منتخب کردہ کالم

پہلا اور آخری جوابی کالم….خالد مسعود خان

پہلا اور آخری جوابی کالم

پہلا اور آخری جوابی کالم….خالد مسعود خان

برادر عزیز رئوف کلاسرا ایک بامروت دوست ہے بلکہ برادر خورد ہے۔ وہ جب بھی میرے کسی کالم سے اختلاف کرتے ہوئے جوابی کالم لکھتا ہے احتراماً (عمر کی وجہ سے) میرا نام لکھے بغیر میری طبیعت صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ادھر میرا یہ حال ہے کہ مجھے ابھی تک یہ سلیقہ نہیں آ سکا لہٰذا میں جس طرح دل کی بات بلا جھجک زبان پر لے آتا ہوں اسی طرح کالم لکھتے ہوئے بھی نہایت بے سلیقہ پن سے اپنے قارئین کو فوراً بتا دیتا ہوں کہ نام لکھے بغیر جس کالم نویس اور دانشور کی ”عزت افزائی‘‘ کی گئی ہے وہ یہ عاجز یعنی خالد مسعود خان ہے۔
برادر عزیز نہایت شاندار رپورٹر ہے اور جس طرح لوگ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں وہ اسی طرح نہایت بچ بچا کر گزرتی ہوئی خبر کو دبوچ لیتا ہے اور اس کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیتا ہے لیکن کبھی کبھار لکھی ہوئی چیزوں کا بھی محض سیاق و سباق بھانپ کر قلم اٹھا لیتا ہے اور بقول شاعر
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
گزشتہ روز کا کالم ہی اس بات پر تھا کہ ”اب سرائیکی زبان کا مذاق اڑانے کے لیے ایک نئی بھد اڑائی جا رہی ہے کہ جناب چھوڑیں یہ تو کل کی بات ہے۔ 1962 میں چند سر پھروں نے بیٹھ کر ملتانی‘ بہاولپوری اور ڈیروی زبان کو سرائیکی کا نام دے دیا تھا لہٰذا اسے زبان قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ اگر وہ میرا کالم غور سے پڑھتے۔ میں معذرت چاہتا ہوں انہوں نے یقیناً میرا کالم غور سے ہی پڑھا ہو گا تاہم اگر وہ میرا کالم پڑھتے ہوئے غصے میں نہ آ جاتے تو وہ اس پورے کالم میں ایک بار بھی کہیں یہ لکھا ہوا ثابت نہیں کر سکتے کہ میں ”سرائیکی‘‘ کو زبان نہیں سمجھتا۔ میں نے ملتانی اور بہاولپوری زبان کے لیے ایک مشترکہ زبان کے طور پر سرائیکی زبان کا نام استعمال کرنے کے حوالے سے مرحوم حسین سحر کی کتاب سے منقول واقعہ تحریر کرتے ہوئے بھی یہی لکھا تھا کہ ریاستی‘ بہاولپوری اور ملتانی معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی ”زبان‘‘ ہے۔ میں خود اسے ایک علیحدہ زبان تسلیم کرتا ہوں اور اسے کبھی بھی پنجابی زبان کا لہجہ قرار نہیں دیا۔ خدا جانے برادر عزیز کو یہ شبہ کہاں سے پیدا ہو گیا کہ میں اسے پنجابی زبان کا لہجہ سمجھتا ہوں۔ اگر ایسا ہے تو وہ میری کسی تحریر سے اسے ثابت کر دیں میں نہ صرف اپنی غلطی کی درستی کر لوں گا بلکہ ان سے اور اپنے سرائیکی بھائیوں سے معذرت بھی کر لوں گا لیکن جہاں تک سرائیکی لفظ کا تعلق ہے میں نے اس کی تاریخ بارے ایک شائع شدہ کتاب کا حوالہ دیا تھا اور رئوف کلاسرا نے اپنے کالم میں محقق اور مترجم یاسر جواد کا حوالہ دیتے ہوئے 1904ء کے بہاولپور گزٹ کا ذکر کیا ہے اور اس کے صفحہ 414 پر لکھا ہوا نقل کیا ہے کہ ”کوٹ سبزل اور گردونواح کے لوگ بہاولپوری اور سندھی دونوں لہجے بولتے ہیں اور موخرالذکر لہجے کو سرائیکی بھی کہتے ہیں‘‘ یہی بات دوسری طرح سے میں نے اپنے کالم میں لکھی ہوئی ہے صرف حوالے کے طور پر یاسر جواد کے بہاولپور گزٹ کے بجائے محمد حسان الحیدری کا حوالہ دیا ہے کہ ”جب دوبارہ میر صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے سندھ میں پہلے سے اس زبان کے لیے یہ نام (سرائیکی) موجود ہے شمالی سندھ (کوٹ سبزل سے متصل سندھ) میں اسے سرائیکی کہتے ہیں اور اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ”سرا‘‘ یعنی شمال کی زبان‘‘
