منتخب کردہ کالم

چودہ اگست کے بعد … راؤ منظر حیات

چودہ اگست کے بعد … راؤ منظر حیات

پچھلے ہفتے پاکستان کے قیام کی سترویں سالگرہ تھی۔ ہرقوم کے لیے یہ انتہائی اہم دن ہوتاہے۔مگرسوچنے کی بات ہے کہ کس لیے۔جشن اپنی جگہ،خوشیاں اپنی جگہ۔مگرقومی دن دراصل ایک فکرانگیزسوچ کاتازیانہ ہے جوسوچنے پرمجبور کر دیتاہے۔مسرت اپنی جگہ۔مگراسکے برابریہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ستربرس گزرنے کے بعدکیاہم اہداف حاصل کرچکے ہیںجنکی بنیاداورحصول کے لیے ملک قائم ہواتھا۔ ہر ذی شعور کا اپنااپناجواب ہوتاہے۔سیاست اورسماج کا معمولی سا طالبعلم ہوں۔وثوق سے عرض کرسکتاہوں کہ بحیثیت قوم ہم قیام پاکستان کے کسی بھی مقصدکو بھرپور طریقے سے حاصل نہیں کرپائے۔

پہلی بات تویہ کہ چودہ اگست کوآٹھ دس گھنٹے کے بجائے پندرہ بیس گھنٹے کام کرناچاہیے۔سرکاری دفترہوں یانجی شعبے کے معاملات۔اس مقدس دن پرہمیں پورے سال کے ہردن سے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔جم کرکام کرناتودورکی بات،عام تعطیل کی وجہ سے تقریباًہرآدمی سارادن سستانے اورٹی وی دیکھنے میں بسر کردیتا ہے۔

اکثریت اس کوایک عام چھٹی کے دن کی طرح گزارتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہرشہری اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت اپنے ملک کوعظیم سے عظیم تربنائیگا۔مگروہ ذاتی ہمت یاوعدہ کہیں نظرنہیں آتا۔آئیگابھی نہیں۔اگرملک کاقومی دن صرف جھنڈے لہرانے یا تیز موٹر سائیکل کانام ہے،توہم واقعی کامیاب ہیں۔

دنیاکی عظیم قوم ہیں۔مگردرحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ آپ میرے خیالات سے اختلاف کریں مگریہ حق آپکومکمل طور پرحاصل ہے۔ملک بذات خوداپنے آپکوعظیم یاعظیم ترکہنے سے حقیقت میں عظیم نہیں ہوتے۔دنیاکوپتہ ہوتاہے کہ کون ساملک طاقتورہے اورکون ساناتواں۔کیامکمل طورپراندرونی اوربیرونی قرضوں میں ڈوباہواملک عظمت کے گیت گا سکتا ہے۔ ہاں، گا سکتا ہے۔مگرکوئی بھی اس پریقین نہیں کریگا۔

کیا چین، امریکا، ساؤتھ کوریا،آسٹریلیااوریوکے،ملی نغموں کے ذریعے دنیا کو باورکرواتے ہیں کہ وہ عظیم دنیاوی طاقتیں ہیں۔ قطعاً نہیں۔ ہرایک کوپتہ ہے کہ یہ ممالک دراصل اپنے مضبوط نظام اور ترقی کے ثمرات کی بدولت دنیاکے اکثرملکوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ہمارے جیسے کمزورممالک ان کی چوکھٹ پرتقریباًسجدہ ریز نظرآتے ہیں۔بات تلخ ہے، مگر سچ یہی ہے کہ آزادی کاکوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوا۔عوام کا لفظ مناسب نہیں۔ “رعایا” کو صرف چندٹکڑے ڈال کرہم اپنی بے مثال ترقی کے ڈھول کونہیں پیٹ سکتے۔ان کے مسائل اژدہے کی طرح وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اور عام آدمی کو زندہ نگل رہے ہیں۔

دل پرہاتھ رکھ کربتائیے۔صرف ایک سال کی مثال لیں۔کیاچودہ اگست2016سے لے کرچودہ اگست 2017 تک ہم نے اپنے تمام قومی مسائل حل کرلیے ہیں۔چلیے سوال کوبدل دیجیے۔وہ کیاعوامی نوعیت کے مسائل تھے، جنھیںہم نے ایک سال میں عمدہ طریقے سے حل کرلیا ہے۔

طالبعلم کی نظرمیں ایک بھی نہیں۔باتیں ہیں،نعرے ہیں،جذباتیت ہے اورمنافقت ہے۔قائداعظم کی بات نہیں کرناچاہتا۔کیونکہ وہ اس سطح کے بے مثال لیڈرتھے جو دوبارہ جنم نہیں لے سکتے۔ایسے لوگ قدرت اورحالات کا انعام ہوتے ہیں جوصدیوں میں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں کسی بھی قوم کوعطاکیے جاتے ہیں۔چلیں،اگراس عظیم آدمی کی بات ہوہی رہی ہے توبتائیے کہ کیااسکی کہی ہوئی ایک بات یاایک جملے پربھی عمل ہورہاہے۔ صاحب، قطعاً نہیں۔

