منتخب کردہ کالم

ہمیں لٹیروں سے پیار ہے! … کالم رئوف کلاسرا

ہمیں لٹیروں سے پیار ہے! … کالم رئوف کلاسرا

کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے یا برسوں سے حالات تیار ہو رہے تھے؟
کسی کو دلچسپی نہیں رہی کہ ملک کیسے چلانا ہے۔ ہر ایک یہ سمجھ رہا ہے اسے خدا نے بڑی کرسی یا عہدہ اس لیے دیا تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر زیادہ سے زیادہ مال بنائے اور جو حکمران مال بنا رہے ہیں ان کا دفاع کرے۔
جائز ذرائع سے پیسے بنانا سب کا حق ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ارب پتی بھی ہیں جن پر ایک ڈالر تک کی کرپشن کا الزام نہیں لگتا۔ بل گیٹس پر کبھی یہ الزام نہیں لگا کہ اس نے فراڈ کیے ہیں۔ وہ اپنے ایک ایک ڈالر کا حساب دے سکتا ہے۔ جنہوں نے پیسہ بچانا اور جرائم میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے‘ جب وہ انہی جرائم پیشہ افراد اور کمپنیوں کے دفاع پر اتر آئیں تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یہ سب سوالات مجھے سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاس کے دوران بہت زیادہ ڈسٹرب کرتے ہیں۔ جب سیکرٹری خزانہ ان پاکستانیوں کے نام فنانس کمیٹی میں بتانے سے انکار کر دیں‘ جنہوں نے آٹھ ارب روپے پاکستان سے نیویارک بھیج کر دنیا کی تاریخ کے مہنگے ترین یورو بانڈز خریدے‘ جن کا چالیس ارب روپے سے زائد سود پاکستانی عوام نے ادا کرنا ہے‘ تو پھر آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس لوٹ مار میں کون کون شریک ہے۔
مجال ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار ہو۔ گھنٹوں یہ لوگ جواز ڈھونڈیں گے کہ فلاں کے خلاف تحقیقات کیوں نہ ہوئیں، فلاں کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا یا ہم ان لوگوں کے نام نہیں بتائیں گے جو یہ سب فراڈ کر رہے ہیں۔ چار برس ہونے کو ہیں‘ لیکن میں نے کبھی کسی ایجنسی یا ادارے کو یہ کہتے نہیں سنا‘ نہ ہی کسی کو کسی کمیٹی کے سامنے یہ بتاتے دیکھا کہ اس نے فلاں سکینڈل میں ملوث فلاں شخص کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔
کسی بینک کے بنگلہ دیش میں اٹھارہ ارب روپے قرضے کی مد میں فراڈ کرکے‘ بنگالی اور پاکستانی بھائی مل کر کھا جائیں تو بھی ان کے نزدیک یہ معاملہ معمولی ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ ہماری ایک کمپنی پاکستان سے تین ارب روپے لوٹ کر ہمارے ہاں لے آئی ہے۔ ہم سب ڈٹ گئے کہ جناب یہ سب جھوٹ ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ ہماری کمپنی کہتی ہے‘ اسے ملتان میٹرو کے ایک حصے پر کام کرنے کے لیے تین ارب پچھتر کروڑ روپے کا کنٹریکٹ ملا۔ اس میں سے انہوں نے صرف پچھتر کروڑ روپے خرچ کیے اور باقی تین ارب روپے منافع ہے۔ ہم سب نے مل کر چینیوں کو جھوٹا قرار دے دیا۔ چینی کہتے ہیں کہ بھائی ہم نے ایک چور پکڑا ہے‘ وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے فلاں گھر سے چوری کی ہے۔ ہمیں داد دیں‘ ہم گھر کے مالکان کہتے ہیں کہ چور جھوٹ بولتا ہے، وہ تین ارب روپے آپ خود رکھ لو۔ اس پر سب ادارے خاموش ہیں۔ سنا ہے اب لاہور میں اِس پر ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ جو کام نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی نہیں کر سکے وہ پنجاب پولیس کا ایک بہادر اے ایس آئی کرے گا۔
حکمرانوں کو اور کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو‘ ملک کے اداروں اور لوگوں کو خریدنا ضرور آتا ہے۔ جو انہیں فائدہ یا نقصان دے سکتے ہوں‘ وہ دونوں کو جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
حالت یہ ہو چکی ہے کہ جس چیئرمین ایس ای سی پی کو سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی آر درج کرکے دستاویزات میں فراڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا‘ اسے چند دن بعد ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور وہ دوبارہ وہیں جا کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں سے گرفتار ہوا تھا۔ جو شخص سعودی عرب میں سولہ دن مالی فراڈ پر جیل میں رہا‘ اسے پاکستان لا کر قومی بینک کے خزانے کی چابیاں تھما دی گئیں۔ منی لانڈرنگ کے اس بڑے ملزم کا دفاع اب نعیم بخاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ٹیلی فون کمپنیاں اربوں کی تعداد میں لوگوں سے ٹیکس اکٹھا کر رہی ہیں لیکن ایف بی آر کے پاس یہ چیک کرنے کا کوئی میکنزم نہیں کہ کتنا ٹیکس یہ ٹیلی کام کمپنیاں لے رہی ہیں اور قومی خزانے میں کتنا جمع کروایا جا رہا ہے۔ کمیٹی اجلاس میں بتایا گیا کہ ساڑھے چار برسوں میں پاکستانیوں سے 200 ارب روپے کا ٹیکس لیا گیا ہے۔ ہر سال یہ کمپنیاں پاکستانیوں سے 48 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر رہی ہیں پھر بھی ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ سینیٹرز اس بات پر حیران تھے اگر ایف بی آر کو علم ہی نہیں ہو سکتا کہ کمپنیاں کتنا ٹیکس لے رہی ہیں اور ان تک کتنا پہنچ رہا ہے تو پھر یہ ان کمپنیوں کی مرضی ہے کہ وہ کتنا خیرات کے طور پر حکومت کو دیتی ہیں۔ پتا چلا کہ ایف بی آر بھی اس فراڈ میں شریک ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ معاملہ نیب کو بھجوایا جائے۔ معاملہ نیب میں جائے گا اور وہاں نیب افسران کی چاندی ہو جائے گی۔ کتنے مقدمات نیب میں گئے مگر سب ملزمان وہاں سے ایک ایک کرکے اپنے مقدمات بند کروا کے دوبارہ لوٹ مار کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ کسی کو یاد ہے کہ نیب کو مسلم لیگ نواز کے ایم این اے انجم عقیل خان کو پولیس فائونڈیشن میں چار ارب روپے فراڈ پر کارروائی کا حکم دیا گیا۔ پانچ سال گزر گئے‘ نیب کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ انجم عقیل کو ہاتھ ہی لگا سکے۔ وہی انجم عقیل ہر وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار اور نواز شریف کے دائیں بائیں نظر آتا تھا۔
ایک مولوی احسان کا کارنامہ سن لیں۔ اس اکیلے بندے نے 32 ہزار افراد کے 25 ارب روپے لوٹ لیے۔ مسجدوں اور تبلیغی اجتماعات کو استعمال کیا گیا کہ بینکوں میں پیسہ رکھنا حرام ہے۔ ایک مشہور زمانہ مولانا‘ جو جنت کی حوروں کے بارے میں گہرے علم کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، نے بھی اس نیک کام میں حصہ ڈالا اور لوگوں کو ترغیب ملتی گئی۔ بٹگرام کے ایک عام مولوی نے اسلام آباد میں ڈیرہ لگا کر بتیس ہزار بندے لوٹ لیے۔ جس بندے نے پچیس ارب روپے لوٹے تھے اس کے ساتھ نیب پنڈی کے اس وقت کے ڈی جی نے پینتالیس کروڑ میں پلی بارگین کرکے چھوڑ دیا۔ شور مچنے پر اسے دوبارہ پکڑا گیا۔ مولوی احسان بتیس ہزار لوگوں کے پچیس ارب لوٹ کر اس وقت اعتکاف میں بیٹھا ہوا تھا۔
کچھ اور سن لیں۔ دو بینکوں کی ملی بھگت سے متروکہ وقف املاک کے تقریباً دو ارب روپے لوٹ لیے گئے ہیں۔ بینکوں کے تین اہلکاروں کی مدد سے دو ارب روپے کے قریب خورد برد کیے۔ پتا چلا اس گروہ کے کیئر ٹیکر رفیق قریشی نامی ایک سابق بیوروکریٹ تھے‘ جنہوں نے یہ فراڈ شروع کیا۔ دیپالپور میں رفیق قریشی نے 42 ایکڑ زمین خریدی جو اپنے مرنے سے پہلے بیوی بچوں کے نام کر دی۔ اب رفیق قریشی کی بیوہ وہ زمین چھوڑنے کو تیار نہیں جبکہ محترمہ نے ایک کروڑ ستر لاکھ روپے کے مویشی بھی فروخت کر دیئے ہیں اور زمین کا پچاس لاکھ روپے کا بیعانہ بھی وہ لے چکی ہیں۔ جو افسران اور اہلکار اس فراڈ میں شریک تھے ان میں سے چند ایک کی پوسٹنگ بھی ہو گئی ہے۔
کوئی بھی اپنے گھر کو اس برے طریقے سے لوٹتا ہے‘ جیسے ہم لوٹ رہے ہیں؟ بھلا کوئی ایسے بھی کرتا ہے؟ ویسے تو مجھے بھی ان چھوٹے موٹے فراڈیوں کے بارے میں لکھتے ہوئے اب شرم آتی ہے کہ جہاں ہر وزیر اعظم سکینڈل کا شکار ہو، وزیر لوٹ رہے ہوں، شاہی خاندان کے بچوں نے دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں خرید لی ہوں اور پتا نہ ہو کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے‘ اور وہ جواب طلبی پر سب کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تل جائیں‘ وہاں ان چھوٹے موٹے فراڈیوں پر کالم لکھنا بھی شاید شرم کی بات ہے اور مجھے واقعی شرم آنی چاہیے‘ کیونکہ جنہیں شرم آنی چاہیے تھی وہ تو بے شرمی سے لوٹ رہے ہیں اور ان کے ہمدرد اخبارات اور ٹی وی پر بیٹھ کا ان کا دفاع کرکے الٹا ہمیں شرمندہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک طرف اس ملک کے شہریوں کی لوٹ مار کی کہانیاں کمیٹیوں کے اجلاس میں سنائی جا رہی ہیں اور ہم سانس روکے سن رہے ہیں تو دوسری طرف شاہی خاندان بڑی معصومیت سے پوچھتا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ اور یہ سن کر لٹے پٹے عوام بھی آنسو بہانے لگتے ہیں کہ ہمیں اپنے لٹیروں سے پیار ہے۔ وہ ہمیں لوٹنے سے باز نہیں آتے اور ہم لٹنے سے۔