تاہم برادر عزیز کے کالم کے حوالے سے ایک دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس سے پہلے ایک گلہ کرنا ہے کہ انہوں نے اچھی سرائیکی بولنے والے پنجابی دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے میرا ذکر نہیں کیا۔ کالم پر اختلاف اپنی جگہ مگر سچائی اور حقیقت کو کسی بھی صورت میں نظر انداز کرنا مناسب نہیں کہ انہوں نے جن سرائیکی بولنے والے پنجابی دوستوں کا ذکر کیا ہے میں ان سے بہتر نہ سہی‘ بری بھی سرائیکی نہیں بولتا۔ حتیٰ کہ وہ میرے والد مرحوم سے نہیں ملے وہ بھی ایسی شاندار اور بلیغ سرائیکی بولتے تھے کہ ان پر یہ شبہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی مادری زبان سرائیکی نہیں ہے۔ یہی حال میرے چچا‘ تایا‘ پھوپھیوں اور بہن بھائیوں کا تھا۔ ویسے خدا جانے برادر عزیز کو دوچار سال بعد اچانک کیسے یہ شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہے جو سرائیکی کو نہ صرف یہ کہ زبان نہیں سمجھتے بلکہ یہاں کے کلچر اور شناخت کو بھی نہیں مانتے۔ بلکہ بعض اوقات تو اسے شبہ ہوتا ہے کہ میں سرائیکیوں سے شاید نفرت کرتا ہوں۔ اب بھلا اس سے یہ بات کون پوچھے کہ اگر ایسا ہوتا تو میرے دوستوں کی اکثریت سرائیکیوں پر کیوں مشتمل ہے؟ دوست تو بندہ اپنی مرضی اور رضا سے بقائمی ہوش و حواس بتاتا ہے۔ اس میں نہ کوئی جبر ہوتا ہے اور نہ ہی زبردستی۔ تو پھر بھلا مجھ پر یہ تہمت کس لیے؟
گلہ یہ کرنا ہے کہ جب بھی پنجابیوں کا ذکر کرتے ہیں ساتھ یہ ذکر ضرور کرتے ہیں کہ پنجابیوں کا ہیرو راجہ رنجیت سنگھ ہے نہ کہ نواب مظفر خان۔ میں آج یہ بات اللہ کو حاضر و ناظر جان کر سب کو بالعموم اور رئوف کلاسرا کو بالخصوص بتانا چاہتا ہوں کہ راجہ رنجیت سنگھ کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ نواب مظفر خان میرا ہیرو ہے بلکہ میں راجہ رنجیت سنگھ کو ہیرو سمجھنے والے پنجابی مسلمان پر لعنت بھیجتا ہوں اور ایک بار نہیں ہزار بار۔ اہل ملتان تو ایک طرف رہے جو لاہوری بھی رنجیت سنگھ کو پنجابی حوالے سے اپنا ہیرو سمجھتا ہے وہ نہایت ہی بے غیرت ہے کہ سکھوں نے ملتان کو ایک بار 1818ء میں لوٹا اور قتل عام کیا۔ لاہوریوں کے ساتھ سکھوں نے بار بار جو کچھ کیا ہے وہ جاننے کے لیے کنہیا لال ہندی کی ”تاریخ لاہور‘‘ اور” تاریخ پنجاب‘‘ پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ جن پنجابیوں کا ہیرو رنجیت سنگھ ہے وہ تو پاکستان کی تقسیم کے بھی خلاف ہیں کہ ان کے نزدیک پنجاب کی تقسیم ایک المیہ تھا جو لوگ ملک و قوم کے وفادار نہیں ان پر ہزار بار لعنت۔ اور بدگمانی کرنے والے کو اللہ ہدایت دے۔ میں اب صرف دعا دیتا ہوں بددعا نہیں۔
میں ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان وسیب پر مشتمل علیحدہ صوبے کا (نام جو بھی ہو) اس وقت سے حامی ہوں جب علیحدہ صوبے کی بات کرنا غداری کے نزدیک والی بات ہوتی تھی اور اس علیحدہ صوبے کی وجوہات میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ وسیب کی محرومیاں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم‘ تخت لاہور کی جانب سے وسیب کا استحصال اور انتظامی ناکامی۔ میرا تو سارا دکھ ہی اس بات پر تھا اور ہے کہ محض چند عاقبت نااندیش لوگوں کی وجہ سے اس سارے علاقے میں رہنے والے غیر سرائیکیوں کے دل میں اس صوبے کے حوالے سے منفی خیالات پیدا ہوئے اور ہم سب لوگ اسی خوف کے باعث اکٹھے نہ ہو سکے اور ہماری منزل دور ہوتی چلی گئی۔ میں نے تو صرف ایک واقعہ لکھا تھا ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کے باعث غیر سرائیکی وسیبیوں کے دل میں اس صوبے بارے وہ تحفظات پیدا ہوئے جو پیدا نہ ہوتے تو علیحدہ صوبے کا قیام زیادہ دور کی بات نہ ہوتا۔ اور وہ انشاء اللہ اب بھی زیادہ دور کی بات نہیں رہ گیا۔
ملتان شہر میں‘ رحیم یار خان شہر میں‘ خانیوال شہر میں‘ ڈیرہ غازی خان شہر میں حتیٰ کہ بہاولپور شہر میں پنجابی اورہریانوی زبان بولنے والوں کی کثیر تعداد رہتی ہے۔ اول الذکر چار شہروں میں تو نواح چھوڑ کر شہر کے اندر غیر سرائیکیوں کی تعداد سرائیکیوں سے انیس بیس زیادہ ہی ہو گی۔ بہاولنگر‘ چشتیاں اور ہارون آباد وغیرہ میں بھی صورتحال یہی ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی نہ یہاں سے کہیں ہجرت کرنی ہے اور نہ ہی کہیں اور دفن ہونا ہے۔ جب ساتھ جینا اور ساتھ مرنا ہے تو پھر ایک دوسرے کا مذاق اڑانا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ مذاق اڑانا بھی یکطرفہ عمل نہیں دوطرفہ ہے۔ برادر عزیز کو لکھتے ہوئے پارٹی بن کر نہیں‘ رپورٹر بن کر لکھنا چاہیے۔ ویسا رپورٹر جیسا کہ اسے میں جانتا ہوں۔
(نوٹ) یہ میرا اس موضوع پر پہلا اور آخری جوابی کالم ہے کم از کم میری طرف سے کسی مزید جواب در جواب کا دروازہ بند ہے۔