منتخب کردہ کالم

کامل محمد بخشا…..بابر اعوان

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے!

کامل محمد بخشا…..بابر اعوان

رُومیِ پوٹھوہار کے دربار پر حاضری کے لیے عبداللہ کا پچھلے سال سے اصرار تھا۔ ساتھ ہی ہمارے پیارے سجادہ نشین کھڑی شریف میاں عمر بخش کی دعوت بھی۔ لیکن مصروفیت کا امتحان ناقابلِ بیان ۔ صبح سویرے نیب عدالت میں حاضری دی۔ پھر اسلام آباد بار کونسل کی ہائی ٹی میں شریک ہوا‘ جہاں اسلام آباد بار کونسل کے سینئر ممبران قاضی رفیع الدین بابر ، سید واجد گیلانی ، جاوید سلیم شورش ، لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ بار ایسوسی ایشن کے صدر حسن رضا پاشا اور دور دراز سے تشریف لائے ہوئے وکلا نمائندوں اور لیڈروں سے گپ شپ کا موقع مل گیا۔
پورے 11 بجے وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دفتر میں پہلی میٹنگ سٹارٹ ہوئی ۔ دوسری نشست پی ایس ٹو ، پی ایم اعظم خان صاحب کے دفتر میں تھی۔ جبکہ تیسری وزیر اعظم ہائوس کے چھوٹے آڈیٹوریم میں پی ٹی آئی کے 100 روزہ ایجنڈے کی پیش رفت کے بارے میں ۔ ہر جگہ میٹنگ کے شرکاء مختلف مگر ممتاز لوگ تھے۔ عمران خان نے دو مزید بریفنگز میں شرکت کے لیے کہا ۔ میر پور کے دوستوں کو 6 بجے شام پہنچنے کا ٹائم دے رکھا تھا۔ اس لیے ساڑھے تین بجے اگلی مصروفیات سے معذرت کر کے ہم شاہراہِ دستور سے کھڑی شریف کی طرف چل نکلے ۔
خطۂ پوٹھوہار کے سرسبز پہاڑوں کے درمیان۔ دریائے جہلم کے کنارے منگلا ڈیم کی سطح سے نیچے ہزاروں لوگوں کے درمیان۔ شبِ وجد کی کیفیت سے دوچار ہونے کے لیے ایک گھنٹہ 40 منٹ سفر طے کرنے پر ہم نے منگلا پل کراس کر لیا۔ سامنے یوتھ کا اکٹھ تھا۔ اکثر برٹش نیشنیلٹی ہولڈر خوشحال نوجوان ۔ انہیں پوٹھوہاری زبان میں ”انگلینڈیئے‘‘ کہا جاتا ہے۔ دمکتے چہروں والے یہ نوجوان اپنے ساتھ چمکتے ہار لے کر آئے تھے۔ منگلا پل سے دو راستے میاں محمد بخشؒ کی درگاہ کو جاتے ہیں۔ ایک میر پور شہر کی مال روڈ سے گزر کر ۔ پھر اڑھائی کلو میٹر پہاڑ سے اترنا پڑتا ہے۔ جہاں ہموار اور ہریالی والی زمین کے عین وسط میں رومیِ کشمیر آسودہ خاک ہیں۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ نے اپنی قلبی وارداتوں کو جہاں جہاں بیان کیا‘ وہاں انہوں نے اپنے مرشد پیرا شاہ قلندر سے وابستگی کا ذکر کمال محبت اور شعری غنا میں کیا ہے۔ پیرا شاہ قلندر کا مزار کھڑی شریف کمپلیکس میں داخل ہوتے وقت پہلے آتا ہے۔ اس کے بعد زیرِ زمین میاں محمد بخشؒ کی پرانی چلہ گاہ یا چھوٹے سے کمرے پر مشتمل رہائش گاہ ۔ جس کے ساتھ ہی حضرت میاں محمد بخشؒ کا مزار خاص و عام کے لیے مرکز نگاہ ہے ۔ صرف مرکزِ نگاہ ہی نہیں مرکزِ محبت اور عزت و تکریم بھی ۔ یہاں مقامی لوگ احسان کرنے کی حد تک جا کر مہمان سے مہربان والا سلوک کرتے ہیں۔
میاں محمد بخش ؒ نے کہا:
بادشاہاں نوں پُچھ ہووے گی، مظلوماں دے حالوں
کہسی رب وڈیایا تینوں، دے عزت اقبالوں
حضرت میاں محمد بخشؒ نے اپنے شہرۂ آفاق کلام ‘سیف الملوک‘ میں عیب جوئی کے خلاف بڑے دل نشین انداز میں سالک بن کر مسافرانِ راہِ سلوک کو مخاطب کر رکھا ہے۔
ایناں گلاں تھیں کی لبھدا عیب کسے دا کرناں
اپنا آپ سنبھال محمد جو کرنا سو بھرنا
