خبرنامہ سندھ

لندن اور کراچی آمنے سامنے۔۔۔۔!…….الیاس شاکر

ایم کیو ایم پاکستان کی مشکلات کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ایک مصیبت ٹلتی ہے تو دوسری سر اُٹھا لیتی ہے۔ 22 اگست سے 22 ستمبر تک ایک مہینے میں کئی اقدامات کئے گئے لیکن لندن سے ایک بیان ایم کیو ایم پاکستان کو پھر ”زیروپوائنٹ‘‘ پر لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ اعلانِ لاتعلقی کرنا پڑتا ہے، پارٹی رکنیت بھی منسوخ کرنا پڑتی ہے، آئین میں ترمیم کرنا پڑتی ہے۔ ایم کیو ایم کو اتنا نقصان آپریشنوں میں نہیں ہوا، اس سے زیادہ نقصان چندبیانات نے پہنچا دیا۔کبھی بانی ایم کیو ایم کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کرنا پڑی تو کبھی کنوینر ایم کیو ایم کو پارٹی سے ہی نکال باہر کرنا ناگزیر ہوگیا۔
کراچی میں دانشور حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب ندیم نصرت پارٹی کے کنوینر تھے تو انہیں ایسی بات کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی کہ وہ اپنی رکنیت ہی منسوخ کروا بیٹھے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے تمام شعبہ جات ختم کرنے کے فیصلے عجلت میں کئے۔ ندیم نصرت کا بحیثیت کنوینرایم کیو ایم پاکستان یہ پہلا اور آخری بیان تھا۔ سابق رکن رابطہ کمیٹی واسع جلیل تو ایک نجی ٹی وی پروگرام میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے سے گریز کرتے رہے۔ ایسی صورت حال میں ایم کیو ایم لندن سے کراچی کو کس طرح چلائے گی؟
ایم کیو ایم پاکستان کی پریشانی ایک طرف بڑھی ہے تو دوسری جانب انہیں تھوڑا ریلیف ضرور ملا ہے کہ انہیں”ڈومور‘‘ کہنے والے اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی واقعی لندن سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ایم کیو ایم کو اب لندن والوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ندیم نصرت کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب لاہور ہائیکورٹ ایم کیو ایم پر پابندی کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر رہی تھی۔ بھارت پاکستان میں فوجی کارروائیوں کے منصوبے بنا رہا ہے اور ملک کے وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ ندیم نصرت کی جانب سے اُن اراکین اسمبلی سے استعفوں کا مطالبہ حیرت انگیز ہے جنہوں نے بانی ایم کیو ایم کے خلاف غداری کے مقدمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملیر کی صوبائی نشست پر 15ہزار سے زائد ووٹ کس کے تھے؟ یہ سوال مصطفی کمال کی پارٹی ندیم نصرت سے کر لیتی تو وہ کیا جواب دیتے؟ بہت جلد کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے مزید ضمنی الیکشن ہونے والے ہیں جن میں دودھ کا دودھ اور پانی پانی ہو جائے گا کہ مینڈیٹ منشور اور کام کا ہے یا پھر پاکستان مخالف نعروں کا؟
ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں پارٹی کے بانی اور اپنے سابق قائد کے خلاف نہ صرف مذمتی قرارداد منظور کرائی بلکہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ خواجہ اظہار الحسن دوران تقریر آبدیدہ بھی ہوئے اور جذباتی بھی! ان کی کچھ باتیں ٹھیک بھی تھیں۔ انہوں نے اپنا حوالہ بھی دیا کہ ”مجھے میری والدہ نے ایم کیو ایم میں بھیجا کہ ان لوگوں کی اچھی صحبت میں رہ کر کچھ سیکھو۔ ہم اسکول اور کالج کا ہوم ورک بھی یونٹ آفسز میں کرتے تھے‘‘۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ یہ خواجہ اظہار الحسن بھی واضح نہ کر سکے ۔
سندھ کے شہری علاقوں کے ووٹ بینک پر سب کی نظر ہے لیکن یہ ووٹ کس کو ملیں گے؟ اس کے لئے عام انتخابات کے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال تو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے80 فیصد ورکرز ہمارے پاس آگئے ہیں، باقی 20 فیصدورکر بانی ایم کیو ایم کے ہوسکتے ہیں جبکہ فاروق ستار کے ساتھ تو صرف اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اور سینیٹر حضرات ہیں۔ اگر ان کی بات درست تسلیم کرلی جائے توایم کیو ایم ملک(پاکستان) کی واحد پارٹی ہوگی جس میں کارکنوں سے زیادہ تعداد پارلیمنٹیرینز کی ہے۔
