منتخب کردہ کالم

ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے دل سے دعا … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے دل سے دعا … اسد اللہ غالب

زندگی اس قدر ناپائیدار ہو گی، ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
یہ الفاظ ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب کے جو گزشتہ چوبیس گھنٹوںسے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کے سفر کی ابتدا دس ہزار کے ایک معمولی سے قرض سے کی تھی جو انہوںنے بلاسود اچھرہ کی ایک تنگ و تاریک گلی میںمقیم کسی بڑھیا کو چرخا کاتنے ا ور کشیدہ کاری کے لئے دیا۔
دس ہزار سے جو سفر شروع ہوا ، وہ آج اربوں کھربوں تک پہنچ چکا ہے۔
مگر آج ڈاکٹر امجد ثاقب کو کسی عطیے ، کسی فنڈ کی نہیں ، آپ کی دعاﺅں کی ضرورت ہے، وہ ایک ایسی دعا کے محتاج ہیں جو بارگاہ الہی سے قبولیت کا شرف حاصل کرے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر امجد ثاقب کا ایس او ایس پیغام پھیلانے والے مشتاق چودھری ہیں جو سینیٹر طارق چودھری کے بھائی ہیں ،اور امریکہ میںمقیم ہیں۔ان کے بڑے بھائی یاسین چودھری ایک زمانے میں مولانا مودودی کی میت بفیلو امریکہ سے لاہور لے کر آئے تھے، ان کے ایک بھائی خالد چودھری ہیں جو برسوں سعودی عرب میں اپنا کاروبار کرتے رہے۔ یہ پورا گھرانہ نیکی اور شرافت کا نمونہ ہے۔
چودھری مشتاق نے تازہ نیکی یہ کمائی ہے کہ کہیں سے انہوںنے ڈاکٹر امجد ثاقب کا ایک درد بھرا پیغام پڑھا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا۔
میں نے اس پیغام کی پہلی ہی سطر پڑھی تو میری روح کی چیخ نکل گئی۔
خدایا! خیر کرنا، ڈاکٹر امجد ثاقب دیار غیر میں ہیں اور تیری رحمت کے طلب گار ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے خیر کی دعا ہم صرف ان کے بچوں کے لئے نہیں مانگتے بلکہ ان ہزاروں لاکھوں بچوں کے لئے مانگتے ہیں جن کی تعلیم، جن کے روز گار اور جن کے شادی بیاہ کے معاملات کا سارا دارو مدار ڈاکٹر امجد ثاقب کی سخاوت پر ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب یوم آزادی کے موقع پر سویڈن گئے جہاں تیرہ اگست کو ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی، اس کی صدارت سفیر پاکستان جناب طارق ضمیرنے کی ا ور دو ہزار کے قریب اوورسیز پاکستانی اس میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہاں اخوت یونیورسٹی کے فنڈ ریزنگ کے لئے مدعو کیا گیا تھا، اس تقریب میں ایک کرکٹ بیٹ نیلامی کے لئے پیش کیا گیا جس پر حالیہ چیمپئن ٹرافی جیتنے والی پاکستانی کر کٹ ٹیم کے ارکان نے دستخط کئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ہر لحاظ سے ایک شاندارا ور یاد گار تقریب تھی اور حوصلہ افزا بھی کہ انہیں اپنی اخوت یونیورسٹی کی تعمیر کے خواب کی تعبیر نظر آ رہی تھی، اگلی صبح انہیں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن جاناتھا اور وہاں بھی اسی طرح کے ایک جشن آزادی میں شرکت کرنا تھی مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا، ڈاکٹر صاحب کے سینے میںمعمولی درد کی ٹیس ابھری ۔انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں نوبت انجیو گرافی تک پہنچ گئی، ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ دل کی تمام شریانیںبند ہیں اور فوری بائی پاس ضروری ہو گیا ہے،یا اللہ ! یہ کیا ہوا، ایک صاحب خیر اپنے دیس سے ہزاروںمیل دور کڑی آزمائش سے دوچار ہو گیا، اس کے سرہانے کوئی پیار ا نہیں تھا مگر ڈاکٹر صاحب کوحوصلہ تھا کہ وہ سب تو اس کے پاس موجود ہیں جو اس کے لئے نیک تمنائیں رکھتے ہیں اور دامے درمے سخنے ان کی مدد اور اعانت کے لئے تیار ہیں ۔ ان لوگوں کے جذبوں کی کوئی حد نہیں۔ تڑپتے ہونٹوں سے دعائیں ان کے لئے اوپر آسمانوں والے کے سامنے دن رات کے ہر لمحے پہنچ رہی ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نیکی کا مجسمہ ہیں، وہ سفر جو اچھرہ لاہور کی ایک تنگ و تاریک گلی میںمقیم بوڑھی عورت کو دس ہزار بلا سود قرضے سے شروع ہوا، آج لاکھوں انسانوں تک محیط ہے اور اخوت کا فنڈ اربوں کی حدوںکوچھو رہا ہے، اب ڈاکٹر امجد ثاقب لاہور قصور روڈ پر اخوت یونیورسٹی کی تعمیر کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں جس پر راج مزدور کام کر رہے ہیں۔ یہ یونیورسٹی ان طلبہ کے لئے مخصوص ہو گی جو ذہین تو بلا کے ہیں مگر بلاﺅں کے اسیر ہیں اور اعلیٰ تعلیم کی سکت نہیں رکھتے، اخوت یونیورسٹی میں ان طلبہ کو مفت تعلیم اور مفت رہائش کی سہولت دی جائے گی، ایسامنصوبہ تو سرسید احمد خان نے بھی نہ سوچا تھا۔
اخوت کا تصور مواخات مدینہ سے مستعار لیا گیا۔ مواخات مدینہ کے بانی مبانی سیدنا حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے۔ انہوں نے کائنات کی سب سے پاک ہستی کو اپنا گھر پیش کیا تھا۔ کس قدر عالی شان مہمان ملا تھا اور کس قدر عالی شان میزبان تھا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ استنبول میں محو خواب ہیں ، گزشتہ ماہ ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر آصف محمود جاہ ترکی گئے، انہیں شامی مہاجرین کا دکھ وہاں کھینچ کے لے گیا تھا، ان مہاجرین کے ساتھ ترک عوام نے مواخات مدینہ کی مثال پر عمل کیا ہے ا ور اپنے گھر، اپنی دکانیں اور اپنے دفاتر ان کو پیش کر دیئے ہیں۔ ڈاکٹر آصف جا ہ استنبول گئے اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار ا قدس پر حاضر ہوئے۔ وہاںسر جھکائے کھڑ ے رہے، مواخات مدینہ کا بانی ڈاکٹر آصف جاہ کا ہیرو ہے، اور ڈاکٹر امجد ثاقب بھی انہی ابو ایوب انصاری ؓ کے مواخات مدینہ کی مثال پر عمل پیرا ہیں، کتنا روشن ہے یہ سفر، کتنا پاکیزہ ہے یہ سفر، ابو ایوب انصاری ؓسے ڈاکٹر آصف جاہ تک اورا س سے ا ٓگے ڈاکٹر امجد ثاقب تک، مواخات کی ایک کہکشاں انسانیت کے افق پر روشن اور تابندہ ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف جاہ دونوں سے مجھے محبت ہے، میںنے اس محبت کے اظہار میںکسی بخل سے کام نہیں لیا، میرے قلم کے پاس یہی ایک دولت ہے جو میںنے ابو ایوب انصاری ؓ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف جاہ پر نچھاور کر دی ہے۔
