منتخب کردہ کالم

170 سال کی مسلسل کہانی….تنویر قیصر شاہد

برطانوی وزیرِخارجہ، فلپ ہیمنڈ، دو روز کے لیے پاکستان کے سرکاری دورے پر رہے۔ نو سے دس مارچ 2016ء تک۔ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقاتیں کیں اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف سے بھی۔ ہمارے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز سے مل کر اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ یوں تو برطانوی وزیرخارجہ کی سبھی باتیں بڑی دلفریب تھیں لیکن کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں آنجناب نے جو ارشاد فرمایا، اس سے اہلِ کشمیر اور پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

نہایت سنگینی اور سنگدلی سے فلپ ہیمنڈ نے کہا: ’’پاکستان کو بھارت سے ہر سطح پر اور ہر شعبے میں کھُل کر اور فوری طور پر مکالمہ کرنا چاہیے، مگر مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر۔ مذاکرات کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کی پیشگی شرط نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘ اگر مسئلہ کشمیر کو ایک سائیڈ پر رکھ کر پاکستان نے ڈائیلاگ کرنا ہے تو پھر بھارت سے کیا بات ہو گی؟ ’’شاباش‘‘ دینی چاہیے برطانوی وزیرخارجہ کے اسلوبِ سفارتکاری کو کہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر، وفاقی مشیرِ خارجہ کی موجودگی میں، وہ بھارت کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ مارچ کے مہینے میں، پاکستان اور اہلِ کشمیر پر برطانویوں کے ظلم کی یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔

شاید کاتبِ تقدیر نے برطانوی انگریز حکمرانوں کی قسمت میں یہی لکھ رکھا ہے کہ وہ جب بھی کشمیری مسلمانوں پر لفظوں اور گولے بارود کے ساتھ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں گے، مارچ ہی کا مہینہ ہو گا۔ آج سے تقریباً ایک سو ستر سال قبل، یہ بھی مارچ ہی کا ستمگر مہینہ تھا جب برطانوی حکمرانوں نے انسانیت دشمنی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے خطۂ کشمیر کو صرف 75 لاکھ روپے میں ڈوگروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ ’’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!‘‘ برطانوی انگریزوں کا کیا گیا یہ ظالمانہ سودا، جس میں ارضِ کشمیر کے ساتھ ساتھ لاکھوں مسلمان کشمیری بھی بیچ ڈالے گئے تھے، 16 مارچ 1846ء کو ہوا۔

جعلی ڈوگرہ سردار گلاب سنگھ، جو کبھی راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں چار روپے ماہانہ کا ملازم تھا، اب پورے کشمیر اور اہل کشمیر کا مالک تھا۔ غاصب اور قابض انگریزوں نے اس غیر انسانی سودے کو ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کا نام دیا تھا۔ تقریباً دو صدیوں بعد، دس مارچ 2016ء کو اسلام آباد میں بیٹھ کر برطانوی وزیرِخارجہ نے کشمیر اور اہلِ کشمیر کے خلاف جو دل آزار بیان دیا ہے، ایسا کر کے دراصل فلپ ہیمنڈ نے اپنے ’’بزرگوں‘‘ کی رِیت روایت ہی نبھائی ہے۔ کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ اور غاصبانہ ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے بعد نئے حاکم، راجہ گلاب سنگھ،نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی جو قیامت برپا کی، تقریباً دو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اس کی یاد سے روح کانپ جاتی ہے۔

معروف مؤرخ ایم ایل کپور نے اپنی معرکہ خیز کتاب The History of Jammu & Kashmir میں عینی شہادتوں کی بنیاد پر ڈوگرہ راج کے مظالم کے جو واقعات قلمبند کیے ہیں، انھیں پڑھ کر ڈوگروں پر لعنت بھیجنے کو تو یقینا جی چاہتا ہے، برطانوی حکام بھی ملعون ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ایم ایل کپور لکھتے ہیں: ’’کشمیر کا نیا خریدار راجہ گلاب سنگھ پہلی بار سری نگر میں داخل ہوا تو اسے ’’سلامی‘‘ دینے کے لیے کشمیری مسلمان مجاہدین اور رہنماؤں کے کٹے ہوئے سر، پاؤں اور ہاتھ پیش کیے گئے۔ انھیں تیز دھار کلہاڑیوں سے کاٹا گیا تھا۔

