منتخب کردہ کالم

گم شدہ موسم کی تلاش….مظہر برلاس

مشہوری...مظہر برلاس

گم شدہ موسم کی تلاش….مظہر برلاس

کیا زمانہ تھا، موسم صاف ستھرا تھا، سانس لینے میں دشواریاں نہیں تھیں، درخت بہت ہوتے تھے، شہرباغوں کے حصار میں ہوا کرتے تھے، شہروں کے درمیان بھی درختوں کی قطاریں ہوتی تھیں، آبادیوں میں بھی باغات ہوتے تھے، نہ ٹریفک کا دھواں تھا نہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والی فیکٹریاں تھیں، اس زمانے میں کوئلے سے کمیشن بنانے والے پراجیکٹ بھی نہیں لگتے تھے، لوگ ہمارے شہروں کی مثال دیا کرتے تھے، ہمارے دیہاتوں میں ہر طرف لہلہاتی فصلیں ہوا کرتی تھیں، زندگی میں سکون تھا، اس عہد کے لوگوں کی جھولیاں لالچ سے خالی تھیں، ان کے دلوں میں پیسے کا پیار نہیں تھا، انہیں انسانوں سے پیار تھا، اسی لئے اس دور میں فصلوں میں زہر نہیں پھیلا تھا، ہر موسم میں نیلا آسمان صاف دکھائی دیتا تھا، لوگ دہشت کے خوف میں مبتلا نہیں تھے، گرم موسم کی راتوں کو صحنوں میں اور چھتوں پر بے خوف سو جاتے تھے، راتوں کو تارے گنتے تھے، تارے تو تارے رہے ’’کھتیاں‘‘ بھی صاف نظر آتی تھیں، لوگ ملاوٹ سے پاک خوراک کھاتے تھے، اتنی گندی فضا نہیں تھی جتنی نام نہاد ترقی کے نام پر ہوگئی ہے۔
اب کیا زمانہ ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ملاوٹ کے بغیر خوراک نہیں ملتی، زہر دودھ اور اناج کا حصہ بن گیا ہے، لوگ پیسے کی دوڑجیتنا چاہتے ہیں، اس دوڑ میں شریک لوگ ، انسانوں کے ساتھ ہر طرح کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ شہروں کے باہر جو باغات تھے انہیں ہائوسنگ سوسائٹیاں کھا گئیں، جو سڑکوں پر درخت تھے وہ سیمنٹ کے پلر بن گئے، وہاں اب درخت نہیں ہیں وہ جو شہروں کے اندر باغات تھے انہیں قبضہ گروپ ہڑپ کرگئے،ٹریفک کا شورالگ، دھواں الگ، زہر چھوڑتی ہوئی فیکٹریوں کا دھواں، شہروں کے آسمان کی ’’زینت‘‘ بن گیا، رہے سہے درختوں کے پتوں پر مٹی کی تہیں جم گئیں، سانس لینا محال ہوگیا،گائوں کی فصلوں کو کوئلہ کے پراجیکٹ چاٹ گئے، اب ایک بنجرزمیںپر آلودگی کا راج ہے، اب لوگ خوف زدہ ہیں اس خوف میں وہ صحنوں میں یا چھتوں پر سونے کا سوچ بھی نہیں سکتے، سوئیں تو تارے نظر نہیں آتے، دن کو سورج دکھائی نہیں دیتا، رات کو چاند نظر نہیں آتا، ورنہ لوگ پانیوں میں چاند کا عکس دیکھا کرتے تھے مگر اب کیا سورج، کیا چاند، کوئی تارا نظر نہیں آتا، سارے منظر اسموگ کی مٹھی میں بند ہوگئے، کوئی جگنو، کوئی تتلی نظر نہیں آتی، سارے جلوے مٹا دیئے دھند نے، آلودگی ، رنگوں، پھولوں، خوشبوئوں کو کھا گئی، نیلے آسمان کو دیکھے عرصہ بیت گیا، جب آسمان دکھائی نہیں دیتا تو قوس و قزح کیسے نظر آئے گی۔ حیرت ہے پورے ملک میں سب سے زیادہ سرمایہ لاہور پر خرچ ہوا، پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصہ لاہور کی نذر ہوگیا مگر سچ یہ ہے کہ آج لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے، دہلی دوسرے نمبر پر سہی مگر وہاں آلودگی لاہوری آلودگی کے نصف سے بھی کم ہے، آج کا لاہور ہی نہیں پورا پنجاب آلودہ ہے، امرتسر میں لاہور سے دس درجے کم آلودگی ہے، واضح رہے کہ زمین پر سرحدیں ہیں آسمان پر بارڈر نہیں، امرتسر وہ شہر ہے جو لاہور سے قریب ترین ہے، دہلی میں سانس لو تو 34سگریٹوں کا دھواں رکھنے والی آلودگی لبوں کو چھوتی ہے جبکہ لاہور میں سانس لیں تو آلودگی کی شرح ایک سو سگریٹوں سے آگے نکل جاتی ہے۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق آپ لاہور میں گاڑی سے ایک سکینڈ کےلئے ہاتھ نکالیں تو آپ کا ہاتھ آلودہ ہو جائے گا، اس فضائی آلودگی میںبیماریاں پھیل رہی ہیں، یہاں کے لوگوں کے لئے لندن کے اسپتال بھی نہیں، یہاں تو بعض اوقات ٹھنڈے فرش پر جان دینا پڑتی ہے، جعلی دوائیوں کی بھرمار ہے، پنجاب میں پرانے جنگلات ختم کردیئے گئے، نئے درخت لگانے کا کسی نے سوچا نہیں، چھانگا مانگا،کندیاں، راجن پور اور لیہ کے علاوہ جو جنگلات تھے وہ لاپتہ ہوگئے، دنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں پچیس فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں، ہمارے ہاں تو یہ کیفیت پانچ فیصد رقبے پر بھی نہیں۔ اب جب لوگوں کی زندگیوں میں فضائوں سے اترنے والے زہرنےبیماریاں بانٹناشروع کیں تو حکمران چپ رہے پھر انصاف کے اداروں کو ترس آیا، لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی سیکرٹریوں کی سرزنش کی کہ وہ سارا سال کہاں سوئے رہے، انہیں لوگوں کی زندگیوں کا کوئی احساس نہیں، ممکن ہے ہماری عدلیہ کو معلوم نہ ہو کہ پیسے بنانے والی مشینوں کو انسانی زندگیوں کا احساس نہیں ہوتا، انہیں فضائی آلودگی بھی نظر نہیں آتی۔
