منتخب کردہ کالم

پیر صاحب کے 5 استعفے…رئوف طاہر

پیر صاحب کے 5 استعفے…رئوف طاہر
جناب پیر حمید الدین سیالوی کی دعوت پر فیصل آباد کانفرنس قومی اسمبلی کے دو اور پنجاب اسمبلی کے تین ارکان کے استعفوں کے ساتھ بخیروعافیت اختتام کو پہنچی۔ اس کانفرنس کو ”ختم نبوت‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا لیکن بنیادی ہدف رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ تھا کہ انتخابی قانون میں ”ختم نبوت‘‘ کے حوالے سے پیدا شدہ ”مسائل‘‘ تو وزارت داخلہ اور علامہ خادم حسین رضوی کے مابین 27 نومبر کے معاہدہ فیض آباد میں حل ہو چکے (جس پر ”بوساطت‘‘ کے طور پر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی ہیں‘ اور آغاز میں اس حقیقت کا اظہار بھی کہ یہ معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا) تین چار روز بعد لاہور کے چیئرنگ کراس پر تحریک لبیک یارسول اللہ کے دوسرے دھڑے کا مقامی نوعیت کا دھرنا بھی پیر آصف اشرف جلالی کے ساتھ صوبائی حکومت کے معاہدے کے بعد رخصت ہوا‘ گویا ”ختم نبوت‘‘ کا رہا سہا ”مسئلہ‘‘ بھی حل ہو گیا لیکن سیال شریف کے پیر صاحب نے رانا ثناء اللہ کے استعفے کو مسئلہ بنا لیا تھا۔ رانا صاحب بارہا وضاحت کر چکے کہ ختم نبوت کے حوالے سے وہ بھی وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو پیر صاحب سیال شریف سمیت ساری مسلم امت کا ہے‘ اس میں قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھنا (اور اس کا اظہار کرنا) بھی شامل ہے۔ لیکن پیر صاحب کا اصرار تھا کہ وہ وزارتِ قانون سے استعفے کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوںاور ٹی وی کیمروں کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر تجدِید ایمان کریں (اس کے بعد بھی لازم نہیں کہ وزارت سے استعفیٰ واپس لوٹا دیا جائے) ادھر رانا صاحب کا راجپوتی اصرار تھا کہ کلمہ اور سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اپنی مسلمانی کے لیے انہیں کسی آستانے سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں (انہوں نے اس سال حج بھی کیا اور یہ ”حلق‘‘ والا حج تھا‘ جس میں سارے سر پر استرا پھروایا جاتا ہے۔ ویسے سارے سر سے ایک ایک ”پور‘‘ بال کتروانے (قصر) کی بھی اجازت ہے۔ خود ہم نے جدہ میں بارہ سالہ قیام کے دوران صرف پہلے حج اور پہلے عمرے پر ”ٹِنڈ‘‘ کروائی تھی۔ اس کے بعد ”قصر‘‘ ہی سے کام چلاتے رہے) وزارت سے استعفے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے حلقۂ انتخاب سے ان کے لیڈر نوازشریف کا مینڈیٹ ہے۔ ”عوام نے مجھے نہیں‘ نوازشریف کو ووٹ دیئے‘ وزارت (اور پنجاب اسمبلی کی رکنیت) بھی انہی کی امانت ہے‘ چنانچہ اس کا فیصلہ بھی وہی کریں گے‘‘۔ اُدھر رانا ثناء اللہ کے استعفے پر اصرار کرتے ہوئے پیر صاحب حکمرانوں کی عقل پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ صرف ایک آدمی کے لیے پورے ملک کے امن کو دائو پر لگا دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ (لیکن یہی بات بصد ادب و احترام خود پیر صاحب سے بھی تو عرض کی جا سکتی ہے)
فیصل آباد کانفرنس میں کتنے لوگ تھے؟ ایسے کسی بھی اجتماع کے حوالے سے یہ سوال اس لیے بے معنی ہے کہ یہ صرف مقامی لوگوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔ اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ منتظمین کہاں کہاں سے کتنے لوگوں کو لانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ وہ گئے زمانوں کی بات ہے جب لاہور کا جلسہ‘ صرف ”لاہوریوں‘‘ پر مشتمل ہوتا تھا اور قصور‘ شیخوپورہ یا گوجرانوالہ جیسے قریبی شہروں سے ایک ایک‘ دو دو بسیں آ بھی جاتی تھیں تو انہیں جلسہ گاہ سے دور پارک کیا جاتا کہ اگلے دن کے اخبار میں یہ خبر نہ چھپ جائے کہ جلسہ گاہ کو بھرنے کے لیے باہر سے لوگ لائے گئے تھے۔ لیکن وہ جو اقبالؒ نے کہا تھا ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
