منتخب کردہ کالم

256 بچوں کی ماں (یورپ کی ڈائری) نسیم احمد باجوہ

عمر84 برس۔ نامIrene Hancock۔ ایک عرصہ ہوا جب خاوند اُسے چھوڑ گیا۔ شمالی انگلستان کے شہرSheffield کی رہنے والی۔ اپنی اولاد صرف ایک بیٹی تک محدود۔ 1961 ء میں اُس پر یہ بڑی مصیبت پہاڑ بن کر گری کہ جب وہ ایک بچی کی ماں تھی۔ (جس کی عمر اب 64 سال ہے)خاوند مفرور ہو گیا۔ کوئی ملازمت یا کاروبار بھی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ اس بہادر خاتون نے وہ بچے پالنے شروع کر دیئے جو یا تو یتیم تھے یا اُن کے والدین کسی نہ کسی وجہ سے اُن کی پرورش سے قاصر تھے۔ اُس نے یہ نیک کام ایک بچے سے شروع کیا۔ تعداد بڑھتے بڑھتے 256 تک جا پہنچی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر میں نہ گرم پانی اور نہ فریج۔ واش روم گھر کے اندر ہونے کی بجائے باہر صحن میں تھا۔ آج سے 55 سال پہلے برطانوی حکومت اُسے ہر بچے کو پالنے پوسنے کا معاوضہ تین پائونڈ فی ہفتہ دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاوضہ بڑھتا گیا اور اس کے ساتھ اس خاتون کا حوصلہ اور تجربہ بھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اُس نے چھ چھ بچوں کی بطور ماں پرورش کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور بخوبی ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کے تمام ریلوے اسٹیشنوں اور زیر زمین چلنے والی ٹرینوں پر مفت تقسیم ہونے والے روزنامے Metro (تعداد اشاعت دس لاکھ) کے صفحہ اول پر اس کے مہربان اور شفیق جہاندیدہ مسکراتے ہوئے چہرہ نے جگہ پائی اور لاکھوں افراد سے تعریف و تحسین کے پھول سمیٹے۔ اگر آپ کا کالم نگار اپنی ممدوح کا پتہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اُسے پھول نہیں بھیج سکتا تو کم از کم اُس کے لئے زندہ باد کے الفاظ تو لکھ سکتا ہے۔ مندرجہ بالا سطور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے اہل وطن کو (جو خیرات دینے میں پہلے ہی ساری دُنیا میں غالباً سر فہرست ہیں) اپنی اپنی جگہ اور ہر سطح پر ضرورت مندوں ( نہ کہ جھوٹ بولنے والوں اور مکرو فریب کرنے والوں) کی ہر ممکن مدد کرنے پر مائل کر سکوں۔
یہ تو تھی ایک دن کے Metro کے سر ورق پر نظر آنے والی تصویر۔ اگلے دن کے اخبار کے سرورق پر شائع ہونے والی تصویر کچھ کم دلچسپ اور جاذب نظر نہ تھی اور وہ تھی سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت وادی (High Lands) میں ایک شاندار سرخ ہرن کی۔ جو وادی کو اس طرح دیکھ رہا ہے جس طرح ایک بادشاہ اپنی سلطنت کو۔ عام طور پر کوہ پیمائوں اور جنگلی حیاتWildlife کے محافظوں Game Keeperکی آپس میں کبھی نہیں بنتی۔ اُن کے طور طریق ایک دُوسرے سے متضاد ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ایک دُوسرے سے ٹکراتے اور لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ مگر صورت حال نے ایسا پلٹا کھایاکہ اب پرُانے دُشمن اب ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے ہیں اور وہ ہے مقامی حکومت کے ممکنہ جنگلات کی طرف سے وادیوں میں لاکھوں درختوں کی شجر کاری کرنے کے منصوبہ کی مخالفت میں۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ گھنے درختوں کی وجہ سے پہاڑوں اور وادیوں کا قدرتی حسن چھپ جائے گا۔ سرکاری بیان کے مطابق سکاٹ لینڈ کو شجر کاری کی ضرورت ہے چونکہ باقی یورپی ممالک کے مقابلہ میں سکاٹ لینڈ میں جنگلات کا تناسب کم ہے اور وقت گزرنے اور آبادی بڑھنے کے ساتھ وہ پہلے ہی ایک چوتھائی رہ گئے ہیں۔ اب دیکھیں کہ قدرتی حسن اور ماحولیاتی بہتری کی جنگ میں فتح کس کی ہوتی ہے؟ آپ کے کالم نگار نے برطانیہ اور یورپ کی بہت سیر کی ۔ وہ ان کے شہروں اور شاندار عمارات (بقول اقبال بینکوں کی عمارات گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں) سے ہر گز مرعوب نہیں ہوا مگر ایک شہر سے دُوسرے شہر یا ایک ملک سے دُوسرے ملک جاتے ہوئے وہ جب میلوں لمبے جنگلات میں سے سفر کرتے ہوئے گزرے تو اُس کے دل میں رشک کے جذبات کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو ایک سیلاب زدہ ندی کی۔
