منتخب کردہ کالم

چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر لکھی جانے والی تحریر..نسیم احمد باجو

چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر لکھی جانے والی تحریر..نسیم احمد باجو
میرے طیارہ کی تیز رفتاری سے رات کے پچھلے پہر لاہور سے لندن کی طرف پرواز۔ زمین سے بلندی کا فاصلہ ہی آج کے کالم کا عنوان بنا۔ ہفتہ (25 نومبر) کی صبح لندن سے شروع ہونے والا ہوائی سفر ایک ہفتہ بعد آنے والی اتوار (3 دسمبر) کو اُسی شہر کے اُسی ہوائی اڈے پر ختم ہوا۔ کالم نگار دوبئی۔ کراچی۔ ملتان۔ بہاول پور اور لاہور میں ضروری کام کر کے اور(نئے اور پرانے) دوستوں سے مل کر اور نئے تجربات سے فیض یاب ہو کر اپنے آبائی وطن سے اپنے نئے (گرچہ 50 سال پرانے ) وطن خیر خیریت سے واپس آیا تو خداوند تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ لاکھ لاکھ شکر۔ اس سے زیادہ مجھے گنتی نہیں آتی مگر شکر کی ادائیگی کا گنتی سے کیا تعلق؟ خلوص نیت اور دل کی گہرائی سے ایک بار ادا کر دیا جائے تو اُسے بھی سارے جہانوں کے مالک اور انسانوں کے خالق کی بارگاہ میں قبولیت مل جانے کا روشن امکان ہوتا ہے۔
کراچی جانے کا مطلب ہے جسٹس وجیہہ الدین احمد۔ میر ظفر اللہ خان جمالی۔ڈاکٹر ابوبکر شیخ۔ سعد امان اللہ خان۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی۔ ڈاکٹر شاہدہ اور ڈاکٹر طلعت وزارت اور ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی سے ملاقات اور تبادلہ خیال۔ ملتان کا مطلب ہے اصغر اور ثمینہ خاکوانی اور اُن کی بہن پنکی (مجھے اصل نام نہیں آتا) اور اُن کے گھرانے کے سب افراد سے تجدید ملاقات۔ بہاول پور کا مطلب ہے اسلامیہ یونیورسٹی کا شعبہ قانون (جہاں میں نے پڑھانے کی خوشی حاصل کی۔) اور ہائی کورٹ بار کے عہدے داران اور دو ممتاز وکلا (محمد عثمان، فاروق ملک اور محمد عامر نیاز بھنڈیرا) کراچی سے ملتان تک کی پرواز کامطلب ہے فوزیہ جنجوعہ کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ کر سفر۔ اب رہا لاہور تو وہ تصور خاکوانی کے گھر سے شروع ہو کر سرفراز اعظم کے گھر پر ختم ہوا۔ کراچی سے ہوائی سفر شروع ہوا تو میں نے حسب معمول ہوائی اڈہ کے کتابوں کی دُکانوں پر کافی ورق گردانی کی۔ ملنے والی کتابوں میں سب سے اچھی کتاب کا نام تھا۔ ”ملتان نصف جہان‘‘ جو جناب حفیظ خان (غالباً سرکاری افسر) نے لکھی۔ اُنہیں سرکاری افسر میں نے اس لئے لکھا کہ کتاب کے صفحہ نمبر12 پر دی گئی معلومات کے مطابق وہ لاہور میں GOR-II میں رہتے ہیں ۔ اسی ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب مبارکباد اور شکریہ دونوں کے مستحق ہیں۔ اگر وہ اگلے سال میری تقسیم ہند پر لندن سے شائع ہونے والی کتاب کو اسلام آباد میں شائع کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو اِس شکریہ کو پانچ یا دس سے ضرب دی جا سکتی ہے۔ جناب حفیظ خان کی تصنیف کی کتابیات 184 کتابوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ملتان اولیائے کرام کا شہر ہے۔ 