اب تو سٹیج سے باقاعدہ اعلان ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ فلاں شہر سے فلاں لیڈر کی زیرقیادت اتنی گاڑیوں کا قافلہ جلسہ گاہ میں پہنچ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پچاسویں سالگرہ پر اسلام آباد میں ”طاقت کا مظاہرہ‘‘ اس کی تازہ مثال تھا۔ ایک معتبر انگریزی اخبار سمیت غیر جانبدار ذرائع کے مطابق یہ اگرچہ ایک متاثر کن شو تھا لیکن اس میں اکثریت سندھ اور خیبر پختونخوا کے ورکرز اور سپورٹرز کی تھی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں سے ایک لاکھ لوگوں کو نکال لانے کا ٹارگٹ بری طرح ناکام رہا تھا۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار لوگ تھے جو گیرژن سٹی راولپنڈی سے آئے۔ شہر بھر سے پارٹی ورکرز اور سپورٹرز لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو میموریل پر جمع ہوئے۔ حاجی گلزار اعوان اور سابق ایم این اے زمرد خاں چھائونی کے علاقوں سے دو الگ الگ ریلیاں لائے تھے جبکہ شہر کے علاقوں سے ایک ریلی پارٹی کے سٹی پریذیڈنٹ بابر جدون اور ناصر میر کی زیرقیادت آئی تھی۔ زمرد خاں کی ریلی 25 اور بابر جدون کی ریلی 40 کاروں پر مشتمل تھی۔ اس شو کی ایک خاص بات لوک گلوکار عارف لوہار کی ”جگنی‘‘ پر جناب آصف زرداری کی ”پرفارمنس‘‘ تھی‘ جسے عمران خان نے ”ڈانس‘‘ اور پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان نے ”لُڈی‘‘ اور دوسرے نے ”دھمال‘‘ قرار دیا‘ جو پیپلز پارٹی کا روزِ اول سے کلچر رہا ہے۔ ہمیں اپنے لڑکپن کا زمانہ یاد ہے‘ جب ہم ”جیالوں‘‘ کو ”بھٹو آ گیا میدان میں‘ ہے جمالو‘‘ پر ”لُڈی کناں‘‘ دیکھتے تھے۔
15 ارکان اسمبلی کے استعفوں سے شروع ہونے والا دعویٰ کانفرنس سے ایک روز قبل 50 استعفوں تک پہنچ گیا تھا۔ کانفرنس سے تین روز قبل 90 شاہراہ قائداعظم پر بعض سینئر اخبار نویسوں کے ساتھ ظہرانے میں رانا ثناء اللہ کی باڈی لینگویج میں اس حوالے سے کوئی اضطراب نظر نہ آیا۔ اس حوالے سے سوال پر‘ ان کی گھنی مونچھوں کے نیچے‘ پُراعتماد سی مسکراہٹ تھی انہی مونچھوں کے باعث‘ عمران خاں کو یہ چہرہ ”ویسے ہی کسی جرائم پیشہ شخص‘‘ کا چہرہ لگتا ہے چنانچہ ان کے خیال میں رانا صاحب کسی پنجابی فلم میں ”ولن‘‘ کے رول کے لیے بہت مناسب ہیں۔ رانا صاحب کا کہنا تھا‘ دو دن کی تو بات ہے‘ ”کٹی‘ کٹا‘‘ نکل آئے گا (پنجابی محاورہ) اور فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں ”کٹی‘ کٹا‘‘ نکل آیا‘قومی اسمبلی کے دو اور پنجاب اسمبلی کے تین ارکان کے استعفے ۔ قومی اسمبلی کے استعفوں میں غلام بی بی بھروانہ اور چوہدری نثار جٹ کا استعفیٰ ہے‘ یہ دونوں قومی اسمبلی کے 21 نومبر کے اجلاس سے بھی غیر حاضر تھے جس میں نوازشریف کی پارٹی صدارت کے خلاف اپوزیشن کے بل پر ووٹنگ ہونا تھی (ارکان اسمبلی کو اس اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے نامعلوم ٹیلی فون کالوں کی خبریں بھی آئی تھیں) جبکہ پنجاب اسمبلی سے تین استعفوں میں‘ خود پیر صاحب کے بھتیجے نظام الدین کا استعفیٰ بھی شامل ہے۔
اس علاقے میں درگاہ عالیہ سیال شریف کا روحانی اثرورسوخ انتخابات میں بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ درگاہ اگرچہ سرگودھا میں ہے‘ لیکن اس کے مریدوں کی زیادہ تعداد جھنگ میں ہے۔ حسن و عشق کی لازوال داستان کے لافانی کردار ”ہیر‘‘ کی سرزمین سیاسی وفادایوں کے اعتبار سے قابلِ رشک ریکارڈ کی حامل نہیں۔ 1970ء کے عام انتخابات میں جب پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوفان تھا‘ ضلع جھنگ سے جمعیت علمائے پاکستان کے قومی اسمبلی کے تین امیدوار جیت گئے۔ تب جمعیت علما پاکستان کو ایک سیاسی انتخابی جماعت کے طور پر منظرعام پر آئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ موجودہ پیر صاحب جناب حمید الدین کے والد پیر قمر الدین سیالوی نوزائیدہ جماعت کے پہلے سربراہ تھے‘ بعد میں جناب شاہ احمد نورانی ان کے جانشین ہوئے۔ جمعیت علمائے پاکستان نے جھنگ کی ان تین نشستوں سمیت ملک بھر سے قومی اسمبلی کی سات نشستیں جیتی تھیں۔ ان تین میں سے خواجہ نذیر سلطان اور مہر غلام حیدر بھروانہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے‘ البتہ مولانا محمد ذاکر نے تادمِ آخر پیر صاحب سیال شریف سے وفا نبھائی‘ وہ اسمبلی کی رکنیت کے دوران ہی اگلے جہاں سدھار گئے۔ غلام بی بی بھروانہ‘ مہر غلام حیدر بھروانہ کی نواسی ہیں۔ جھنگ کے اربابِ سیاست کی بے وفائیاں ایک الگ موضوع ہے‘ ایک پوری کتاب کا موضوع…عابدہ بی بی ایک خاص شخصی طنطنہ رکھتی ہیں لیکن کسی کو یاد ہے کہ 1970ء سے تاحال انہوں نے کتنی جماعتیں بدلیں۔ وہ آج کل کس جماعت میں ہیں‘ اور آئندہ الیکشن میں ان کے پاس کس جماعت کا ٹکٹ ہو گا؟