ایم کیو ایم کے لئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون بانی کے ساتھ ہے اور کون فانی کے ساتھ؟ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم کی پارلیمانی قوت بکھر گئی اور شہری سیاست میں اہمیت کم یا ختم ہوگئی تو مخالفین کو گلے سے پکڑنے کا موقع مل جائے گا۔ رواں سال جماعت اسلامی نے کھالوں کے لئے اخبارات میں پورے صفحے کے اشتہارات دیے اور عید کے بعد عوام کا شکریہ بھی ادا کیا اور دعویٰ کیا کہ ہمیں سب سے زیادہ کھالیں ملیں۔ اکثر سیاسی جماعتیں ہر عیدِ قربان کے بعد یہ اعلان تو کرتی ہیں کہ پچھلے سال کے مقابلے میں ہمیں زیادہ کھالیں ملیں لیکن اُن کی خدمات میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوتا۔ بانی ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم پارٹی رہنمائوں سے کیا صلاح مشورے ہوتے ہیں؟ کیا بات چیت ہوتی ہے؟ کیا پلاننگ ہوتی ہے؟ کسی کوکچھ نہیں معلوم۔ ایم کیو ایم کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ اس پر بہت سے لوگ سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ”چپ‘‘کا روزہ بھی رکھا ہوا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ کراچی سے بہت سی اطلاعات لندن نہیں پہنچ پا رہیں۔کہیں اپنی کھال بچانے کا معاملہ ہے اور کہیں رینجرزکی نظروں سے اوجھل ہونے کی کوشش!
فاروق ستار نے کمال کردیا ہے کہ وہ تن تنہا اور کمزور نسلی بیک گرائونڈ کے باوجود بہت سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔ میمن کمیونٹی اتنی تکلیف سہہ نہیں سکتی لیکن فاروق ستار کی ہمت کو داد دینا چاہیے کہ اُس نے اپنے سر پر ایم کیو ایم کا بہت بڑا گٹھڑا سنبھال رکھا ہے۔ پاکستان میں اصلی کھیل ارکان قومی اسمبلی کے اس گروپ کو متحد رکھنے کا ہے جوکسی بھی وقت ”اِن ہائوس چینج ‘‘کے لئے اپنا کردار ادا کرسکے ۔
سب کو اقوام متحدہ کے اجلاس کا انتظار تھا اور اس اجلاس میں جذباتی باتیں کی گئیں۔ لیکن کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب ِ رائے کامطالبہ زور و شور سے نہیں کیا گیا جبکہ یہ تجویز خود اقوام متحدہ نے تسلیم کی تھی اور اس مطالبے سے شملہ معاہدے کی روح متاثر نہیں ہوتی۔ شملہ معاہدے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر مذاکرات کی میز پر حل کریں گے۔ اس معاہدے کو33 سال بیت گئے لیکن معلوم نہیں مذاکرات کی میز پر کیوں نہیں آ سکا؟ جس پر دونوں ممالک کے حکمران ساتھ بیٹھ سکیں۔ اِس بین الاقوامی مسئلے سے ہٹ کر ایم کیو ایم کی بات کی جائے کہ اب ایم کیو ایم کیاکرے گی اور کیا کرنے والی ہے؟ لگتا ہے کہ فاروق ستار کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتے کہ وہ لندن کی سب سے اہم شخصیت سے براہ راست ٹکرا جائیں اور لندن کی مذکورہ شخصیت نے بھی ابھی تک کوئی ایسی کارروائی نہیں کی کہ جس سے تمام دروازے بند ہوجائیں ۔ لگتا ہے کہ فاروق ستار ٹھنڈا کرکے کھانا چاہتے ہیں لیکن لندن میں موجود رابطہ کمیٹی صبر کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی بے تابی بتا رہی ہے کہ فاروق ستار کو مزید موقع نہ دیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ کو استعفوں کا مشورہ بھی یہی سوچ کر دیا گیا ہوگا کہ فاروق ستار کے ہاتھ میں جو پارلیمانی طاقت ہے وہ چھین لی جائے لیکن فاروق ستار بغیر لڑے یہ جنگ جیتنے کے لئے کوشاں ہیں۔ دن بدن اُن کی پریس کانفرنسز بھی مختصرہوتی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ خاموش رہ کر اشاروں اشاروں سے اپنا موقف اور منشوربیان کرتے رہیںگے۔ایک بات عیاں ہے کہ لندن اور کراچی کے درمیان جغرافیائی فاصلہ تو بہت تھا اب قلب ونظر کا فاصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