اب ہم سکاٹ لینڈ کے جنگلات اور اُن میں گھومنے پھرنے والے بارہ سنگھوں سے آگے بڑھتے ہوئے اور Geneva چلتے ہیں۔ اکثر لوگ اسے سوئٹزر لینڈ کا دارالحکومت سمجھتے ہیں جو درست نہیں۔ (چونکہ وہ ایک غیر معروف شہر Berne ہے۔ جس کی آبادی صرف ڈیڑھ لاکھ ہے)۔ اس شہر میں بین الاقوامی اداروں (خصوصاً اقوام متحدہ سے وابستہ) کے جتنے دفاتر ہیں وہ دُنیا کے کسی اور شہر میں نہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ یہ ملک خود اقوام متحدہ کا رُکن نہیں چونکہ اس رُکنیت سے اس کی مکمل غیر جانبداری پر حرف آسکتا تھا۔ فروری کے آخر میں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ( Human Rights Commission ) نے ساری دُنیا میں سے چھ ایسے لوگوں کو اپنے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی جو انسانی حقوق کی خاطر کی جانے والی عالمی جدوجہد میں سرفہرست تھے۔ ان چھ میں سے پانچ کا تعلق اسلامی ممالک سے تھا اور یہی میرے قارئین کے لئے لمحہ فکر یۂ ہے۔ میں ان چھ بہادر اور قابل صد تعریف افراد کے نام اور اُن کے ملک کا لکھتا ہوں۔ عراق کے Dalal Khario ۔ ترکی کے Can Dundar(جو ایک بڑے اخبار کے مدیر اعلیٰ رہ چکے ہیں)۔ ایران کی صحافی قانون Taghi Rahmani ۔ کیوبا کے Danilo Maldonado ۔ مارطانیا کے (مراکش کے پڑوسی ملک کا نام) Biram Dah Abeid ۔ مالدیب کے سابق صدر Mohammad Nasheed ۔ وہ اس جزائر پر مشتمل چھوٹے سے ملک کے پہلے جمہوری اور عوامی تائید سے منتخب ہونے والے صدر تھے اور اُنہیں فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار سے محروم کیا گیا۔ (جیسا کہ مصر میں ہوا) جو شخص ماریطانیا کے ضمیر کی آواز ہے۔ اُس کے آبائو اجداد غلام تھے۔ اُنہوں نے انسانی حقوق کی کونسل کو یہ بتایا تو سامعین صدمہ سے شل ہو گئے کہ آج بھی اس صحرائی اور اسلامی ملک میں لاکھوں افراد غلام اور بیگار کی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس راہنماکے اور اُن کے ساتھیوں کے گھروں پر بارہا قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ وہ خود جیل میں تین بار قید بامشقت کی سزا بھگت چکے ہیں۔ مالدیپ کے سابق صدر نے اپنی درد بھری داستان سنائی تو کونسل کے اراکین کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ وہ سلطانی جمہور کا نشان بن کراپنے ملک کے سیاسی اُفق پر اُبھرے تو اُنہیں اپنے بہادر باپ اور دادا کی طرح نہ صرف جیل میں قید پانچ سال قید کی سزا بھگتنی پڑی بلکہ اُن پر تشدد بھی کیا گیا۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُسے چھوٹے سے ملک (کل آبادی تین لاکھ جس میں سے ایک تہائی دارالحکومت Mali میں رہتے ہیں) میں 1700 لوگ محض اس جرم میں جیلوں میں قیدی بنا کر رکھے گئے ہیں کہ اُنہوں نے جمہوری قدروں کی صریحاًخلاف ورزی کے خلاف آواز بلند کی۔ بحر ہند میں اس چھوٹے سے ملک کی تین خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ یہ کل 1200 جزیروں پر مشتمل ہے۔ (جو بحری سائنس کی زبان میں Coral کہلاتے ہیں) اور اُن میں صرف 22 جزیرے آباد ہیں اور 1178 جزیرے غیر آباد۔ دوم۔ جس رفتار سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اُس کا حساب لگایا جائے تو اگلے 30/40 سالوں میں سارا ملک غرق ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں مالدیب کے اربابِ اقتدار آسٹریلیاء اور کینیڈا کی حکومتوں سے مذاکرات کر رہے ہیںکہ وہ مالدیپ کی ساری آبادی کو ان میں سے کسی ایک ملک میں تارک وطن بن کر آباد ہونے کا حق دے دیں۔ مذاکرات جاری ہیں اور اُدھر ہر پانچ سال کے بعد سمندر کی سطح ایک انچ اور بلند ہو تی جاتی ہے۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ سارے ملک (یعنی 22 جزیروں میں کسی ایک میں بھی) میں ایک بھی مویشی یا چوپایہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر وہاں کے پابند صوم و صلوٰۃ لوگ مرغی حلال کر کے قربانی دیتے ہیں۔
میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ گزارش کروں گا کہ بڑی عید پر قربانی جانور کی دی جائے یا ایک پرندے کی۔ یہ بات مان لیں۔ اُس سے مالدیپ کی صحت پر نہ اچھا اثر پڑتا ہے اور نہ برُا۔ لیکن اگر جمہوری قدروں کی قربانی دی جائے۔ انسانی حقوق کو پامال کیا جائے۔ عوامی تائید سے منتخب ہونے والے صدر کو پہلے جیل میں پانچ سال قید میں رکھا جائے۔ وہاں اُس پر تشدد کیا جائے اور پھر اُسے برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور کیا جائے (یہ وضاحت ضروری ہے کہ موصوف اس کالم نگار کے موکل نہیں) تو آپ سمجھ لیں کہ سمندر کی سطح بلند ہونے سے پہلے ہی یہ بدنصیب ملک ڈوب جائے گا۔ جس ملک میں اندھیرا روشنی پر غالب آجائے۔ سحر طلوع ہو تو شب گزیدہ ہو۔ اُجالا ہو تو داغ داغ۔ اُس کی قیادت کوشرم سے ڈوب مرنے کے لئے سمندر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چلو بھر پانی ہی کافی ہوناچاہیے۔