منتخب کردہ کالم

منہ پھیر کے گزرنے کا وقت نہیں

امریکہ کا رخ کس طرف؟….نذیر ناجی

مستقبل کے جنگی نقشے میں امریکہ کیا کرنے جا رہا ہے؟ ریوا گوئوجون کے زیر نظر تجزئیے میں اس کا خاکہ واضح طور پر موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ‘ اسرائیل کو آگے رکھ کر خطے کے جغرافیے میں تبدیلیاں لانا چاہتا ہے۔ ایران میں اڈے بنا کر آگے بڑھنے کی سمت کیا ہو گی؟ تجزیہ ملاحظہ فرمائیے۔
”اب یا کبھی نہیں‘ یہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ٹویٹ کے الفاظ ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ممالک ‘ ایران میں کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ جب سے اسرائیل کے کانوں میں یہ آواز پڑی ہے کہ امریکی صدر‘ ایران کے ساتھ کیا گیا سفارتی معاہدہ ختم کر رہے ہیں اور پہلے سے داخلی مسائل کے شکار اس ملک کو مزید اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بناناچاہتے ہیں‘ اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی اسرائیل کی خواہش کچھ زیادہ ہی مچلنے لگی ہے۔ نوجوان سعودی شہزادے کے بھی کچھ ایسے ہی جذبات محسوس ہوتے ہیں۔ شام میں اسرائیل کے اہداف تین تہوں والے ہیں: لبنان سے حزب اللہ کی طرف سے بھیجا گیا اسلحہ وہاں پہنچنے نہ دے‘ شام کی خانہ جنگی کو گولان کی پہاڑیوں تک پھیلنے سے روکنا اور اپنی شمالی سرحدوں پر ایران کو مسلح ہو کر طاقت پکڑنے سے باز رکھنا۔ روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال میں اسرائیل کی جانب سے شام میں ایران اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر ہوائی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تین بڑے مسلح ہوائی حملے کئے گئے۔ یاد رہے کہ 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اور تب سے اب تک وہاں کم از کم 150 بڑے ہوائی حملے کئے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کی بیان بازی بھی عروج پر ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں اسرائیلی وزرا ‘نہ صرف یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر صدر بشارالاسد نے ایران کی جانب سے شام کو ‘امریکہ کے خلاف ملٹری بیس بنانے کی اجازت دی تو نہ صرف ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا بلکہ اگر ایران نے اسرائیل پر حملے کی جرأت کی تو اس جنگ کو ایران کے اندر تک پھیلا دیا جائے گا۔ اسرائیل کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ خود کو خفیہ اور محفوظ رکھ کر اس وقت حملہ کرتا ہے‘ جب کوئی مل جائے۔ حال ہی میں جس طرح کے بیانات جاری کئے گئے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنا یہ طریقہ تبدیل کر لیا ہے۔ اگر تو اسرائیل لیوانٹ سے خلیج فارس تک پھیلے علاقے میں ایران کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا خطرہ مول لینے کی تیاری میں ہے تو اسے طبل جنگ زیادہ شدت سے بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز واشنگٹن اور ماسکو کے کانوں تک پہنچ جائے۔
اسرائیل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایک بڑے تنازع کے ظہور کے اس زمانے میں شرق اوسط میں امریکہ کی طویل مدتی عزائم سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا۔ دوسری جانب امریکی انتظامیہ میں یہ آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں کہ امریکہ کو سمندر پار اپنے عزائم کو محدود کرنا چاہئے اور علاقائی سطح پر اپنے حامیوں کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے آگے بڑھانا چاہئے تاکہ اس کی اپنی فورسز کو واپس بلایا جا سکے۔ امریکہ کی یہ بھی خواہش ہے کہ شام جیسی چھوٹی طاقت کیلئے اس کا سامنا روس جیسی بڑی طاقت سے نہ ہو۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت وائٹ ہائوس‘ تہران کے ساتھ مخاصمت اور تصادم کے راستے پر گامزن ہے۔
اسرائیل‘ امریکہ کو موخرالذکر صورتحال میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اگر تو اسرائیل خود ایران کو کمزور کرنے کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا‘ جس کے نتیجے میں مزید خطرات سر اٹھا سکتے ہیں‘ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ کو اس کھیل کا حصہ بنائے رکھے۔ اور وہ یہی کر رہا ہے۔ حال میں شام میں بڑھتے ہوئے حملے دراصل امریکہ کو ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی طرف لے کر آنے کیلئے ہی تھے۔ ایران نے صدر ٹرمپ کے معاہدے سے باہر نکلنے کے اعلان پر شدید ردعمل ظاہر نہیںکیا کیونکہ ایسا کرنے سے یورپ نے امریکہ کے قریب ہو جانا تھا اور ایران یہ کبھی نہیں چاہے گا۔