پچھلے دنوں ڈاکٹر امجد ثاقب سے میری قربت میں اضافہ ہو گیا۔ وہ دو سال پہلے میرے گھر تشریف لائے ، رخصت ہونے لگے تو میںنے درخواست کی کہ پھر کسی وقت آئیں اب مجمع لگا ہے، اکیلے بیٹھ کر کچھ ضروری باتیں کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب عدیم الفرصت ہیں ایک سال گزر گیا، شعیب بن عزیز کی بیٹی کی شادی پر وہ ملے تو میں نے اپنی فرمائش یا دکروائی، ایک سال اور بیت گیا، اب انہوں نے یک بارگی میرے بیٹے عمار چودھری سے کہا کہ آپ کے ابو نے بلا رکھا ہے، مجھے کسی وقت لے جاﺅ۔ عمار نے اخوت کی ستائش میں بہت لکھا ہے،رمضان کی سخت گرم دوپہر کو ڈاکٹر صاحب اکیلے چلے آ ٓئے۔ میںنے ان سے وہ ساری باتیں کیں جو دل میں تھیں۔ ان کا فیڈ بیک لینے کے لئے فون کرتا ہوں تو خاموشی، پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی ملک کی طرف نکلے ہوئے ہیں، کوئی دس روز پہلے ان کا پھر فون آیا کہ باہر چلا گیا تھا، دوبارہ کہیں جانا ہے پاﺅں میں چکر ہے،اگست کے آخر میں ملاقات ہو گی۔ مگر سوشل میڈیا پر ان کا پیغام پڑھ کر دل کو رنج پہنچا۔
ان کے فیس بک پیج پر ان کی اگلی مصروفیت کی تفصیل درج ہے کہ یوگنڈہ کی حکومت نے ان کے ساتھ مائیکرو فنانسنگ اسکیم شروع کرنے کے لئے معاہدہ کیا ہے جس کی بسم اللہ کے لئے وہ ستمبر میں وہاں جائیں گے اور بلا سود قرض حسنہ کی اسکیم وہاں سے بھی شروع کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب کے سارے منصو بوں کی تفصیل میں اپنے حالیہ کالموں میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
خدا کرے کہ وہ اپنے دل کے آپریشن سے جلد صحت یاب ہوں اور ان کی اگلی منزل حسب پروگرام یوگنڈہ ہو۔ اس افریقی ملک کے آس پاس کہیں لیڈی ڈیانا بھی گئی تھی، اس نے استعمار کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کے خلاف احتجاج کیا تھا جن سے روزانہ معصوم جانیں ضائع ہو رہی تھیں، لیڈی ڈیانا نے ا س سفر سے نام پیدا کیا ، وہ انسانیت کی ہمدرد کہلائیں، ڈاکٹر امجد ثاقب کے لئے بھی افریقی ملک کا سفر مبار ک ثابت ہو اور ان کی نیک نا می میں اضافے کا سبب بنے۔
ڈاکٹر صاحب !اسٹاک ہوم کے ہسپتال کے کے کسی بیڈ پر آپ تنہا نہیں ہیں۔ہزاروں لاکھوں ہاتھ دعا کے لئے آپ کے سر پہ سایہ کئے ہوئے ہیں۔
خدا کے لئے ، ایسا مت سوچئے کہ انسانی زندگی کس قدر ناپائیدار ہے۔ آپ تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی روشن کردہ روایت کے امین ہیں۔ بھلا روشنی بھی ناپائیدار ہو سکتی ہے۔
قارئین کرام! ڈاکٹر امجد ثاقب کو اس وقت آپ سے فنڈ کی ضرورت نہیں ، انہیں صرف آپ کی دعا کی ضرورت ہے، وسائل تو خدا کی ذات کے ہاتھ میں ہیں جو اس نے بے بہاا ور ان گنت ڈاکٹر صاحب کو عطا کر رکھے ہیں، بس !ا پنے ہاتھ دعا کے لئے ا ٹھایئے۔انسانیت کے ایک مسیحا کی صحت اور نئی زندگی کے لئے دعا کیجیے۔
……..
..اگلا کالم…حسن نثار..

………