منتخب کردہ کالم

2018ء کے شفاف الیکشن….خالد مسعود خان

2018ء کے شفاف الیکشن….خالد مسعود خان

اللہ بدگمانی سے بچائے‘ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ کوئی بدخواہ نئی نگران حکومتوں کو’ دھنیا گھوٹ‘ کر پلا رہا ہے کہ اٹھارہ روز ہو گئے ہیں اور ابھی معاملات صرف فواد حسن فواد اور چاروں صوبوں کے چار چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو تبدیل کرنے سے آگے نہیں چلے۔ اٹھارہ روز میں کل نو لوگ تبدیل ہوئے ہیں۔ ویسے تو پورے پاکستان کی بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ ہونی چاہئے تھی ‘مگر سندھ اور پنجاب میں تو اس کی خاص ضرورت تھی کہ پیپلز پارٹی نے سندھ اور مسلم لیگ ن نے پنجاب کی بیورو کریسی کو گھر کا ملازم بنا رکھا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا؟ میاں صاحبان نے پچھلے پینتیس سال میں بیورو کریٹس کی ایک ذاتی فوج تیار کر لی تھی‘ جو ان کے احکامات کی اس طرح ہی تعمیل کرتی تھی‘ جیسے ان کے اتفاق فائونڈری کے ملازم۔ جو دو چار خوددار لوگ ایسا نہیں کرتے تھے‘ ان کا حال وہی ہوتا تھا‘ جو بہاولنگر کے ڈی پی او شارق کمال صدیقی کے ساتھ ہوا تھا۔
مسلم لیگ ن نے ایک عجیب واردات ڈالی۔ جونیئر ترین افسروں کو ان کے گریڈ سے کہیں اوپر والے گریڈ میں پوسٹ کر دیا۔ اب ان جونیئر افسران کو زیادہ اختیارات اور طاقت والی پوسٹ مل گئی اور انہیں میرٹ پر نہیں‘ بلکہ ‘صوابدیدی اختیارات‘ کے تحت عطا ہوئی تھی۔ انہیں علم تھا کہ یہ حکمرانوں کی مہربانی کے طفیل ہوا ہے‘ وگرنہ ان کے بیچ کے لوگ ابھی تک دھکے کھا رہے ہیں۔ سو انہوں نے ”آستانہ عالیہ شریفیہ‘‘ کی خدمت اور اطاعت پر کمر باندھ لی۔ انہیں علم تھا کہ یہ سارا موج میلہ‘ انہیں صرف اسی صورت میں ہی حاصل رہ سکتا ہے کہ وہ ”آل ِشریفین‘‘ کے اس احسان کا بدلہ مکمل اطاعت گزاری کے ذریعے ادا کریں۔ سو انہوں نے یہی کیا اور اقبال مندی سے سرفراز ہوئے۔
احد چیمہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ ابھی جو صرف اٹھارویں گریڈ میں تھے اور پنجاب کے سیکرٹری تعلیم بنا دیئے گئے۔ موصوف کے آگے درخواست گزار گریڈ اکیس اور بیس کے سینکڑوں پروفیسر تھے‘ جو صبح صبح ان کے درِ دولت کے باہر سائل بن کر بیٹھ جاتے تھے اور اکثر اوقات صرف اور صرف بے عزت ہو کر واپس جاتے تھے۔ آج تک کسی بیورو کریٹ نے اپنی پوری سروس کے دوران ایک بھی پروفیسر پیدا نہیں کیا‘ جبکہ یہ ہزاروں بیورو کریٹس صرف اور صرف پروفیسروں‘ استادوں اور معلموں کے طفیل اس عزت والے مقام پر پہنچے۔ ویسے تو استاد کے ساتھ اس ملک میں مجموعی طور پر ہی معاشرے کے راندہ درگاہ ٹائپ طبقے والا سلوک ہوتا ہے‘ لیکن سیکرٹری تعلیم کی جانب سے ایسا رویہ استادوں کے لیے بالکل غیر متوقع تھا اور خاص طور پر جبکہ وہ سیکرٹری عمر میں اپنے سامنے پیش ہونے والے تمام سینئر پروفیسروں کے بچوں سے بھی چھوٹی عمر کا ہو اور انہیں بری طرح جھاڑ رہا ہو۔ یہ سب صرف اس لیے ہوا کہ پنجابی کی ایک کہاوت کے مطابق ”تھوڑی میں زیادہ پڑ جائے‘ تو ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔ اپنے ہم عمر افسر سے بے عزتی کروانے میں وہ ذلت محسوس نہیں ہوتی‘ جو اپنے سے تیس سال کم عمر نوجوان افسر سے بے عزتی کروانے پر محسوس ہوتی ہے۔
