منتخب کردہ کالم

کیا اسے اتحاد کہتے ہیں…ارشا د عارف

قوم کسی بھی ایشو پر متحد ہو، خوشی کی بات ہے۔ پونے دو سال قبل دسمبر میں آئی پی ایس کا دردناک سانحہ قومی قیادت کے باہم مل بیٹھنے کا بہانہ بنا۔ نیشنل ایکشن پلان نے اس آل پارٹیز کانفرنس کی کوکھ سے جنم لیا اور عمران خان کا دھرنا اختتام کو پہنچا۔ اب بھی سیاسی و مذہبی قیادت کے جذبہ حب الوطنی یا ذاتی و سیاسی اغراض پرقومی مفاد کو ترجیح دینے کی خواہش نہیں، کشمیری عوام کی جدوجہد، برہان مظفر وانی کی شہادت اور بھارت کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کے خوف نے آل پارٹیز کانفرنس کی راہ ہموار کی مگر حکومت اس میں بھی مینگنیاں ڈالنے سے باز نہ آئی۔ یہ ثابت کرکے رہی کہ وہ سیاسی پختگی اور بے غرضی کی منزل سے ابھی دور ہے: ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
اعلان ہوا کہ پیر کے روز پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس ہوگی۔ جب تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی کو بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تو اسے آل پارٹیز کانفرنس میں بدل دیا گیا۔ لاہور کے صحافیوںکو یہ اطلاع سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے ذریعے ملی جو کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے مہمان تھے۔ دوران گفتگو انہوں نے بلاول بھٹو کی شرکت کی تصدیق کی جو اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ہیں نہ قومی اسمبلی کے رکن۔ میاں صاحب نے بیرون ملک مقیم آصف علی زرداری کو فون پر دعوت دی مگر عمران خان، چودھری شجاعت حسین اور اپنے سیاسی مخالفین میں سے کسی کے ساتھ یہ مروت نہ برتی۔ شیخ رشید احمد کو کانفرنس میں نہ بلایا گیا جبکہ دو روز قبل چادر اٹھا کر ہندوستان یا افغانستان چلے جانے کی دھمکی دینے والے محمود خان اچکزئی اور آپریشن ضرب عضب کو دہشت گردوں کے بجائے قبائلیوں کے خلاف جنگ قرار دینے والے مولانا فضل الرحمن شریک محفل تھے۔ ان دونوں کی شرکت پرکسی کو اعتراض نہیں،تعجب اس امتیازی انداز فکر پر ہے جو حکومت نے قومی اتحاد ویگانگت کی کاوش کے ضمن میںروا رکھا۔ یہ بھی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس کی قیادت کو قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بھی بڑے اور دلدوز قومی سانحات کا انتظار رہتا ہے۔ جب تک پشاور جیسا کوئی سانحہ پیش نہ آئے یہ قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ کہ حکمران اس موقع پر بھی ذاتی و سیاسی حساب برابر کرنے سے باز نہیں آتے۔ شیخ رشید کی شرکت سے حکومت فائدے میں رہتی کہ موصوف سارا دن ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر لتّے نہ لے پاتے اور کانفرنس ہال میں بھی ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ہوتی۔
بلاشبہ شیخ رشید احمد، شریف خاندان کے حوالے سے تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ بسا اوقات تہذیب و شائستگی کی حدود کو پارکر جاتے ہیں۔ یہی زبان جب وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا کرتے، تو میاں صاحب خوش مگر ان کے سنجیدہ مداح بے مزہ ہوتے۔ اب بھی مگر شیخ رشید کو نہ بلانے کا سبب ان کی زبان نہیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن میں آصف علی زرداری کے برخوردار بلاول بھٹو زرداری نے میاں صاحب کو مودی کا یار قراردیا جو شیخ رشید نے کبھی نہیں کہا، دیگر کئی القابات بھی وہ دے چکے ہیں مگر ان کے بارے میں میاں صاحب نے فراخدلی دکھائی، وہ یہی فراخدلی عمران خان اور شیخ رشید کے باب میں بھی دکھا اور قومی اتحاد و اتفاق کا تاثر نمایاں کرنے کے لیے اپنے بدترین سیاسی مخالفین کو گلے لگا کر اخلاقی برتری کا نقش جما سکتے تھے۔ اس فروگزاشت کے باوجود کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد اور متفقہ اعلامیہ خوش آئند ہے، اللہ کرے کہ یہی اتفاق رائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی نظر آئے اور وہاں مودی یا اشرف غنی کا کوئی یار اٹھ کر بھارت سے برسرجنگ پاکستان کے اداروں کے خلاف اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع نہ کردے، کیونکہ بھارت کے زخموں پر مرہم پٹی بھی ایسے لوگوں کے فرائض میں شامل ہے۔
