منتخب کردہ کالم

ہمارے حکمران…عبدالقادر حسن

ایک وہ زمانہ تھا کہ ہماری فوج کے سردار جب موج میں آتے تو ملک بھر میں مارشل لا لگا کر پورے ملک میں کسی قسم کے الیکشن وغیرہ کے بغیر اپنی حکومت قائم کر لیتے تھے جس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوا کرتی تھی چنانچہ اپنی اس حکومت کے دوران حکمران اپنی پسند کی حکومت قائم کر کے ملک کو ایک نیا رنگ دے دیا کرتے تھے۔ یہ وہ رنگ ہوا کرتا تھا جو فوجی بڑوں کے ذہنوں میں جگمگاتا تھا اور میرے ملک کو وہ اپنے اس رنگ میں رنگ دیا کرتے تھے۔ اس کی پہلی مثال ایوب خان کی حکومت تھی جو ملک میں ایوب خان کا رنگ بھر گئی۔

اس سے پہلے ہمارے سیاست دانوں کی حکومت اس قدر ناپسندیدہ تھی کہ جب ایوب خان رخصت ہو گیا تو ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ کا نعرہ ہر طرف سنائی اور دکھائی دیا۔ ٹرکوں کے پیچھے یہی نعرہ لکھا ہوا ہوتا تھا جو پورے ملک میں گھومتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت کیسی تھی کہ پاکستانی اسے یاد رکھتے تھے یہ ایک مختلف قسم کی حکومت تھی جو اپنا ہر کام جلد از جلد اور فٹافٹ کیا کرتی تھی۔ ملکی ترقی کے کئی منصوبے شروع کیے گئے اور ایوب خان کی بلند و بالا شخصیت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اگرچہ ان کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان نے قومی اسمبلی میں کہا کہ

ہر شاخ پہ الُو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا

اور یہ مصرع بے حد مشہور ہوا اور درست تھا یا نہیں ایک قومی نعرہ اور محاورہ بن گیا جو برسوں بعد اب بھی استعمال ہوتا ہے اور لوگ محظوظ ہوتے ہیں۔ مقصد ایوب خان کی حکومت کا جائزہ لینا نہیں بلکہ اس پہلے مارشل لا کا ذکر ہے جو بعد میں ایک معمول ہی بن گیا۔ مارشل لا لگانے والے فوجی جرنیل قوم سے خطاب میں اپنی بات کا آغاز ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سے کیا کرتے تھے۔ جو مارشل لا کے نفاذ کا ایک اعلان بن گیا اور لوگ اپنی مجلسوں میں کہا کرتے تھے کہ ’’نہیں‘ تو پھر میرے ہم وطنو ہو جائے گا۔‘‘

ایک ملک جو سرتاپا جمہوری خیال اور نظریات کے پیروکار لوگوں نے بنایا تھا اپنے قیام کے بعد جلد ہی مارشل لا کی قربانگاہ پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کے بعد پاکستان اپنے قیام کے جمہوری مقاصد اور بزرگوں کے دیے ہوئے سراپا سے محروم ہو گیا اور اب بھی جب کبھی حالات بہتر ہوتے ہیں تو وہ خطرہ سامنے آ جاتا ہے جس کا اظہار ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ میں قوم نے کیا تھا۔

پاکستان کے حکمران خصوصاً فوجی حکمران پاکستان کے بنیادی نظریات سے دور ہوتے گئے لیکن قوم نے ان نظریات کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اب بھی جب کبھی حکومت کمزور پڑتی ہے تو کسی مارشل لا کا خطرہ سامنے آ جاتا ہے لیکن جب خیریت باقی رہتی ہے تو قوم اپنے فوجی سپہ سالاروں کی شکرگزار ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں ملک کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی سامنے آئی ہے اور فوج کے اعلیٰ درجے کے لوگ ناقابل یقین ’’سزاؤں‘‘ کے مرتکب قرار دیے گئے ہیں گویا پہلی بار پاکستان کے حکمرانوں کو سزا ملنی شروع ہوئی اور حکمران بھی وہ جو اب بھی اتنی طاقت رکھتے تھے کہ ان سزاؤں اور رسوائیوں سے بچ جاتے مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خاموشی ہی بہتر سمجھی گئی اور ملک غیرمارشل لائی حکومت میں چلتا رہا۔

کسی بھی حکومت میں جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمے داری ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو بااختیار اور بااقتدار ہوتے ہیں لیکن یہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ ان کا نام لینا تو کجا ان کی طرف اشارہ بھی کر سکے چنانچہ اسی طرح کی حالت چلتی رہتی ہے اور عوام اسے بھگتا کرتے ہیں لیکن اللہ ہی جانے اب کیا ہوا ہے کہ جن لوگوں کی طرف اشارہ کرنا بھی ممکن نہ تھا وہ اب کچہری میں لائے گئے ہیں جہاں سے وہ سزا پا گئے ہیں اور بڑی ہی سخت سزا جس میں کہا گیا ہے کہ لوٹی ہوئی رقم بھی واپس کر دیں۔

یہ ایک طرح کا ظلم ہے جو بڑی عدالتیں مہربانی کرتیں تو اسے ختم کر دیا جاتا مگر چلیے بڑے بلکہ بہت بڑے لوگوں کو یہ سزا اپنی قوم کو ایک نئی زندگی دینے کے برابر ہے۔ یہ غیریقینی خبر قوم نے سن لی لیکن جب اس پر عملدرآمد ہوتے دیکھا تو پوری پاکستانی قوم ہکا بکا رہ گئی کہ کیا کبھی ایسا بھی ممکن ہے لیکن یہ ممکن قوم کے سامنے آ گیا اور توقع ہے کہ ہمارے بڑے اب کرپشن میں قدرے محتاط رہ جائیں گے۔ اگر کریں گے تو بہت ہی بچ بچا کر مگر سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس قدر احتیاط اور بچ بچاؤ کرنے سے تو بہتر ہے کہ یہ کام نہ ہی کیا جائے اور اندازہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو سچ مچ توبہ تائب ہوجائیں گے یا پھر بھی اس قومی گناہ سے باز نہیں آئیں گے۔

ایسے لوگ اگر ختم نہ بھی ہو جائیں تب بھی ان کے خلاف قانون سرگرم رہے اور ان بڑوں کو معافی نہ دے۔ اگر کوئی صرف ایک وقت کی روٹی کے لیے کچھ کر لیتا ہے ہماری تاریخ کے ایک بہت بڑے حقیقت پسند حضرت عمرؓ قحط کے زمانے میں کئی قوانین معطل کر دیتے تھے۔ وہ خود اپنے قحط زدہ عوام کے لیے کیا کرتے تھے اس کا ذکر کر کے میں آپ کو پریشان نہیں کر سکتا کہ جو شخص اپنے بیٹے کے منہ سے خربوزے کی پھانک چھین سکتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے کہ کیا دوسرے بچے بھی خربوزہ کھا رہے ہیں اور بتاؤ کہ یہ تمہیں کہاں سے ملا، یہ تو ہمارے وہ حکمران تھے جو ہمارے اوپر جیسے حکومت کرنے کی سزا لے کر آئے تھے اور جن کی زندگی اسی سزا کو کاٹتے کاٹتے گزر گئی۔ ہمارے ان حکمرانوں کی وجہ سے ان کی اپنی اولاد اور اہل خانہ پر کیا گزر گئی اس کی باتیں سن کر دل جلتا ہے اور انسان اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے۔ بہرکیف آپ اپنے حکمرانوں کے لیے ہدایت کی دعا کیجیے۔