1010 میں اسے البیرونی کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ہوائی اڈہ سے ثمینہ خاکوانی کے گھر جاتے ہوئے میں ایک ایسی سڑک کے قریب سے گزرا جس کا نام قسور گردیزی روڈ ہے ۔مجھے فخر ہے کہ میں اُنہیں کئی بار ملا۔ وہ ایک بہادراوربااُصول(جس خوبی کا ملتان میں اتنا ہی فقدان ہے جتنی آموں کی افراط)۔ وہ اشتراکی اور عوام دوست تھے۔ اُن کی ساری زندگی محنت کشوں کی حمایت اور اہل اقتدار کی مخالفت میں گزری، سی آر اسلم، سردار عطا اللہ مینگل،غوث بخش بزنجو،لال خان،میرزا ابراہیم، دادا امیر حیدر،میجر اسحاق محمد، حبیب جالب، محمود علی قصوری اور حسن ناصر شہید کی نسل اب ہمارے ملک میں ناپید ہو چکی ہے۔ اب جو لوگ بولتے ہیں وہ سمجھتے نہیں اور جو سمجھتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ اب ہم اپنی سر زمین کو اچھا کہیں یا برا وہ کتنے ہی گنج مائے گراں مایہ کی آخری آرام گاہ بن گئی۔ جن بڑے لوگوں کے نام میں نے اُوپر لکھے ہیں ان سے ذرا پہلے جائیں تو ہمیں مولانا حسرت موہانی، میاں عبدالباری، اختر حمید خان، مسعود کھدر پوش، بہادر یار جنگ، پیر صاحب مانکی شریف، علامہ مشرقی اور سب سے زیادہ بڑے خود قائداعظم جیسے روشنی کے مینار نظر آتے ہیں۔ روشنی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ ہماری تاریخ پر جو انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں ۔وہی ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ نقوش جنہیں ہم آنکھوں سے لگائیں تو آنکھیں روشن۔ چومیں تو ہمارے دل و دماغ خوشبو سے بھر جائیں۔ عقیدت سے سر جھکائیں تو زمین سے آواز آئے کہ (انجیل مقدس کے مطابق) راکھ اور خاک سے بنا ہوا انسان پھر اُسی مٹی میں مل گیا جس سے وہ بنایا گیا تھا مگر (بقول اقبال) سبزہ نو رستہ اُن کی اس آخری آرام گاہ کی نگہبانی کرے گا اور آسمان سے شبنم افشانی ہوتی رہے گی۔ میں جب بھی وطن عزیز جائوں (سال میں تین بار تو ضرور جاتا ہوں) تو اُردو اور پنجابی ادب کی اتنی کتابیں خریدلیتا ہوں جن کی (وزن کے حساب سے ) فضائی کمپنی اجازت دیتی ہے۔ میرے قارئین یہ پڑھ کر ضرور مسکرائیںگے کہ اس بار میں نے جس کتاب کی آٹھ جلدیں خرید کر اپنی سامان میں شامل کیں اُس کا نام ہے۔ ”یورپ کی ڈائری‘‘۔ لکھنے والے کا نام پڑھا تو وہ جانا پہچانا لگا چونکہ وہ اسی کالم نگار کا تھا۔ جب میرا جہاز لاہور اُترا تو مجھے بتایا گیا کہ اب فضا میں پھیلی ہوئی زہریلی دُھند باران رحمت سے چھٹ چکی ہے۔ میرے دل میں خوشی کے شگوفے پھوٹنے کو ہی تھے کہ میں نے دیکھا کہ باشعور لوگوں کے ذہنوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والی دُھند کم ہونے کی بجائے اور گہری ہو گئی ہے۔ بے یقینی، ذہنی اضطراب، افراتفری۔ یہ تین تلواریں سروں پر اسی طرح لٹک رہی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ اُنہیں فضا میں معلق کرنے والے کچے دھاگے کی ڈور کب ٹوٹ جائے اور وہ ہمارے سروں پر آ گریں۔ جن لوگوں کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ہیں۔ وہ اپنے کٹے ہوئے سر کو اپنے کندھوں کے درمیان رکھیں گے تو کیونکر؟ متحارب فریقین میںبا عزت اور سمجھوتہ تو ہونے سے رہا۔ یہ کالم نگار نسخہ کیمیا تو نہیں جانتا مگر اپنی اور طویل سوچ بچار کے بعد ایک صاف و شفاف نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ہماری سیاسی کشتی جس بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ہم جس بحران میں گرفتار ہیں۔ اُس کا صرف ایک ہی قابل عمل (اگرچہ مشکل) حل ہے اور وہ ہے وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام۔ اُنیسویں صدی میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان ٹریفالگر کی بحری جنگ ہو رہی تھی کہ لارڈ نیلسن کے لکڑی سے بنائے ہوئے جہاز کو دُشمن کی گولہ باری سے آگ لگ گئی۔ لارڈ نیلسن نے جہاز کے عملہ کوپکارا کہ وہ جہاز کے عرشہ کی طرف پانی سے بھری ہوئی بالٹیاں لے کر دوڑ پڑیں۔ اُنہوں نے باورچی خانہ میں کھانا پکانے والے باورچی کو بھی یہ کہہ کر بلایا کہ آملیٹ بنانا بند کرو اور باقی لوگوں کے ساتھ مل کر آگ بجھائو۔ بار بار ایک ہی اعلان نشر ہوتا تھاکہ All Hands on the Deck ان کے اطاعت گزار اور وفادار عملہ نے ایسا ہی کیا۔ برطانوی بحریہ کا سربراہ (ایڈمرل لارڈ نیلسن) تو اپنے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا مگر جہازکی آگ بجھا دی گئی اور یوں مندرجہ بالا پانچ الفاظ برطانوی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ آج ہمارے ملک کا سیاسی بندوبست اور ڈھانچہ بھی آتش زیر پا ہے۔ مجھے چھ ہزار میل کے فاصلہ سے زیر زمین آگ سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ میری درخواست ہے کہ سب لوگ مگر خصوصاً ہمارے ہمہ وقت برسر پیکار راہنما اور ایک دوسرے سے دست و گریباںہونے والے قائدین اپنے ذاتی اور گروہی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ عرشہ جہاز پر لگی ہوئی آگ کو جلد از جلد بجھائیں۔ یہ صرف اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام چھوٹی اور بڑی سیاسی قوتیں،مذہبی جماعتیں ،کسان مزدور تنظیمیں، وُکلا اور اساتذہ، دانشوروں سے لے کر راج مزدوروں تک سب اس کالم نگار کی یہ فریاد سن لیں کہ All Hands on the Deck. ۔اس کا سلیس زبان میں یہ مطلب ہے کہ تمام عوام دوست بیٹھے ہوں تو اُٹھ کھڑے ہوں ۔اگر وہ کھڑے ہیں تو چل پڑیں۔اگر وہ آہستہ آہستہ چل رہے ہیں تو بھاگیں۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ اتنی دیر کہ چڑیاں ہمارے کھیتوں میں سے سارا دانہ چُگ لیں اور اُڑ جائیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ اس وقت یہ کالم نگا ر وطن عزیزکے جن پندرہ ممتاز افراد سے مخاطب ہے ان کے نام ہیں۔ میر ظفر اللہ خان جمالی۔جسٹس وجیہہ الدین احمد۔ جناب علی احمد کرد۔ جناب افراسیاب خٹک۔ ڈاکٹر عطا الرحمن۔جناب خرم نواز گنڈا پور۔میاں زا ہدسرفراز۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ۔ مرزا اشتیاق بیگ۔ جناب احمد اویس ۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر۔ جناب حامد خان۔میاں رضا ربانی۔ جناب جاوید ہاشمی ۔ڈاکٹر میرافیلبوس ۔یہ افراد جلد ازجلد اپنے ہفتہ وار اجلاس شروع کریں۔ قومی مسائل کا متفقہ حل ڈھونڈیں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ہمیں ایک نئی غیر جماعتی قومی قیادت کی ضرورت ہے۔ All Hands on the Deck.۔