اتحاد،ایمان اورنظم وضبط کے کہے گئے تین الفاظ کی روشنی میں ملک کودیکھ لیجیے۔کیااتحادواقعی موجود ہے؟ ہر طریقہ سے منتشرلوگ جوقطعاًایک قوم نہیں بن پائے۔ان میں تونظریہ سے لے کرفرقے تک،طبقاتی خلیج سے لے کر اقتصادی خندق تک،نسل سے لے کربرادری تک،کسی بھی چیز میں کوئی اتحادنظرنہیں آتا۔ایمان کی بات کرنابھی عبث ہے۔

یہاں اصل ایمان دولت کاحصول ہے۔ جائز یا ناجائز طریقے سے۔اس دنیاوی ایمان کی گونج اب عدالتوں سے لے کرسوشل میڈیاتک، ہرجانب سنائی دے رہی ہے۔ ڈسپلن یانظم وضبط پرکوئی جملہ نہیں لکھناچاہیے۔ہم چھوٹی سے چھوٹی چیزکے حصول کے لیے قطارتک بنا نہیں سکتے۔ ڈسپلن تودورکی بات،ہاں ہم،غیرمنظم طریقے سے ہرکام کرنے کے ماہر ترین لوگ ہیں۔دورمت جائیے۔کسی بھی شہر کی ٹریفک کو دیکھ لیجیے۔گاڑیوں،موٹرسائیکلوں اورپیدل لوگوں کاسیلاب ہے جس میں ہربلاپوشیدہ ہے مگرنظم وضبط کاآپ کوشائبہ تک نظر نہیں آتا۔

چودہ اگست کے قومی خطابات غورسے سنیے اورتجزیہ کیجیے۔وہی رٹی رٹائی،گھسی پیٹی باتیں جوہم لوگ سترسال سے سن رہے ہیں۔ لکھی ہوئی بے جان تقاریر،پڑھ کر سمجھا جاتاہے کہ قائدین نے اپناقومی فریضہ بھرپورطریقے سے ادا کردیا۔مگروہ توصرف سادہ اورخوشنماالفاظ ہوتے ہیں۔عملی مطلب کچھ بھی نہیں ہے۔کیاآج تک کسی قومی سطح کے قائد نے چودہ اگست کواعلان کیا،کہ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ملک کے لیے زہرقاتل ہے۔اسکوکنٹرول کرنے کے لیے ہم اگلے سال کے قومی دن تک فلاں فلاں اقدامات کرینگے۔

کیاکسی صدریاوزیراعظم نے بیان کیاہے،کہ ہماری برآمدات میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ہم ایک سال میں انکوباعزت سطح پرلے کرآئینگے۔کیاکسی اہم آدمی نے قوم کوبتایاکہ ہمارے ملک میں ماحولیاتی آلودگی قیامت برپاکرچکی ہے۔ہم اگلے سال تک اس پرقابو پالیں گے۔

کیاکسی قومی لیڈرنے ہمت کی، کہ اس قومی دن پراعلان کرے کہ آج کے بعدمیں اپنے اوپرسادگی کاقانون نافذ کرونگا۔ سرکاری مراعات اورقومی خزانہ پرقطعاًبوجھ نہیں بنوںگا۔ قصرِ اقتدارسے نکل کراس غریب ملک کے مطابق اپنے آپکوسادہ طرزِزندگی پرڈھال دونگا۔بے شمارمسائل ہیں۔جن پرایک ایک جملے میں قومی دن کی مطابقت سے ہمت اورعظم کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ پرنہیں۔ہمیں صرف اورصرف لفاظی کی مارماری جاتی ہے۔ اب توتقاریرسن کردکھ ہوتا ہے کہ ہم اتنا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں۔کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

عرض کرتاچلوں۔میرے والدین اوربزرگوں نے اس ملک کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔تفصیل میں نہیں جاناچاہتا۔مگرعرض ضرورکرونگاکہ اس ملک کی بنیادوں میں ہماری ذاتی نسلوں کی محنت ،مشقت اورخون پسینہ شامل ہے۔یہ تمہیدصرف اس لیے کہ میری غیرجذباتی تنقیدکوحب الوطنی کے برعکس نہ سمجھا جائے۔ کیا پاکستان کاجھنڈالہرانے سے واقعی ہماری آزادی کاقومی ہدف پورا ہوجاتا ہے؟

