پاکستان مخالف نعرہ لگا دیا‘ اس دن ان کا مینڈیٹ ختم ہو گیا۔ ان کو دوبارہ سے مینڈیٹ لینا چاہئے۔ وزیراعظم اگر کرپشن میں ملوث نہیں تو ان کو سامنے آنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے جو لوگ‘ ہماری پارٹی میں آئے ہیں‘ وہ سکون محسوس کر رہے ہیں‘ ورنہ وہ ان دنوں کھالیں اکٹھی کر رہے ہوتے یا ایم کیو ایم کے بانی کی تقریر سن رہے ہوتے۔مجھے اب سب اچھا ہوتا نظر آرہا ہے۔ تیس سالوں کا ڈھونگ ختم ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسی کھینچ لی ہے۔ کراچی کی سیاست ‘بہتر ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہر جھوٹ بولنے والے کو اللہ ایکسپوز کر رہا ہے۔ پی ایس127خالص اردو بولنے والوں کا حلقہ ہے لیکن ایم کیو ایم‘ وہاں سے بھی ہار گئی۔ ان کو ساٹھ ہزار ووٹ ملے تھے مگر اب عوام نے ان کو رد کر دیا۔ یہ ایم کیو ایم کا ڈائون فال ہے۔ انہوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ تیس سال سے شہر میں‘ پانی کے مسائل ختم نہیں ہو سکے۔ ہمارے پاس پورے پاکستان کے لئے پلان ہے۔ ایک دو سیٹوں پر الیکشن جیتنا‘ ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو بھی ہمارے دروازے پر آئے گا ‘ہم سب کو ویلکم کریں گے۔ ہم الیکٹ ایبلز کی طرف نہیں جا رہے۔ہم سب سے مل رہے ہیں۔ وسیم اختر پر جتنے بھی الزامات لگ رہے ہوں گے‘ وہ کام انہوں نے نہیں کئے ہوں گے لیکن جس بندے کے ساتھ وہ رہ رہے ہیں ‘ ان کی اچھائی‘ برائی کا اثر توا ان پر پڑے گا۔ سانحہ بارہ مئی کی کلین چٹ نہیں لے رہا۔ میں اس وقت کراچی کا میئر تھا‘ مجھ سے تحقیقات کر لی جائیں ‘ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے دفاتر گرائے جا رہے ہیں‘ جو غلط ہو رہا ہے۔ ان دیواروں نے پاکستان مخالف نعرے نہیں لگائے۔ اگر ایم کیو ایم کے دفتر غیر قانونی ہیں تو جس وقت یہ بنائے جا رہے تھے۔ اس وقت کیا سب نے بھنگ پی رکھی تھی؟‘‘آج کے دن کا آخری منظر یہ ہے کہ خواجہ اظہا رکو گرفتار کرنے والا سنیئر پولیس افسر‘ ڈیوٹی سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بڑے بڑے ستونوں پر لرزہ طاری ہے۔ کچھ پتہ نہیں‘ کس پر کیا گزرے؟ نوجوان وزیراعلیٰ بھی رات یا صبح کی پرواز میں نہ بیٹھ جائیں؟ ایسی حکومت کا کیا بھروسہ؟ جس کا صوبائی سربراہ‘ ابھی ایک افسر کو کسی کام کا حکم دے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد‘ا سے وہی کام کرنے کی پاداش میں معطل کر دے۔انتظامی مشینری ایسی حکومت پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے‘ نو سو چوہے ہضم کر رکھے ہیں۔وہ کس
کے قابو میں آئے گی؟ جبکہ اس ساری صورت حال پر وزیراعظم نے کہا کہ” انتظامیہ کو سپیکر کی اجازت سے ‘ قدم اٹھانا چاہئے تھا ‘‘۔بجا فرمایا لیکن جب ایم کیو ایم نے پولیس والوں کو سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بنا کر مارا ‘ اس وقت وہ کس قانون کی پابندی کر رہے تھے؟کراچی شہر میں قوانین کی جو پامالیاں کی گئیں‘ انہیں کون سی حکومت روک پائی؟قانون کی بالادستی صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ ہر قانون شکن‘کو بے بس کر کے رکھ دیا جائے۔ جب قانون نافذ کرنے والے ہی‘ قانون شکنوں کے ہاتھوں ہلاک ہو نے لگیں تو پھر کہاں کا قانون؟ اور کیسا امن؟۔ٹی وی کے مراکز پر حملہ کرنے والی ” گھریلو‘‘ خواتین اور وہ” شریف‘‘ شہری ‘ ابھی تک قانون کی گرفت میں کیوں نہیں آئے؟ایم کیو ایم‘ چیزے دیگر است۔