بھارت جارحیت پر تُلا ہے، پاکستان کے خلاف اس کا بغض و عناد آخری حدوں کو چُھو رہا ہے۔ امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے بعد بھارت اپنے آپ کو خطے کی سپرپاور سمجھنے لگا ہے اور نریندر مودی کا اُوچھا پن ساری دنیا کو نظر آ رہا ہے۔ اُڑی واقعہ کی طرح بارہمولا کا ڈرامہ عین اس وقت رچایا گیا جب کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے ہیں، سرحدی خلاف ورزی کے واقعات جاری ہیں اور حقیقی جنگ کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مصدقہ معلومات کے مطابق اگلے چند دنوں میں بھارت اپنے شہروں میں اُڑی جیسے واقعات کراسکتا ہے۔ بارہمولا کا ڈرامہ چند گھنٹوں میں اس لیے فلاپ ہو گیا کہ فائرنگ کرنے والا کوئی شخص بھارتی فورسز کے ہاتھ آیا نہ بھارتی میڈیا کے سوا کسی نے اس پر توجہ دی ، پھر بھی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا جاری ہے۔ چین کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف بھارتی قرارداد پر ویٹو کی وجہ سے اس تنگ نظر ریاست کو جو شرمندگی اٹھانی پڑی یہ اس پر پردہ ڈالنے کی کاوش ہے اور پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی حکمت عملی کا حصہ بھی۔ مگر ہم بھارت کی ان کمزوریوں اور جارحانہ عزائم سے سفارتی فائدہ اٹھانے کے بجائے ابھی تک اتفاق رائے حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کا حاصل ایک قرارداد ہے۔ اس قرارداد پر عملدرآمد کون کرے گا؟ نیشنل ایکشن پلان سیاسی ، مذہبی اور عسکری قیادت کا منظور کردہ تھا جس کی کئی شقیں تاحال محتاج عملدرآمد ہیں، یہ تو صرف ایک قرارداد ہے۔ بھارت کے عزائم واضح ہیں، وہ پاکستان کو صحرا میں بدلنے اور دنیا بھرمیں تنہا کرنے کے درپے ہے۔ وہ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکی دے ہی نہیں رہا، اس کا دعویٰ بھی کر چکا ہے۔ پاکستان میںاس کے تربیت یافتہ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں، مودی 1971ء میں مکتی باہنی کی تشکیل کا اعتراف کر چکا ہے اور اب بھی فاٹا، کراچی اور بلوچستان میںایسی ہی مکتی باہنی سرگرم عمل ہے۔لیکن پاکستان میں یہ بحث جاری ہے کہ بھارت میںاُڑی جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے نان سٹیٹ ایکٹرز پر قابو پایا جائے۔
یہ مذاق صرف پاکستان میں ممکن ہے کہ دہشت گردی کا شکار ایک ملک ہندوستان اور افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنائے۔ بھارت کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر شرمندہ نہیں، ‘را‘ کے تربیتی کیمپوں پر نادم نہیں، سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کر رہا ہے مگر ہم جنرل اسمبلی کے سامنے بلوچستان اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا ذکر کرتے شرماتے اور پاکستان میں بھارتی شردھالوئوں کو سر پر بٹھاتے ہیں جو قوم کے حوصلے پست اور قومی اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کانفرنس میں پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز منظور ہوئی جو صائب ہے لیکن بھارتی عزائم کا مقابلہ اور قومی اتفاق رائے برقرار رکھنے کے لیے نیشنل وار کیبنٹ کی تشکیل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور بھارت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرے۔ اپوزیشن اختلافات بھلا کر کانفرنس میں شریک ہوئی، حکومت بھی ذاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اسے مطمئن کرے۔ پاناما لیکس کا معاملہ قومی اتفاق رائے کے راستے کا پتھر ہے اور محاذ آرائی برقرار رکھنے میں مددگار ۔ لہٰذا مزید کسی تاخیر کے بغیر حکومت یہ معاملہ طے کرے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے بہت نقصان ہو چکا، مزید کی گنجائش نہیں۔ یہ محض تحریک انصاف یا اپوزیشن کا ایشو نہیں۔ قوم کرپشن کا ہر سطح پر خاتمہ اور بالادست طبقوں کا احتساب چاہتی ہے۔ اس قومی خواہش کا احترام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ محض بیانات اور یقین دہانیوں سے بات بنتی ہے نہ بھارت کو قومی اتحاد و یگانگت کا پیغام ملتا ہے۔ میاں نواز شریف ثابت کریں کہ آل پارٹیز کانفرنس، نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس محض وقت گزاری کا ذریعہ ہے نہ نشستند، گفتند و برخاستند کی غیر ضروری مشق۔ یہ حکومت کی نہیں ریاست کی کامیابی ہے جسے حکمران اپنی کامیابی نہ سمجھیں۔ یہ ملک ہے تو اقتدار اور عیش و عشرت بھی ہے ورنہ کچھ نہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی اس تنبیہ کو حکومت بھی سنجیدگی سے لے کہ ”اگر قومی اتفاق رائے برقرار نہ رہا تو سی پیک منصوبہ کو چین پیک کرسکتا ہے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہی