خبرنامہ سندھ

کراچی میں 10لاکھ کیمرے لگانے کی ضرورت ہے ،اے ڈی خواجہ

کراچی (ملت آن لائن) انسپکٹر جنرل سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ میں ملوث دہشت گردوں تک فوری رسائی میں موبائل فون کا جیوفینسنگ ریکارڈ انتہائی اہم ہوتا ہے ، سندھ پولیس سمیت کسی بھی صوبے کی پولیس کو مذکورہ ریکارڈ تک رسائی حاصل نہیں ہے ، یہ اختیار صرف آئی ایس آئی اور آئی بی کے پاس ہے ، حکومت سندھ کو چاہئے کہ پولیس کو بھی اس ریکارڈ تک رسائی دینے کیلئے وفاقی حکومت سے بات کرے ۔ سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ نے کہا کہ ہمارے ملک کا افغانستان سے ایک وسیع بارڈر لگتا ہے ، وہاں سے آسانی سے گاڑیاں پاکستان میں داخل ہوتی ہیں،

جبکہ بلوچستان کے وڈھ اور خضدار کے علاقوں سے بھی موٹر سائیکلوں کے ذریعے دہشت گرد سندھ میں داخل ہوتے ہیں، شکارپور بم دھماکے میں بھی دہشت گرد بلوچستان سے آئے تھے ، بارڈر مینجمنٹ بہت بڑا مسئلہ ہے ، ہر جگہ چیکنگ کرنا مشکل ہے ، اس ضمن میں بلوچستان پولیس کے ساتھ ریگولر اجلاس ہوتے ہیں، کوئٹہ، خضدار اور دیگر جگہوں پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں، تاہم دہشت گردوں کا سندھ میں سو فیصد داخلہ روکنا مشکل ہے ۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ سٹی ڈسٹرکٹ پولیس کے زیر انتظام کیمرے پولیس کو منتقل ہوگئے ہیں جبکہ شہر میں مزید 10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جارہے ہیں، لیکن یہ کافی نہیں ہیں، کراچی میں 10 لاکھ کیمرے لگانے کی ضرورت ہے ،

اسی طرح حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ اور صوبہ کے دیگر بڑے شہروں میں بھی زیادہ تعداد میں کیمرے لگانا ضروری ہے ۔ ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر کے سوال کے جواب میں آئی جی نے کہا کہ کراچی میں اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار سادہ لباس میں کارروائیاں کرتے ہیں، جس بھی افسر کے خلاف کسی آدمی کو اغوا کرنے سے متعلق شکایت موصول ہوتی ہے اس افسر کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے ، اس طرح کے واقعات میں پانچ ایس ایچ اوز کے خلاف کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو بھیجے گئے ہیں،سندھ میں 80 فیصد تھانوں کی حالت خراب ہے ، تھانوں کی تعمیر کے منصوبے چار سال کے بجائے ایک سال میں مکمل کیے جانے چاہئیں۔

انہوں نے کہاکہ سانحہ درگاہ سیہون کے دھماکے میں استعمال ہونے والے بمبار کے بال مل گئے ہیں جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے بھیج دیا گیا ہے ، یہ غلط ہے کہ واقعہ کے دن درگاہ کے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے ، درگاہ میں 38 کیمرے کام کررہے تھے جن کے ذریعے فوٹیجز حاصل کیے گئے ، بمبار اور سہولت کار کافی دیر تک درگاہ میں بیٹھے رہے ، ان کے پاس موبائل فون تھے انہوں نے تصاویر بھی بنائیں، آئی ایس آئی کے ذریعے موبائل کمپنیوں سے فون کال ڈیٹا حاصل کیا گیا، 10 منٹ کے دوران مختلف فونز کے ذریعے ایک لاکھ 27 ہزار 557 کالیں اور پیغام بھیجے اور وصول کیے گئے ، ان میں سے 15 سو کالز کیلئے 57 موبائل فون استعمال ہوئے ،

جبکہ 177 مشکوک نمبرز پائے گئے ، کوئٹہ اور شکارپور سے 10 لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن تحقیقات کے دوران انہیں کلیئر قرار دیا گیا، درگاہ نورانی کے واقعہ کی طرح اس واقعہ کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کی تاہم ثابت نہیں ہوا، سیہون واقعہ میں لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کا شک ہے ۔ شکارپور واقعہ میں ملوث کفیل بروہی کے چار ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