منتخب کردہ کالم

کامیابی اور ناکامی…ھارون الرشید

کامیابی اور ناکامی...ھارون الرشید

کامیابی اور ناکامی…ھارون الرشید

اس دنیا میں کوئی کامیابی‘ کامیابی ہے اور نہ کوئی ناکامی‘ ناکامیابی۔ مگر یہ بات انہیں کیسے سمجھائی جائے‘ اللہ کو نہیں جو بندوں کو رزاق سمجھتے ہیں۔
اپنی پارٹی وہ چلا نہ سکے مگر ہارون خواجہ غیر معمولی انتظامی صلاحیت اور ریاضت کے آدمی ہیں۔رزقِ حلال کے خوگر بھی۔ برسوں شریف خاندان کے ساتھ کام کیا۔ سرکاری خزانے سے مگر ایک دھیلا بھی وصول نہ کیا۔ہر شخص کو اللہ تعالیٰ ایک صلاحیت اور ہنر عطا کرتا ہے‘ جس کے بل پر وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ لازم نہیں کہ ہر منصوبے میں وہ ظفریاب ہو مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ناکام ہو گیا۔
چھبیس برس ہوتے ہیں‘ سردار شیر باز خاں مزاری کی خدمت میں حاضر ہوا۔سفید کرتا شلوار پہنے‘ وجیہ و شکیل آدمی‘ اپنی لائبریری میں براجمان تھا۔ منتخب کتابوں کے درمیان‘ وہ لائبریری کا ایک حصّہ لگا۔ کسی قدیم کتاب کی طرح متین ‘فیاض اور باوقار۔کھانے کا وقت آیا تو ایک تپائی‘ مہمان اور دوسری میزبان کے سامنے رکھ دی گئی۔ احمد مشتاق نے کہا تھا : تھم تھم کے چلتی ہے‘ ہوا خالی مکانوں میں۔ کچھ آباد گھروں میں بھی ہوا احتیاط کے ساتھ بہتی ہے۔ مکین اونچی آواز میں بات نہیں کرتے اور قرینے طے شدہ ہوتے ہیں۔
ظہرانہ تمام ہوا تو ایک کے بعد چائے کی دوسری پیالی پر‘ کسی قدربے تکلفی سے بات ہونے لگی۔ تب اس آدمی نے وہ بات کہی‘ نجیب ترین لوگوں میں بھی جو نجیب سمجھا جاتا۔کہا : صاحب! میں تو ناکام ہو گیا۔ مداح کو صدمہ پہنچا۔ مگر اس نے استفسار کی جسارت کی : کامیابی کا پیمانہ کیا ہے سردار صاحب! کیا آپ اپنے ہم جماعت ذوالفقار علی بھٹو کو کامیاب سمجھتے ہیں؟” جی نہیں‘‘ شائستہ آدمی‘ نے کہا اور تفصیل سے گریز کیا۔ عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی پر بھٹو نے پابندی لگائی اور جیل میں ڈالا تو سردار صاحب نے باقی ماندہ اجزا جمع کیے اورنئی پارٹی کھڑی کر دی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی سفاک سپاہ داخل ہوئی تو بھارت اور روس نواز ولی خاں نے‘ قاتلوں کی حمایت شروع کر دی۔ وہ ایک اور طرح کے محمود اچکزئی تھے۔سردار شیر باز مزاری دھڑے باز آدمی نہ تھے۔ وہ کسی کے مخالف اور حامی تھے ہی نہیں۔ ان کا رویّہ یہ تھا کہ حمایت یا مخالفت‘ کسی عمل کی ہوتی ہے‘ آدمی کی نہیں۔