کیا ایشیاء یادنیاکاسب سے بڑاجھنڈالہرانے سے ہم ترقی کی شاہراہ پرتیزرفتاری سے دوڑناشروع کردیتے ہیں۔ قطعاً نہیں۔ہرگزنہیں۔جواب دیجیے۔ کیا امریکا، چین اور یوکے،چارپانچ سوفٹ کے جھنڈے ہرجگہ نہیں لہراسکتے۔ کیا پانچ سوفٹ کاجھنڈا نہیں بناسکتے ،بالکل بناسکتے ہیں۔مگر نہیں بناتے۔کیونکہ معلوم ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کے لیے دنیاکے بہترین نظام بنارکھے ہیں۔

خوشحالی،خوشی اور روزگار کے لیے بے مثال مواقع مرتب کیے ہیں۔سائنس،تحقیق اور علمی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔انکواعتماداپنے آپ پرہے اور وجہ ان کی محنت،انصاف اورمتوازن سوچ ہے۔ خوشی ہے کہ ہم نے چودہ اگست کوایشاء کاسب سے بڑا جھنڈا فضا میں بلند کیا،مگرکیایہ واقعی زمینی حقائق کوبدل سکتا ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتاتھاکہ ہم ایک ایسے منصوبہ کااعلان کرتے جسکی بدولت قلیل وقت میں ہماراقومی مقدربدل جاتا۔ پر صاحبان!ہم یہ کبھی نہیں کرینگے۔اس لیے کہ مشکل کام ہے۔ البتہ بیانات دینا، اعلانات کرنااورجذباتی مظاہرے کرنابے انتہاآسان ہیں۔

چودہ اگست کوصبح صبح باغ جناح سیرکے لیے گیا۔کئی بچوں نے موقع کی مناسبت سے چاندستارے والے سبز دیدہ زیب کپڑے اورٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔دیکھ کربہت خوشی ہوئی۔کئی نوجوانوں نے سفید اور سبز رنگ کے پلاسٹک کے بھونپوبھی پکڑرکھے تھے۔ان میں سے ٹرین کے انجن کے ہارن کے برابرکی آواز نکلتی تھی۔واپسی پرایک دکان پررُکاجو اس دن کی مناسبت سے چیزیں فروخت کررہی تھی۔ وہاں سے ایک جھنڈا خریدنا چاہتا تھا۔

کام ختم کرنے کے بعد ویسے ہی دکاندارسے پوچھا کہ صاحب یہ بھونپو، ٹوپیاں اور سبزستارے والی اشیاء کہاں بنتی ہیں۔ اس کا جواب بالکل مختصرتھا۔چین سے۔ خاموشی سے واپس آگیا۔ کیایہ تکلیف دہ سچ نہیں کہ ہم لوگ اپنے قومی دن پر خوشی منانے والی اشیاء تک خود نہیں بنا رہے۔

ہو سکتا ہے کہ چندچیزیں ہمارے تاجربھی بنارہے ہیں۔ مگر اکثراشیاء چین سے درآمدشدہ تھیں۔ اس سے زیادہ بے بسی اورمحتاجی کی کیفیت کیاہوگی۔ٹی وی پر باربار فخریہ طریقے سے بتایاجارہاتھاکہ کراچی، لاہور میں چودہ اگست کے حوالے سے اربوں روپوں کی شاپنگ کی گئی۔بہت خوشی کی بات ہے۔پرکیایہ نہیں ہوسکتاکہ ہمارے قائدین اعلان کریں کہ اس سال ہم قومی دن پراُٹھنے والے تمام سرکاری اورغیرسرکاری اخراجات تعلیم کوبہتربنانے کے لیے صَرف کرینگے۔ اسکولوں میں اعلیٰ سہولیات مہیا کرینگے۔

صحت کے حوالے سے سرکاری اسپتالوں کو اتنا بہتر بنادینگے کہ عوام نجی اسپتالوں کارخ نہیں کریں گے۔کیاہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ صرف یہ اعلان کردیں کہ ہم اس دن کے اربوں روپے کے اخراجات کوبچاکر ملک میںہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری کاقلع قمع کردینگے۔یادرہے کہ اس وقت کالا یرقان پاکستان میں وباء کی طرح پھیلا ہوا ہے۔

پر نہیں۔ ایسافیصلہ نہ پہلے کبھی ہواہے اورنہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔ہم اسی طرح چین سے درآمدشدہ بھونپوبجابجا کر قومی دن مناتے رہینگے۔لوگ جہالت، غربت، مفلسی، بیماری، جذباتیت اور تشددپسندی کے سمندرمیں غرق ہوتے رہینگے۔سترسال سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ شائد آیندہ بھی ہوتارہیگا۔کوئی نہیں سوچتا کہ چودہ اگست کی دھواں دارتقاریراوراعلانات کے بعد ہر چیزاسی بدنظمی سے چلتی رہتی ہے جیسے پہلے گامزن تھی۔ عام آدمی یہاں صرف سبز ستاروں والی ٹوپیاں اوربنیانیں پہن کرناچتارہے گا۔یہی اسکامقدرہے۔یہی اسکامستقبل ہے!

…………
اگلا کالم.
……..