پھر موصوف کو ایل ڈی اے کا ڈی جی لگا دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل لگایا‘ بلکہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود‘ جو لاہور شہر تک تھی‘ کو بڑھا کر پورے لاہور ڈویژن تک کر دیا اور اس میں شیخوپورہ‘ قصور اور ننکانہ صاحب کو بھی شامل کر دیا۔ موصوف جب پورے لاہور ڈویژن کی قسمت کے مختار کل تھے‘ تو وہ انیسویں گریڈ میں تھے ۔ ان کو بیسویں گریڈ میں ترقی ان کی نیب کی گرفتاری کے دو دن بعد دی گئی۔ ان کی گرفتاری پر اسی قبیل کے آل شریفین کی عنایات اور مہربانیوں تلے دبے ہوئے افسروں نے باقاعدہ ہڑتال فرما دی۔ سب کو پتہ تھا کہ اگر آج ایک افسر پکڑا گیا ہے ‘تو کل کلاں ہماری باری آ سکتی ہے۔ سو سارے مراعات یافتہ بے ایمان ایک پرچم تلے اکٹھے ہو گئے۔ حتیٰ کہ پنجاب اسمبلی نے اٹھائیس فروری 2018ء کو اس گرفتاری پر نیب کے خلاف ایک قرار داد بھاری اکثریت سے منظور فرما کر ایک بیورو کریٹ اور اس ایک بیورو کریٹ کی وساطت سے دیگر اپنے وفادار بیورو کریٹس کو یہ پیغام دیا کہ پوری پنجاب حکومت ان کی پشت پر کھڑی ہے۔
یہ ایک مثال تھی۔ پنجاب کی بیورو کریسی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ شریف برادران کے بیورو کریسی میں موجود وفاداروں کی ایک پوری فوج تیار ہو چکی ہے اور گزشتہ تیس پینتس سال کی مسلسل آبیاری سے اب تو یہ عالم ہے کہ سینئر بیورو کریٹس کی پوری برگیڈ مسلم لیگ ن کے اقتدار کی طوالت کے لئے تن من دھن سے مدد کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ یہی حال سندھ میں بھی ہے‘ بلکہ وہاں شاید اس سے زیادہ برا حال ہے۔ الیکشن میں محض چونتیس دن باقی ہیں اور ملک کا سارا نظام انہی پرانے پاپیوں کے ہاتھ میں ہے‘ جن کے ہوتے ہوئے ‘نہ الیکشن شفاف ہو سکتے ہیں اور نہ منصفانہ۔
ایک نگران وزیراعظم‘ چار نگران وزرائے اعلیٰ اور چاروں صوبوں کی مختصر سی کابینہ‘ پنجاب دس‘ سندھ سات‘ کے پی کے دس اور بلوچستان کے گیارہ نگران وزرائ‘ یہ کل مل کر ہو گئے‘ تینتالیس افراد۔ بائیس کروڑ کا ملک‘ جس کے دس کروڑ انسٹھ لاکھ ساٹھ ہزار ووٹرز ہیں‘ ان کے لیے شفاف اور ایماندارانہ الیکشن کا بندوبست اس طرح کیا گیا ہے کہ ایک وزیراعظم‘ چار وزرائے اعلیٰ‘ اڑتیس وزیر لگائے گئے ہیں ۔چار آئی جی‘ چار چیف سیکرٹری اور ایک وزیراعظم کا پرسنل سیکرٹری تبدیل کیے گئے ہیں۔ باقی ساری بیورو کریسی جوں کی توں موجود ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں شفاف الیکشن کروانے پر مامور نگران وزیراعظم کو سرکاری خرچے پر اپنے مرحوم والدین کی قبر کی زیارت اور فاتحہ کا خیال آ گیا اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کو اچانک اپنے آبائی شہر کی سیر کا شوق لاحق ہو گیا۔
آئین کے مطابق نگران وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کو اپنی تعیناتی کے تین دن کے اندر اندر اپنے اثاثوں کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور شنید ہے کہ کسی ایک نے بھی آئین کے مطابق تین دن میں اپنے اثاثے ڈکلیئر نہیں کیے۔ ہفتے بھر میں تو صرف چار لوگوں نے یہ فریضہ سر انجام دیا اور گمان ہے کہ ان تینتالیس افراد میں سے کئی ایک نے تو بیس روز گزرنے کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا۔ میری کیا مجال کہ میں نگران وزیراعظم کے اثاثوں اور ان کی منی ٹریل کی بات کروں‘ تاہم اسے دیکھ کر نیک کمائی میں پائی جانے والی برکت پر میرا اعتبار ضرور بڑھ گیا ہے۔
اسے آپ میری بدگمانی سمجھ لیں یا اسے جو مرضی قرار دے دیں‘ لیکن اس صورتحال میں موجودہ نگران سیٹ اپ کی استعداد کو دیکھتے ہوئے ‘ مجھے تو بالکل یقین نہیں کہ ہم لوگ ملک میں ایماندارانہ اور شفاف کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ ان کی حرکات تو ایسی ہیں کہ جیسے یہ ایک ماہ پچیس دن میں نہیں‘ ڈیڑھ سال میں الیکشن کروانے آئے ہیں۔ اگر موجودہ بیورو کریسی کی موجودگی میں یہ لوگ پچیس جولائی کو الیکشن کروا بھی لیں ‘تو وہ الیکشن تو ضرور ہو گا‘ لیکن شفاف اور ایماندارانہ نہیں ہو سکتا کہ ان نگرانوں کا سارا زور صرف الیکشن پر ہے۔ شفافیت شاید ان کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے‘تاہم یہ الیکشن اس حد تک ضرور شفاف ہیں کہ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ کس طرح کے ہوں گے۔