منتخب کردہ کالم

ہراسگی۔۔۔۔۔۔!علی معین نوازش

ہراسگی۔۔۔۔۔۔!

ہراسگی۔۔۔۔۔۔!علی معین نوازش

باباا سکرپٹ آج سیاست پر بات کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے تھے، نہ وہ میری کسی سیاسی گگلی پر شا رٹ کھیلنے پر آمادہ نظر آتے تھے ۔وہ تو بار بار جنسی ہراسگی کو موضوع بحث بنا رہے تھے، کہنے لگے کہ میں ایک بھارتی فلم دیکھ رہا تھا۔ بڑی رومانٹک فلم تھی اور جو صاحب اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھے اس فلم میں ان کی بیٹی ہیروئن کا کردارادا کررہی تھی گویا وہ ڈائریکٹر صاحب رومانٹک سین کی عکس بندی کے لیے ہیرو اور ہیروئن کو سمجھاتے ہوںگے کہ کس طرح ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔ گانے کے دوران کس طرح اچھل کود کرنی ہے اور کس کس موقع پر بغلگیر ہونا ہے۔ میں نے بابا اسکرپٹ کو ٹوکتے ہوئے کہاکہ جناب مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ آپ جب سے آئے ہیںاس موضوع اور اس فلم کو کیوں زیر بحث لارہے ہیں۔ وہ پروفیشنل لوگ ہیں فلم رومانٹک ہویا ایکشن ،ڈائریکٹر کو تو ہیرو ہیرو ئن کو سین کی ڈیمانڈ کے مطابق گائیڈ کرنا ہی ہوگا۔اگر اس نے ہیرو کو فلم میں پٹوانا ہے تو وہ ڈیمانڈ کے مطابق اس کی پٹائی کروائے گا۔ اوراگر ہیروئن کے ساتھ عشقیہ ڈائیلاگ ہیں تووہ ڈائیلاگ کے مطابق موومنٹ کرنے کو بھی کہے گا۔ اس میں آپ کو کیا پریشانی لاحق ہے ۔بابا اسکرپٹ گویا ہوتے ہوئے کہنے لگے بھلا ہوآپ کا اگر اب رومانٹک سین کے بعد ہیرویہ الزام لگائے کہ ہیروئن نے رو ما نٹک

xADVERTISEMENT
سین کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا ہے یا ہیروئن یہ احتجاج کرے کہ رومانٹک سین کے دوران ہیرو نے مجھے ہراس کیا ہے، یہ بات مجھے تو ہضم نہیں ہورہی ۔میں نے کہاکہ بابا جی میں نے تو کبھی کسی ہیرو یا ہروئن کو یہ کہتے نہیں سنا کہ فلم کے سین کی عکس بندی کے دوران اسے جنسی طورپر ہراس کیاگیا ہے۔بابا اسکرپٹ جن کا آج بات کرنے کا اندازبالکل مختلف نظرآرہا تھا، کہنے لگے یہی تو میں باورکرانے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ ہیرو یا ہیرو ئن کسی طور پر بھی ایک دوسرے پر جنسی ہراسگی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ ان کے کام کرنے کے لئے معاوضہ لے کر بطور پروفیشنل اداکار کسی بھی سین کو عکس بندی کے بعد یہ الزام نہیں بنتا کہ ان میں سے کوئی ایک جنسی ہراسگی کا نشانہ بنا ہے۔ البتہ فلم بین یہ الزام لگا سکتا ہے کہ فلاں سین دیکھ کر یا فلاں گانا سن کر میں ہراسگی کا شکار ہوا ہوں۔ میں نے کہاکہ اس کے لئے تو فلم سنسر بورڈ بنے ہوئے ہیں وہ کسی بھی فلم کی نمائش سے قبل اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کوئی سین ایسا نہ ہو جو برانیگختہ نوعیت کا ہو بابا جی نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہاکہ فلم سنسر بورڈ کے فلم کو سنسر کرنے کے باوجود ایسے سین ہوتے ہیں جو ہر قسم کی ہراسمنٹ کے لیے کافی ہوتے ہیں۔اسی لیے میں یہ بات کرناچاہتا ہوں کہ شوبز کے لوگ، اداکاری کے دوران یا کسی گانے کے دوران، اپنی حرکات وسکنات سے،اپنے گانے کی شاعری کے ذریعے یاگانے کے دوران اپنے لباس کے ذریعے دوسروں کو ہراس کررہے ہوتے ہیں، وہ کسی دوسرے پر ہراسگی کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں۔بابا جی کی بات میں وزن تو نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود میں بابا اسکرپٹ کی مزید دلیلیں پیش کرنے کی بجا ئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں جس طرح میڈیا میں اور ہر جگہ ہونے والی گفتگو میں جنسی ہراسگی پر بحث کی جا رہی ہے ،وہاں ہمیں کچھ باتوں کا ضرور خیال رکھناچاہیے ایک تو جو کوئی بھی ہو اور خاص طور پر خاتون کسی مرد پر جنسی ہراسگی کا الزام لگائے ہمیں اس پر اسی طرح نہیں چڑھ دوڑنا چاہیے کہ اسی کو ہم تنقید کانشانہ بنا ڈالیں جس کے ساتھ ز یادتی ہوگئی ہے اور نہ ہی ہم اس کو مجرم قرار دینے لگیں جس پر الزام لگایاگیا ہے، بلکہ اس پر قانون کے مطابق تحقیقات کرکے متاثرین کی داد رسی کرناچاہیے۔ اگر ہم باباا سکرپٹ کی منطق مان بھی لیں تواس بات سے انکار نہیں کرناچاہیے کہ اس وقت معاشرے میں جنسی ہراسگی کا مرض بڑھتا جارہا ہے خاص طورپر وہ خواتین جو حالات کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنے اور ملازمت کرنے پرمجبور ہوتی ہیں مرد حضرات ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ہراسگی کا نشانہ نہ بنائیں۔مجھ تک ایسی کئی شکایات بھی پہنچی میں جو نام بتائے بغیر بہت سے لوگوں پر یہ الزام لگایاگیا ہے کہ وہ کس کس طریقے سے خواتین کو ہراسگی کا نشانہ بنارہے ہیں۔بطور معاشرہ ہمیں اس بات کو سنجیدگی سے لیناہوگا اوراسے بحث برائے بحث کی بجائے مرض کو ختم کرنا ہوگا۔