”کیا آپ عبدالولی خان کو کامیاب لیڈر سمجھتے ہیں؟‘‘۔مہمان نے پوچھا ”جی نہیں‘‘ انہوں نے کہا اور اضافہ کیا” اپنی آزادی کے لئے افغانوں کو ہتھیار اٹھانے کا حق ہے‘‘۔عبدالولی خان تھک ہار چکے تھے۔ منظر پہ اب پھانسی پا جانے والے بھٹو کی جانشین بے نظیر بھٹو اورجنرلوں کے پالے ہوئے نواز شریف تھے۔ نواز شریف وزیراعلیٰ تھے اورذہنی طور پر اسلام آباد کے تخت پہ براجمان ہونے کے لئے تیار۔کوئی دن میں ‘ اسلام آباد کی ایک تقریب میں‘ عارف نظامی نے کچھ سوالات اٹھانا تھے اور بگڑ کر نواز شریف کا یہ کہنا تھا : میں ایک جوان وزیراعظم ہوں۔وہی بات جو سلیمان بن عبدالملک نے کہی تھی: بیشک ابو بکرؓ صدیق تھے‘ عثمان غنی ؓ اور عمرؓفاروق مگرمیں بھی تو جوان بادشاہ ہوں ۔ان دنوں میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ 25 سال تک ملک پر حکومت کریں گے۔ روایتی سیاستدان وہ نہ تھے۔ میٹر ریڈر سے لے کر‘ جنرلوں تک کو لبھانے کا سلیقہ سیکھ چکے تھے۔ بے شک وہ کامیاب رہے۔ بس ایک میدان میں نامراد۔ ہر چیز کما لی مگر عزت و توقیر نہ کما سکے۔ پھر ان پر ایک عذاب نازل ہوا اور اس عذاب کا نام عمران خان ہے‘ جس کے وہ در پے ہو جائے‘ اسے ہرا کر رہتا ہے‘ خواہ اس میں خود ہی خرچ ہو جائے۔ خیر یہ بعد کی بات ہے۔ ان دنوں تو وہ کرکٹ کا عالمی کپ چھین لانے پہ تلا تھا۔ کراچی میں گرمیوں کی ایک دوپہر‘ ساڑھے تین گھنٹے تک وہ گیند پھینکنے کی مشق کرتا رہا۔ ڈوبتی شام میں تولا گیا تو اس کا وزن آٹھ پائونڈ کم ہو چکا تھا۔اس شام اسے ایک بڑے اخبار کے چیف ایڈیٹر کی پٹائی کرنا تھی جو اب اس سے انتقام لینے پر تلا ہے ‘مگر یہ کہانی پھر کبھی۔
نماز عصر ادا ہو چکی تو سردار صاحب سے پوچھا: کیا بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو آپ کامیاب سمجھتے ہیں؟۔ ”جی نہیں‘‘ انہوں نے کہا اور بتایا کہ بے نظیر نے انہیں وزارت کی پیشکش کی تھی۔ انہیں تو ظاہر ہے انکارہی کر دیا‘ نواز شریف سے ملاقات پر بھی آمادہ نہ تھے۔ جس آدمی نے خاندانی جاگیر سے ہاتھ اٹھا لیا ہو کہ ان کے بھائی اور فرزند‘ کسانوں پر رحم نہ کرتے تھے‘ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ان کے لئے کس کام کے تھے؟۔”اگر آپ برا نہ مانیں‘‘ مہمان نے عرض کیا :تو یہ فرمائیے کہ کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ کیا ہے؟
سردار صاحب خاموش رہے۔
اگر آپ گستاخی معاف کر سکیں تو چند سوالات اور ہیں۔
سردار صاحب خاموش رہے مگر اثبات میں سر ہلایا۔
کیا آپ کبھی جھوٹ بولنا گوارا کرتے ہیں؟ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ بلوچ سردار کے چہرے پر تکدّر کے آثار نمودار ہوئے۔ یہی ان کا جواب تھا۔
ایک آخری سوال باقی تھا: کیا آپ رزق حرام گوارا کر سکتے ہیں؟ یہ ان کی تاب سے زیادہ تھا۔ زخمی لہجے میں انہوں نے کہا: ایسے لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی میں پسند نہیں کرتا۔ یہ واضح کرنے کے لئے کن لوگوں کی وہ تکریم کرتے ہیں‘ انہوں نے محمد صلاح الدین کا نام لیا۔ ایک بے خوف آدمی‘ جس نے اس شان سے ”را‘‘ کے ایجنٹ الطاف حسین سے لڑتے ہوئے جان دی کہ فرشتے بھی عش عش کر اٹھے ہوں گے۔ بلوچ سردار کے دروازے پر پیتل سے تین لفظ اجاگر تھے…”بلوچ‘ غیرت اور عزت‘‘