خواتین و حضرات! میں بھی اکثر پاکستانیوں کی طرح یہ سوچتا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کو کیوں یہ خیال نہیں آتا کہ آلودگی زہر ہے، ہمارے اہل سیاست اداروں پر تنقید بڑے شوق سے کرتے ہیں مگر لوگوں کی زندگیوں کا کیوں نہیںسوچتے؟ ابھی اسموگ اور دھند کے باعث سڑکیں بند ہورہی تھیں کہ مجھے ایک روز سیدعلی کا فون آیا، انہوں نے ایک تقریب میں مدعو کیا، سید ممتاز شاہ کے فرزند سید علی میڈیا مینجمنٹ کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں، میں مقررہ تاریخ کو فنکشن میں چلا گیا، مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب فیصل جاوید خان نے ہال میں داخل ہوتے ہی مجھے سے کہا کہ ….’’ یہ پی ٹی آئی کا منظم فنکشن ہے، آج آ پ کو نظم و ضبط نظر آئے گا….‘‘ خیر سبزے اور ہریالی کی باتیں شروع ہوئیں، خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنگلات سید نذر شاہ نے ایک ارب درخت لگانے کی پوری داستان بیان کی مگر پرویز خٹک کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں کہنے لگے …..’’ جب میرے لیڈر عمران خان نے ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا تو میں خود سکتے میں آگیا کہ یہ کام کیسے ہوگا، میرے سامنے تین چیلنج تھے، پہلا یہ کہ ٹمبر مافیا کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا کیونکہ ٹمبر مافیا کے پیچھے تمام کرپٹ سیاستدان ہیں، دوسرا یہ کہ اتنے درخت کہاں سے آئیں گے اور تیسرا اور اہم چیلنج یہ تھا کہ عمران خان جو اعلان کرتا ہے اس کا حساب بھی مانگتا ہے، اس سخت گیر آدمی کو کیسے حساب دوں گا، ہمارے پاس تو جتنی نرسریاں تھیں وہاں ساٹھ ستر لاکھ سے زیادہ پودے نہیں تھے، خیر پھر کام شروع کیا، سب چیلنجوں کو مات دی، آج میں خوش ہوں کیونکہ کا میاب ہوں…..‘‘ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے جنگلات کے مشیر کو مکمل وزیر بھی بنا دیا اور تمام گارڈز کی پروموشن بھی کردی، اس سے پہلے ملک امین اسلم نے بتایا کہ ……’’ پاکستان کا شمار دنیا کے دس پہلے ایسے ممالک میں ہونے لگا تھا جہاں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سنگینی کو چھونے لگے، ہمارے ہاں بارشیں کم ہونا شروع ہوگئی تھیں،کسی کو احساس نہ تھا پھر ہمارے لیڈر عمران خان کو احسا س ہوا، کیونکہ لیڈر ہمیشہ نسلوں کی سوچتا ہے، اسے الیکشنوں سے زیادہ نسلوں کی فکر ہوتی ہے،آج خیبر پختونخوا کی وجہ سے پاکستان دنیا کا پہلا ایسا ملک ہے جہاں ایک ارب درخت لگا کر ساڑھے تین لاکھ ہیکٹر بنجر زمین کو ہریالی کا لباس پہنایا گیا، اب شجر کاری کا یہ رقبہ چھ لاکھ ہیکٹر ہو چکا ہے، اس تاریخی عمل کی وجہ سے پانچ لاکھ افراد کو روز گار ملا۔‘‘تقریب کے آخر میں عمران خان نے بتایا کہ ’’ میں نے ایک ارب درخت لگانے کا کہا تھا مگر انہوں نے کمال کردیا، انہوں نے ایک ارب اور اٹھارہ کروڑ درخت لگا دیئے۔ میں خیبر پختونخوا میں چار نئے ہل اسٹیشن بھی متعارف کروا رہا ہوں کیونکہ انگریزوں کے بعد یہاں کوئی نیا ہل اسٹیشن متعارف نہیں کروایا گیا، ہم ہر سال چار نئے سیاحتی مقام متعارف کروایا کرینگے،ہر سال درخت اگائیں گے ہم اپنے پیارے پاکستان کو سرسبز و شاداب بنا دیںگے، خیبرپختونخوا کے ایک ضلع چترال میں ہم ایک اور کام کر رہے ہیں، وہاں ہم نے پلاسٹک بیگ پر پابندی لگا کر لوگوں میں ایسے بیگ تقسیم کرنے شروع کئے ہیں جن سے آلودگی نہ پھیلے۔‘‘
ہم سے موسم روٹھ گیا تھا، ہم خوبصورت موسم گنوا بیٹھے تھے مگر عمران خان کو داد دینی چاہیے کہ اس نے گم شدہ موسم کو ڈھونڈ لیا ہے بقول نذیر یادؔ:۔
سانس لینے لگے گی بنجر زمیں
دنیا کہہ اٹھی ہو تم پر آفریں