منتخب کردہ کالم

ہمارے والیان ریاست کی واپسی

یہ تو شاید آپ کو بھی یاد نہ ہو اور مجھے تو بالکل یاد نہیں کہ ہمارے کتنے ارب پتی والیان ریاست نے عید کی برکات بیرون ملک لندن وغیرہ میں حاصل کیں اور اپنی قوم کو محروم رکھا یہ سب پاکستان کے حکمران نہیں، اس فقیر ملک اور اسلامی ریاست کے مالکان اور والیان تھے جن میں سے کوئی گورنر کوئی وزیراعلیٰ عرف خادم اعلیٰ کہلاتا تھا اور کوئی اس قدر بے تحاشا دولت مند تھا کہ وہ کچھ بھی اور جو اس کا جی چاہے اپنے آپ کو کہلا سکتا تھا۔

یہ لوگ علاوہ سیر سپاٹے کے عزیز و اقارب کے لیے شاپنگ بھی کرتے رہے اتنے اونچے ہوٹلوں میں مقیم رہے جن کو ہم نے باہر سے ہی دیکھا ہے ان میں سے صرف ایک پاکستانی ایسے تھے جو ایسے ایک ہوٹل کے استقبالیہ میں بیٹھتے تھے لیکن پاکستان کی حکمرانی سے معزولی کے بعد مگر عادات نہ صرف حاکمانہ بلکہ شاہانہ اور رئیسانہ تھیں نوکری ضرور کرتے تھے کہ اس کے بغیر گزر اوقات مشکل ہوتی تھی لیکن دعوتوں کے شوقین تھے اور ان کے گھر میں بیگم ناہید زندگی میں پہلی بار چولہے کے سامنے خاصا وقت گزارتی تھیں۔

گھر کے کھانے میں مہمانوں کی جو عزت افزائی ہوتی تھی وہ بازار کے کھانوں میں کہاں اصل بات یہ تھی کہ انھی مہمانوں سے کام بھی نکلتے تھے چنانچہ بیگم صاحبہ میزبانی کی قربانی پر چاروناچار تیار تھیں۔ حالات کے کرشمے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے بیگم صاحبہ کو گدو بیراج کا افتتاح کرتے ہوئے بھی دیکھا اور اب عام مہمانوں کے لیے گھر کے دروازے کھولتے ہوئے بھی۔ میں نے ان کے گلے میں وہ ہار بھی دیکھا جس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور پھر گلے سے لپٹا ہوا ایک عام سا اسکارف بھی دیکھا جو لندن کے موسم کی مجبوری تھی۔

یہ سب وقت کی بے نیازیاں تھیں ویسے یہ اسکندر مرزا جو جنرل بھی تھے خاندانی رئیس تھے اور یہ ہندوستان پر ایک بیرونی حملے میں مدد دینے والے خاندان میں سے تھے جس خاندان کو ایک غیر ملکی حملے میں تعاون کی وجہ سے مزید بلند مرتبہ ملا اور بھارت کے اونچے خاندانوں میں شمار ہونے لگا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کے غیر ملکی حملہ آوروں اور ان کے مدد گاروں کو خصوصی مراعات ملتی تھیں کیونکہ ہندوستان کی سونے کی چڑیا پر باہر کے ملکوں کی نظریں تھیں ان میں سے ایک ملک جو زیادہ منظم تھا کامیاب رہا اور رفتہ رفتہ ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ برسہا برس تک اس ملک نے ہندوستان پر حکومت کی اور ایسے گہرے اثرات چھوڑ گیا کہ ہندوستانی اپنی قدیم تہذیب کو رفتہ رفتہ چھوڑ کر اس غیر ملکی تہذیب کو اختیار کرنے لگے جو اب تک یہاں زندہ ہی نہیں ایک مستقل نئی تہذیب بن چکی ہے۔