عالی مرتبتؐ سے کسی نے کہا:میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا: مجھ سے جو محبت کرتا ہے‘ وہ خیانت نہ کرے اور جھوٹ نہ بولے۔سرکارؐ کی سیرت کا یہ واقعہ بہت بعد کو پڑھنا تھا۔سردار صاحب سے البتہ یہ ضرور عرض کیا کہ کامیاب وہ ہے‘ جس نے رزقِ حلال کھایا‘ زیردستوں پہ مہربانی کی اور دروغ گوئی سے بچا رہا۔
نہیں معلوم سردار صاحب شاد ہوئے یا نہیں۔ ان کے دل میں کھٹکنے والا کانٹا نکل سکا یا نہیں نکلا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے‘ جن کے چہروں پر ان کے جذبات جھلکتے رہتے ہیں۔
شیربازوں کے زمانے چلے گئے ۔اب ہر کہیںایسے چھچھورے سرفراز ہیں‘ ایک ذرا سی ستائش‘ ایک ذرا سی پذیرائی جنہیں پاگل کر دیتی ہے۔
بھاڑے کے ایک ٹٹو نے کل کسی کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ یہ تاثر دیا کہ عمران خان سے وہ فوائد سمیٹتا رہا۔میں نے پوچھا تو اس نے کہا: اس شخص پر خدا کی لعنت ہو‘ سیاستدانوں سے جو مفادات حاصل کرے ۔ اگر وہ منکر حدیث نہ ہوتا تو سرکارؐ کا فرمان اسے میں سناتا کہ: بہترین کمائی‘ آدمی کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ عمر بھر اللہ نے اس شخص کو دریوزہ گری سے محفوظ رکھا ہے‘ بھکاری نے جس کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔
لاہور میں اپوزیشن کا ایک جلسہ پھیکا اور مدتوں بعد نواز شریف کا ایک اجتماع کامیاب ہو گیا۔ نون لیگ کے کارندے اس دن سے ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ اتوار کو چیف جسٹس نے رزق ِ حلال سے بنائے گئے حمزہ شہباز کے محل کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا۔ پیر کو نیب نے ان کے گرامی قدر والد کو طلب کیا اور ایسی جرح کی کہ ان کی ہمت جواب دے گئی۔صفائیاں دیتے اور تاویلات کرتے رہے۔ اس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ ایک کلومیٹر کا پل تو چھ ماہ میں وہ بنا دیتے ہیں‘ چھ سال میں آشیانہ کے گھروندے کیوں نہ بن سکے۔ایک کے بعد دوسری کمپنی کو ٹھیکہ کیوں دیا گیا۔ کیا یہ کمپنی درحقیقت خواجہ سعد رفیق کی نہیں؟ خواجہ ہارون کی گواہی ابھی باقی ہے‘ نیب کو جو بتا سکتے ہیں: میں نے آٹھ لاکھ روپے میں بنوا دینے کا بندوبست کیا تھا۔ شہباز شریف گیارہ لاکھ پہ مصر رہے‘ چنانچہ سرکاری گاڑی کی چابی میں نے ان کی میز پہ رکھی اور کبھی واپس نہ جانے کے لئے لوٹ آیا۔ رہے نواز شریف تو کوئی دن میں وہ جیل میں ہوں گے یا قطر کے شہری۔
اس دنیا میں کوئی کامیابی‘ کامیابی ہے اور نہ کوئی ناکامی‘ ناکامیابی۔ مگر یہ بات انہیں کیسے سمجھائی جائے‘ اللہ کو نہیں جو بندوں کو رزاق سمجھتے ہیں۔