منتخب کردہ کالم

کیسی سیاست کیسے سیاستدان؟ …امیر حمزہ

کیسی سیاست کیسے سیاستدان؟ …امیر حمزہ

پھول… گلاب کا ہو یا چنبے کی سفید کلی کا جب اس کی بند پنکھڑیاں کھِلتی ہیں تو باغیچے کے حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دیکھنے والے کی آنکھوں کو تراوت بخشتا ہے۔ خوشبودار فضا دماغ کو سکون پہنچاتی ہے۔ گُلزار کے گُل کی یہی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا اک مقولہ بن گیا۔ ضرب المثل بن گئی کہ جب کوئی اپنے گندے کردار سے معاشرتی فضا میں بدبو پھیلاتا ہے تو اسے ندامت اور شرمندگی دلانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ”کیا گُل کھِلائے ہیں تو نے؟‘‘ آج کل ہمارے سیاسی ماحول میں بھی خوب ایسے ہی گُل کھِلائے جا رہے ہیں۔ کسی نے ایسے گُل کو راولپنڈی کے ”نالہ لئی‘‘ سے بھی مشابہت دی ہے جس طرح نالہ لئی میں پنڈی کے سیوریج سسٹم کا پانی چلتا ہے کچھ ایسا ہی آج کل سیاست کے نالہ لئی میں گُل کھِلائے جا رہے ہیں۔ ایسے کردار کے حاملین کے لئے امام محمد بن اسماعیل بخاری اور امام مسلم نیشاپوری اپنی اپنی کتابوں میں ایک حدیث لائے ہیں۔ ”حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری ساری امت کے ہر شخص کو گناہوں سے معافی ملے گی‘ معافی نہیں ملے گی تو ایسے شخص کو نہیں ملے گی جو اپنے گناہوں کا علانیہ اظہار کرتا ہے‘‘۔ میڈیا پر نشر کرتا ہے‘ اشاعت اور نشر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ” ایک شخص رات کے وقت گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا ہوا تھا مگر وہ صبح کے وقت لوگوں کو بتلاتا پھرتا ہے۔ اعلان کر کر کے کہتا ہے اے فلاں! میں نے گزشتہ رات ایسا ایسا کام کیا۔ اس نے اپنے اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو کھول دیا۔‘‘ (بخاری6069، مسلم 7485)
قارئین کرام! امام زھیر رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں ”اِجْھَار‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا معنی اعلان کرنا ہے۔ اسی طرح ”اَلْْھِجَار‘‘بھی پڑھا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسی حرکت‘ انتہائی بے شرمی اور بے حیائی کی حرکت ہے۔ اسی طرح امام بخاری مذکورہ حدیث کو ”کتاب الادب‘‘ میں لائے ہیں۔ یعنی امام بخاری بتلانا چاہتے ہیں کہ ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ ادب و احترام کی اعلیٰ اقدار و روایات سے ناآشنا ہیں جبکہ صحیح مسلم میں مذکورہ حدیث ”کتاب الزّھد والرّقَائق‘‘ میں ہے۔ زُھد کا مطلب دنیا کی آلودگیوں سے بچنے کی کوشش ہے اور ”رقیق‘‘ کا مطلب دل کی نرمی ہے یعنی جن کے دل اللہ کے ڈر سے نرم ہوں۔ انسانیت کی ہمدردی میں نرم ہوں وہ ایسی حرکتیں نہیں کیا کرتے۔ وہ بے شرمی اور بے حیائی کے گُل نہیں کھلایا کرتے۔ افسوس اور دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل سیاست کے نالہ لئی کے ساتھ ساتھ چلنے والا ایک بازار بہت رش لے رہا ہے۔ اس بازار کو بعض خواتین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی 1977ء میں ہوا تھا۔ ایک طرف پیپلزپارٹی تھی اور دوسری جانب قومی اتحاد کی جماعتیں۔ 9جماعتوں میں سے ایک جماعت جو اپنے آپ کو مسلم لیگ کے نام سے موسوم کرتی تھی۔ اس نے ”سیاست‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ اس اخبار کی شہ سرخیاں اور سپرلیڈیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے نسب پر حملہ تھا اور ایسے ایسے رکیک حملے کہ مرحوم شاہنواز بھٹو جو قبر میں پڑے تھے ان کو بھی نہ چھوڑا گیا مگر آفرین ہے ذوالفقار علی بھٹو کی عظمت پر کہ وہ خود تو دور کی بات ان کے پارٹی کارکنوں نے بھی ایسی واہیات باتوں کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے سخت افسوس ہوا آج جب ایک خاتون نے عمران خان پر الزامات لگائے تو پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لوگ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے اور شاہد خاقان عباسی ایسے وزیراعظم کے اقدام سے اور افسوس ہوا کہ انہوں نے تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا اور سپیکر ایاز صادق نے اخلاقیات کے نام سے کمیٹی بنا ڈالی۔ اس کے ارکان کی تعداد 20عدد ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کے قد کاٹھ کتنے بڑے ہیں لیکن سوچیں کس قدر ناپختہ ہیں کہ نہ یہ شریعت جانتے ہیں، نہ قانون سے آگاہ ہیں اور نہ معاشرے کی پاکیزہ اقدار و روایات سے کوئی نسبت رکھتے ہیں۔ شریعت کو سامنے رکھیں تو ایک خاتون نے الزام لگایا ہے، وہ چار گواہ لائے تو بچ جائے گی ورنہ 80کوڑے کھائے گی۔ اسی طرح جو الزام لگاتا ہے یا کسی چیز کا دعویٰ دائر کرتا ہے‘ دلیل لانا اس کے ذمے ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے یہی فرمایا ہے کہ دلیل دینا مدعی کے ذمے ہے۔ پاکستان کے قانون کو دیکھیں تو اس میں بھی یہی بات ہے مگر الزام بی بی نے جو گُل کھلائے وہ پریس کانفرنس میں اعلان کرکر کے کھلائے۔ حالانکہ انہیں عدالت میں جانا چاہئے تھا مگر آہ! اب سیاستدان عدالتوں کی بجائے پریس کانفرنسز کیا کریں گے۔ دوسروں کی عزت اور اپنی عزت کی خاک سرعام اڑایا کریں گے۔ احتجاج کیا کریں گے، غلاظت کی بدبو صرف پاکستان نہیں پوری دنیامیں پھیلایا کریں گے۔
میں کہتا ہوں ہمارے حضور حضرت محمد کریمﷺ کی حدیث ہی سے تو مشرقی روایت بنی ہے کہ لوگ اپنی عزت کے خلاف درست بات کو بھی چھپا جایا کرتے تھے۔ ایک صحافی بولا، بی بی! میسج 2013ء میں ملا اور آپ ابھی ایک دن پہلے خان صاحب سے بنی گالہ میں اپنی خراب سیاسی کارکردگی پر جھڑکیاں کھا رہی تھیں اور آج پریس کانفرنس کر رہی ہیں۔ کہنے لگیں باپ نے روکا تھا کہ ابھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی کام کرتی رہو۔ محترم ہارون الرشید صاحب نے فرمایا کہ 2013ء میں جن دنوں کی بات مذکورہ خاتون کرتی ہیں ان دنوں تو عمران خان صاحب شوکت خانم ہسپتال میں کنٹینر پر سے گرنے کی وجہ سے زخمی پڑے تھے۔ ویسے بھی عمار چودھری نے جرائم زدہ سافٹ ویئر کی جو بات کی ہے اس سے کچھ بھی جعلی بنایا جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال اور ایسی رام کہانی پر محض سیاسی مخالفت میں اخلاقی کمیٹی کیا سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نہیں ہے؟
افسوس کی بات ہے کہ اب یہ ریت چل پڑی ہے۔ حمزہ شہباز کے حوالے سے‘ تحریک انصاف کی لیڈر خواتین نے ایک خاتون کو اپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کر ڈالی۔ پھر ایک دو اور خواتین سامنے آ گئیں یعنی نالہ لئی کے کنارے کنارے گُل کھلانے کا بازار رش لئے جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ناپاک اور گندہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ پریس کانفرنسوں کے ذریعے گند اچھالنے کا سلسلہ کوئی مرد کرے یا عورت اس کی سرزنش ہونی چاہئے۔ اگر اخلاقی کمیٹی ایسا کردارادا کرتی ہے تو خوب وگرنہ سیاسی الزام تراشی سے کوئی نہ بچ پائے گا اور سیاست کا ایسا بازار آخرکار کسی کے ہاتھوں منہدم ہو جائے گا۔ آخر پر ایک حدیث بیان کر کے اجازت چاہوں گا:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، قیامت کے دن تم لوگوں میں سے ایک شخص اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا بازو پھیلا کر فرمائیں گے، تم نے فلاں فلاں برے کام کئے تھے، وہ کہے گا، جی ہاں! اللہ تعالیٰ پھر پوچھیں گے تو نے یہ اور یہ برے کام بھی کئے تھے۔ وہ اقرار کر کے جی ہاں کہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے فرمائیں گے، میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا اور آج میں وہ تیرے سارے گناہ معاف کرتا ہوں۔ (بخاری 6070) اللہ کے رسولﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کو جو شخص کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دے گا اور جوکسی کو رسوا کرنے کے لئے عیب ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا۔ میں آخر میں سیاستدانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے بہتان باندھنے اور الزام تراشی کی سیاست بازی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ آپ رہبر بنیں۔ اپنی رہبری کے مقام کا خیال رکھیں۔ صادق و امین کی 62اور 63کی شقوں نے پہلے ہی آپ کے مقام کو شق کر دیا ہے۔ اخلاقیات کی باقی قدروں کوبھی آپ لوگوں نے خود ہی تار تار کر کے رکھ دیا تو پھر سیاست کہاں کی اور سیاستدان کہاں کا؟
..

اگلا کالم