خبرنامہ

تاریک مادے سے بنی پراسرار کہکشاں دریافت

کنیکٹیکٹ:(اے پی پی) ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے کائناتی پڑوس میں ایک ایسی پراسرار کہکشاں دریافت کی ہے جس میں مادّے کی مقدار تو ہماری کہکشاں جتنی ہی ہے لیکن اس میں ہماری کہکشاں کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ستارے ہیں۔ اس پراسرار کہکشاں کو ’’ڈریگن فلائی 44‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو کوما کلسٹر نامی کہکشانی جھرمٹ میں واقع ہے۔ ماہرین نے حساب لگایا ہے کہ اس کہکشاں کا 99.99 فیصد حصہ تاریک مادے پر مشتمل ہے۔ اسے 2014 میں ماؤناکی، ہوائی میں نصب 2 طاقتور فلکیاتی دوربینوں کی مدد سے دریافت کیا گیا تھا لیکن اس میں مادے کی مقدار کا تجزیہ حالیہ مہینوں کے دوران ہی کیا گیا ہے جس کے بعد یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ تاریک مادہ وہ پراسرار مادہ ہے جس کی موجودگی صرف اس کے ثقلی اثرات (gravitational effects) کی مدد سے ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ کسی قسم کے کیمیائی یا طبیعی عمل میں حصہ نہیں لیتا اور نہ ہی کسی قسم کی روشنی خارج کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں سے روشنی بھی اس طرح گزرتی چلی جاتی ہے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات میں مادے اور توانائی کا تقریباً 27 فیصد حصہ اسی تاریک مادے پر مشتمل ہے جب کہ ہم، ہمارا سورج، سیارے، دیگر ستارے اور دوسرا قابلِ مشاہدہ مادہ و توانائی صرف 5 فیصد کائنات کی تشکیل کرتے ہیں۔ ڈریگن فلائی 44 کہکشاں ہم سے 32 کروڑ نوری سال دور ہے جس کے ستارے 47 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررہے ہیں۔ ان ستاروں کی حرکت اور سمت کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین نے حساب لگایا کہ اس کہکشاں میں مادے کی مجموعی مقدار ہمارے سورج کے مقابلے میں 10 کھرب گنا زیادہ، یعنی ہماری ملکی وے کہکشاں جتنی ہے لیکن اس میں صرف ایک کروڑ ستارے ہی دیکھے جاسکتے ہیں جو تعداد میں ہماری ملکی وے کہکشاں میں موجود ستاروں کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ ان قابلِ مشاہدہ ستاروں کی کمیت بھی اتنی نہیں جو ان کی حرکت کو واضح کرسکے۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈریگن فلائی 44 کی 99.99 فیصد کمیت تاریک مادے کی شکل میں ہے جو اس اب تک کی دریافت ہونے والی ’’تاریک ترین کہکشاں‘‘ بھی بناتا ہے۔ قبل ازیں اس سال کی ابتداء میں ’’ورگو‘‘ (سنبلہ) نامی کہکشانی جھرمٹ سے ایسی ہی ایک کہکشاں دریافت ہوئی تھی جس میں تاریک مادے کی مقدار 99.96 فیصد تھی، یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان دونوں دریافتوں کے بعد ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ شاید کہکشاؤں کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں ہمارے اب تک کے نظریات یا تو نامکمل ہیں یا پھر ان میں بہت زیادہ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ البتہ اس نکتے پر سنجیدگی سے کام کو آگے بڑھانے کےلئے انہیں ایسی کئی مزید کہکشائیں مصدقہ طور پر دریافت کرنا ہوں گی۔