کھڑی شریف تک پہنچنے کا دوسرا راستہ دریائے جہلم کے آزاد کشمیر والے کنارے کی دائیں جانب بڑی نہر کے ساتھ ساتھ جاتا ہے‘ جس کا نیلگوں پانی لندن کے ٹیمز دریا کی آنکھیں چندھیا کر رکھ دے۔ اس راستے سے کئی بار میں براستہ جاتلاں کھڑی شریف گیا ہوں۔ آج کل یہاں قبضہ گروپ، کراچی کی مچھلی کو دریا کی مچھلی کہہ کر بیچنے والے‘ بے ڈھنگی فیکٹریاں اور اس نورانی پانی کے کنارے پر بے رحمی سے گند ڈالنے والے ”نظر وٹّو‘‘ کثرت سے ملتے ہیں۔ ہم میر پور شہر والے راستے سے اپنی پہلی منزل پر پہنچے ‘ جہاں کچھ آرام کے بعد 100 سال پہلے کھڑی کو عالمی پہچان دینے والے مرد نے درد مندی کی جوت جگائی تھی۔
مرد ملے تاں درد نہ چھوڑے، اوگن دے گُن کردا
کامل لوک محمد بخشا لعل بنان پتھر دا
میں حسب عادت پہلے عبداللہ کو ساتھ لے کر حضرت میاں محمد بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے پہنچا ۔ سمارٹ فون کا بھلا ہو ۔ اب وہ زمانے کہاں جب تخلیہ ملا کرتا تھا۔ تنہائی میں تلاوت ممکن تھی ۔ وہ دور بھی گیا جب فاتحہ خوانی کے دوران سیلفی بنانے کے ماہر اور فیس بک لائیو کے عادی مجرم چڑھ نہیں دوڑتے تھے۔ اب تو سوشل میڈیا کے طوفان میں نروان کی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ پھر سلیبرٹی ہونے کی قیمت الگ سے ہے ۔ آپ نے ہاتھ باندھ کر تلاوت کر لی ۔ زمین پر بیٹھ کر دعا کر لی۔ کسی نے لوحِ مزار کو ہاتھ لگا لیا۔ ہر آسن اور ہر انداز ۔ جو ظاہر ہے بے اختیار ہوتا ہے۔ خیر سے کچھ بادشاہوں کے نزدیک قابلِ گرفت بھی ہے۔ تصوف کی دنیا میں بے اختیاری کو حال پڑنا یا وارفتگی کہتے ہیں۔ میاں محمد بخش کے نزدیک مردِ کامل بننے کے لیے جائے ادب کا ادب کرنا بنیادی شرط ہے ۔
بے ادباں مقصود نہ حاصل نہ درگاہے ڈھوئی
ادبوں باہجھ محمد بخشا کامل مرد نہ کوئی
کامل مردوں کے گھرانے اور آستانے پہچانے جاتے ہیں ۔ جس کا سادہ فارمولہ اپنے آپ میں سی حرفی ہے۔ جہاں عزت کی تقسیم ہو۔ لنگر کا انفاق یا تحصیلِ علم کی ترسیل وہاں پر مردِ کامل پایا جاتا ہے۔ پوٹھوہاری زبان کے ایک محاورے کے مطابق ‘ جس زمین پر سے ایک بار دریا کا بہائو گزر جائے وہاں صدیوں کے زمانے تک پانی کی تاثیر باقی رہتی ہے۔ اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ گولڑہ شریف سے شروع ہو کر بذریعہ کھڑی شریف اُچ شریف تک ایسا ہی رہا ہے۔ بقول پوٹھوہاری کے:
سدا بہار دئیں اس باغے کدی خزاں نہ آوے
ہوون فیض ہزاراں تائیں، ہر بُھکھا پھل کھاوے
بات ہو رہی تھی بے اختیاری ، خود سپردگی اور وارفتگی کی ۔ میاں محمد بخش نے اسے توحید سے جا جوڑا۔ بجا طور پر انسان کی بے ثباتی ۔ مالکِ لوح و قلم کی وحدانیت ۔ رب کا اختیار اور عبد کی بے بسی کا ذکر سیف الملوک میں یوں ہے:
جو چاہیں سو لکھیں، مالک لوح و قلم دا
میں مسکین حوالے تیرے، تو ضامن ہر کم دا
سیف الملوک میں عدل اور فضل کے فلسفے پر بھی حیات بخش اور جانِ امید کلام موجود ہے۔ کامل مرد ساری شان کو اپنے مالک سے منسوب کرتا ہے۔ امتحان کے بجائے کرم اس کی طلب رہتی ہے۔ اسی لیے فقر کی دنیا میں چیونٹی ، کتا، کوا بھی جاندار سمجھ کر لنگر کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ میزان یا عدل کے ترازو میں ہر صاحبِ جان باعثِ تراحم جانا جاتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے جس کی سب سے بڑی فضیلت مالک کا فضل ہے۔ اور سب سے سخت امتحان عدل ۔ محمد بخشؒ کہتے ہیں:
عدل کرے تاں تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے
فضل کرے تاں بخشے جاون میں جیہے منہ کالے
ہزاروں کا مجمع تھا۔ رات 9 بجے کے بعد میں نے 35 منٹ بات کی۔ کہا ہمیں داد اور شاباش دینے والا اچھا لگتا ہے۔ نفرت اور منہ سے آگ برسانے والا نہیں۔ ہم جو اپنے لیے مانگتے ہیں وہ دوسروں میں بانٹتے کیوں نہیں۔ سوغات سے مناجات تک۔
چَنگی مندی سجناں کولوں سو واری ہو جاندی
یار یاراں دا گلہ نئیں کردے اصل پریت جنادی