گلاب سنگھ کی خدمت میں کئی کشمیری مسلمانوں کی ایسی لاشیں سامنے لائی گئیں جن کی ساری چمڑی ادھیڑ دی گئی تھی اور ان کی کھینچی گئی کھالیں علیحدہ سفید لٹھے کے تھیلوں میں رکھی گئی تھیں۔ جن باغی کشمیری مسلمانوں کی زندہ کھالیں اتاری گئیں، ان میں مجاہد شمس الدین اور سبز علی نمایاں تھے۔ سری نگر کے کئی دروازوں پر پھانسی پر لٹکے مسلمانوں کے دھڑ مہینوں تک دانستہ لٹکائے رکھے گئے تا کہ دہشت و وحشت کا ماحول پیدا کر کے کشمیریوں کو ہمیشہ کے لیے خوف میں رکھا جا سکے۔‘‘

اس بربریت اور خونریزی کے ذمے دار ہندو ڈوگرہ راجے اور ان کے گماشتے تو تھے ہی لیکن اس درندگی کی بنیادی ذمے داری برطانوی انگریزوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے محض اپنے جنگی اخراجات پورے کرنے او ڈوگروں کی شرارتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کشمیر اور کشمیری صرف پچھتر لاکھ روپے کی قلیل اور حقیر رقم میں فروخت کر دیے۔ یہ انگریزوں کے ہاتھوں برِصغیر کی اولین Balkanization تھی۔ اور ایک سو برس بعد، 1947ء میں، ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ نے کشمیر جنت نظیر کو بھارت کے ہاتھ بیچ ڈالا اور اکثریتی کشمیری مسلمانوں کو پوچھا تک نہیں۔ دونوں سودوں میں برطانوی حکام نے کشمیری مسلمانوں کا حق غصب کیا۔

جلیل و جمیل اللہ تعالیٰ کی مگر اپنی حکمتیں، اپنے راز ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے خلاف برطانوی وزیرِ خارجہ کے بیان پر ہمارے اہلِ حَکم اور اہلِ قلم تو بوجوہ خاموش رہے لیکن کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ممتاز بھارتی جامعہ ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘‘ (جے این یو) کے طلباء اور اساتذہ خاموش نہیں ہیں۔ اللہ کریم نے ان کی زبانوں پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں کلمات جاری فرما دیے۔

جب اسلام آباد میں برطانوی وزیرِخارجہ فلپ ہیمنڈ مقبوضہ کشمیر کے خلاف اپنے اصل باطن کا اظہار کر رہے تھے، دہلی میں بروئے کار ’’جے این یو‘‘ کی طلباء یونین کے صدر جناب کنہیا کمار ببانگِ دہل اور بغیر کسی ابہام کے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’بھارتی حکام ہمارے خلاف چاہے جتنے بھی ہتھکنڈے بروئے کار لے آئیں، ہم حق بات کہنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ ہمارے دل میں بھارتی افواج کا بہت احترام ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بھارتی فوجی ہیں جو (مقبوضہ) کشمیر میں مسلمان خواتین کی عصمتیں لُوٹ رہے ہیں۔‘‘

ابھی اس دھماکے کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ ’’جے این یو‘‘ ہی کی ایک پروفیسر نیودیتا مینن، جو یونیورسٹی ہذا کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں تقابلی سیاسیات کی استاد ہیں، نے کہا: ’’بھارت نے کشمیر پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیری جو بھی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ بجا طور پر آزادی کی جنگ ہے۔‘‘ان دونوں کے جذبۂ حریت و صداقت کو ہمارا سیلوٹ کہ یہ ایسا جذبہ ہے جو کسی سے دبا ہے نہ کسی کے روکنے سے کبھی رکا ہے۔ یوں جو خلا پیدا ہو گیا تھا، قدرتِ خداوند نے اسے یوں پُر کر دیا ہے۔

اس کا حیرت انگیز مظاہرہ گیارہ مارچ 2016ء کو سامنے آیا جب مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع، پلوامہ، جوانوں نے بھارتی قابض افواج کا دس گھنٹے تک مقابلہ کیا۔ اس مقابلے میں اگرچہ آخر میں دونوں مجاہدین مارے گئے لیکن اس کے ردِ عمل میں کشمیریوں کی طرف سے قاتل بھارتی افواج کو جس شدید سنگباری کا سامنا کرنا پڑا، اس نے مقبوضہ کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سید جاوید مجتبیٰ گیلانی اور سری نگر میں متعین بھارتی فوج کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ستیش ڈوآ کو بھی حیرت میں ڈال رکھا ہے۔

سری نگر سے شایع ہونے والے ممتاز انگریزی اخبار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے مطابق، دونوں مجاہدین کی شہادت کے بعد دو روز تک پورا ضلع پلوامہ احتجاج میں بند رہا۔ کوئی کاروبار ہوا نہ کوئی تعلیمی ادارہ کھلا۔ یہ انداز و اطوار اس امر کے مظہر ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں غاصب و قابض بھارت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک نیا طوفان آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت اب یہ نہیں کہہ سکتا کہ کشمیریوں کو ’’باہر سے‘‘ امداد مل رہی ہے۔