انگریزوں نے بڑی عقلمندی کے ساتھ اپنی تہذیب یہاں منتقل کی اور اس میں کامیاب رہے کیونکہ ان کی تہذیب جدید ترین اور حالات کے مطابق تھی۔ ہم آج بڑی حد تک اس تہذیب میں زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارا لباس مغربی بن چکا ہے تعلیم بالکل بدل گئی ہے اور زندگی کا عام چلن ہمارے بزرگوں سے پہچانا نہیں جاتا۔ تفصیلات کی گننجائش نہیں لیکن ہمارے کلب اور تہذیبی ادارے نئے رنگ کے ہیں۔ ان میں اٹھنے بیٹھنے والے اور ان کا انداز بہت ہی بدلا ہوا ہے جو غیر ملکی ہے اور ہماری ایک بڑی آبادی خصوصاً نوجوان اس نئی زندگی کی نمایندگی کرتے ہیں۔

تعلیم اور ذرایع روز گار کے بدل جانے سے پوری زندگی ہی بدل گئی۔ میں ایک پرانے گاؤں کا باسی ہوں۔ اب میرے گاؤں میں ہل جوتنے کے لیے بیل نہیں ہیں اور نہ ہی ان بیلوں کو چلانے والے کسان اب ان کی جگہ بجا طور پر ٹریکٹر نے لے لی ہے اور گاؤں کے کھیتوں کی روشوں پر موٹر سائیکل چلتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری گاؤں کی خواتین بڑے شوق سے اپنے کسی عزیز کے ساتھ موٹر سائیکل پر دوپٹہ سنبھال کر بیٹھی ہوتی ہیں وقت اور ضرورت کی تبدیلی نے دیہات کا کلچر ہی بدل دیا اور اب ہمارے دیہات پہچانے نہیں جاتے۔ سر پر سامان اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ گاؤں کی کوئی بھی خاتون چلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے سواریاں مل گئی ہیں نوجوان بیٹے اپنی موٹر سائیکل پر اپنی کسی ماں بہن کو بٹھا کر کہیں بھی لے جا سکتے ہیں۔ اب وقت کی ضرورت یہی ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے بلکہ یہ خوش حالی کی علامت ہے اور کسی نوجوان کی نیک کمائی ہے۔

دیہات کی زندگی اس قدر بدل چکی ہے کہ اب اس کو میرے جیسے پرانے لوگ پہچان نہیں پاتے۔ کوئی بزرگ اب اپنے کھیتوں میں موٹر سائیکل پر نہیں جاتا جب کہ اس بزرگ کا بیٹا پوری کوشش کرتا ہے کہ بابا جہاں جانا چاہتا ہے وہ اسے اپنی مشینی سواری پر بٹھا کر وہاں چھوڑ آئے اور اس طرح بابا کی محنت میں اپنا حصہ بھی بٹا لے جو ایک کار ثواب اور باعث عزت ہے لیکن بات وہی ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے اور آپ نوٹ کر لیں کہ ہمارے کھیت بھی بدل چکے ہیں۔

وہاں اب ہل نہیں چلتا ٹریکٹر چلتا ہے جو ہمارے کاشتکار کے لیے ایک غیر قدرتی ذریعہ ہے۔ میں نے پرانے کاشتکاروں سے سنا ہے کہ ان مشینی ہلوں زمین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور بارش کے بعد زمین کا وتر اب دیرپا نہیں ہوتا۔ جلد ہی خشک ہو جاتا ہے اور یہ ایک کاشتکار کے لیے ایک زرعی نقصان ہے جو اس کا پوری زراعت کو متاثر کرتا ہے۔

بہرکیف یہی وہ دیہات ہیں جن کی آمدن پر ہمارے رئیس زندگی بسر کرتے ہیں اور انھی دیہات کے باسی ان کے ووٹر بھی ہیں اور رعب داب قائم رکھنے کے لیے ایک وسیلہ بھی ہیں وہ زندگی ہے جس کے بل بوتے پر کوئی بڑا آدمی کہلاتا ہے اور دنیا بھر کی سیر کرتا ہے اور بعد میں بھی اپنے ملک سے باہر۔ اب وہاں رفتہ رفتہ واپس آ رہے ہیں۔