اور پھر ٹرمپ کو ایران سے معاہدہ ختم کرنے کے فیصلے تک لانے کے سلسلے میں وزیر اعظم کے طور پر نیتن یاہو کی پرفارمنس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ چند ہفتے پہلے نیتن یاہو نے قرار دیا تھا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے اور اس طرح معاہدے کی پابندی نہیں کر رہا۔ اس بیان کا مقصد امریکی صدر کو ایران کے خلاف اشتعال دلانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ لیکن ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اس حوالے سے آگے بڑھتے ہوئے روس سے نمٹنا ہو گا۔ اگرچہ روس کا اثر و رسوخ اتنا نہیں رہا‘ جتنا وہ دعویٰ کرتا ہے‘ اس کے باوجود اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کی تکمیل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر سکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شام میں روسی فوجی پورے جنگ زدہ علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں‘ چنانچہ ملٹری منصوبہ سازوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ماسکو کے ساتھ کوئی بین الاقوامی تنازعہ چھیڑے بغیر شام یا ایران کو ٹارگٹ کر سکے۔ شام میں روس کی موجودگی فوجی ایکشن نہیں بلکہ محتاط سفارتی توجہ کی طالب ہے تاکہ روس کے ساتھ معاملات کو طے کیا جا سکے اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو اس کے جواب میں موقعہ فراہم کیا جا سکے کہ وہ اپنی شرائط پیش کریں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جب بھی اسرائیل‘ امریکہ پر ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کیلئے زور دیتا‘ روس خبردار کر دیتا کہ وہ ایران کو سطح زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والا میزائل سسٹم فراہم کر دے گا (تاکہ امریکہ اگر جارحیت کا مظاہرہ کرے تو اسے سبق سکھایا جا سکے) جب امریکہ کا ایران کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا تھا تو 2016 میں روس نے ایران کو ایس 300 سسٹم کی فراہمی بند کر دی تھی۔ اب حال ہی میں (گزشتہ اپریل میں) امریکہ نے شام میں میزائل حملہ کیا تو روس نے بھی اس تناظر میں اپنے اس پُرانے ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دینی شروع کر دی ہے۔
امریکہ کی جانب سے نیوکلیئر ڈیل سے باہر آنے کا مطلب یہ ہوا کہ دبائو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسی پر اکتفا کر لیا جائے گا؟ اس معاہدے سے بیک جنبش قلم باہر آنے کا مطلب یہ ہے کہ سفارتی عمل کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ کے اس معاہدے سے باہر آنے کے حربے کا تہران میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے ایران کو ”برائی کا محور‘‘ ثابت کرنے کی ایک اور کوشش کا نتیجہ ایرانی قیادت میں امریکہ کے خلاف شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور اس طرح دونوں ملکوں کے تعلقات کا گراف اس حد تک نیچے چلا جائے گا کہ شاید پھر بحال نہ ہو سکے۔اگر امریکہ نے دبائو مزید بڑھایا تو ایران کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ روس کی طرف رجوع کرے ‘ جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودگی کے خلاف سرگرم ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بھی خلاف ہے۔ پھر یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ معاہدہ ختم ہونے کے بعد کیا ایران کو پھر سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا عمل شروع کر دینا چاہئے؟امریکہ کے معاہدے سے باہر نکل جانے کا ایک نتیجہ‘ ایران کی برآمدات میں کمی کی صورت میں نکلے گا چنانچہ اس کے لئے جوہری معاہدے سے جڑے رہنے میں کوئی کشش باقی نہیں رہے گی۔ تاہم ایران یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم ہو جائیں اور سارا کھیل اسرائیل کے ہاتھ میں آ جائے کیونکہ یہ امید ابھی باقی ہے کہ ٹرمپ کے بعد کوئی ایسا صدر امریکہ میں برسر اقتدارآ جائے جو ایران کے معاملہ کو بہتر طور پر سمجھتا ہو۔ دوسری جانب ایران روس تعلقات بھی اتنے سادہ نہیں۔ ایران کی حمایت کرنے‘ بہت سے معاملات میں اس کے ساتھ چلنے اور امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کے عمل کو اپنی ویٹو کی طاقت سے زائل کرنے کی روس کچھ نہ کچھ قیمت تو ضرور وصول کرے گا۔ یہ ایران کو کچھ ڈیفنس سسٹم فروخت کرنے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ بہرحال اب آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ بلی بہت جلد تھیلے سے باہر آ جائے گی‘‘