خبرنامہ سندھ

فاروق ستار اور عامر خان مجرم قرار

فاروق ستار اور عامر خان مجرم قرار
کراچی:(ملت آن لائن) اشتعال انگیزتقریر اورمیڈیا ہاوس پر حملہ کیس میں پولیس نے ضمنی چالان میں فاروق ستاراور عامرخان کوقصوروار قراردیدیا پولیس نے چالان میں فاروق ستار اورعامر خان کا بانی ایم کیوایم کی تقریر سے لاتعلقی کا بیان بھی جھوٹا قراردیدیا۔ ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور عامر خان کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا ، پولیس نےضمنی چالان عدالت میں پیش کردیا ، جس مین کہا گیا ہے کہ فاروق ستار اور عامرخان بائیس اگست کی ہنگامہ آرائی اورمیڈیا ؤسز پر حملے میں ملوث ہیں۔ پولیس نے ضمنی چالان میں فاروق ستار اور عامر خان کو مجرم قرار دے دیا، پولیس کے مطابق فاروق ستار اور عامر خان کا الطاف حسین کی تقریر سے لاتعلقی کا بیان جھوٹا ہے ، عامر خان نے الطاف حسین کی ملک مخالف تقریر کی مکمل تائید کی۔ ویڈیو شواہد کے مطابق عامر خان نے کہا الطاف حسین کے حکم پر مکمل عمل درآمد ہوگا۔ چالان کے متن کے مطابق عامر خان نے کہا اب ہمارا پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا دل نہیں چاہتا ، تقریر کے فوری بعد فاروق ستار اور دیگر رہنما تالیاں بجاتے رہے، دونوں رہنماؤں پر الزامات ثابت ہوتے ہیں۔ ولیس نےفاروق ستاراورعامرخان کوبائیس اگست کی ہنگامہ آرائی میں ملوث قراردیتے ہوئے کہا اگر فاروق ستار اور عامر خان کارکنوں کو اشتعال نہ دلاتے تو میڈیا ہاوس پر حملہ بھی نہ ہوتا ، اگر غیر قانون حکم کی تائید نہ ہوتی تو ہنگامہ آرائی اور ایک شخص کا قتل بھی نہ ہوتا ،فاروق ستار اور عامر خان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
پولیس نے چالان میں دونوں رہنما ؤں پر دانستہ روپوش رہنے کا الزام بھی عائد کیا۔ دوسری جابط انسداددہشت گردی عدالت میں ایم کیوایم بانی کی اشتعال انگیز تقریر کے 28مقدمات کی سماعت ہوئی، ایم کیوایم رہنما خواجہ اظہار،روف صدیقی،عامر خان اور دیگر پیش ہوئے، فاضل جج کی رخصت کے باعث سماعت 20جنوری تک ملتوی کردی۔ متحدہ بانی سمیت دیگر مفرور ملزموں کے ایک بار پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہے، متحدہ رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف ملک سے بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ 23 اگست کو قائد متحدہ کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے مشتعل کارکنان نے اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔ مظاہرین نے دفتر میں شدید توڑ پھوڑ کی، سیکیورٹی عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ خواتین سمیت دفتر میں موجود ملازمین کو ہراساں کیا گیا، واقعے کے بعد ایم کیو ایم رہنماؤں نے اپنے قائد کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ دو دھڑوں، ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن میں تقسیم ہوگئی۔ حملے میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ حملہ آوروں میں شامل خواتین کو بھی گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہائی ملی تھی۔