خبرنامہ

دوہزار سولہ؛ انسانی تاریخ کا دوسرا گرم ترین سال

ہیوسٹن / لندن:(ملت+اے پی پی) ناسا، نوآ اور عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے ماہرین نے کہا ہے کہ 2016 انسانی تاریخ کا ایک اور گرم ترین سال ثابت ہوا ہے۔ 2016 کا اوسط درجہ حرارت 2015 کے اوسط سے 0.07 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا جبکہ یہ انسانی تاریخ میں 1880 کے بعد دوسرا گرم ترین سال بھی ثابت ہوا۔ علاوہ ازیں 1961 سے 1990 تک کے طویل مدتی عالمی اوسط درجہ حرارت کے مقابلے میں بھی یہ سال 0.77 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم رہا۔ اس پورے سال کے دوران خطِ استواء سے لے کر قطبین تک، دنیا کے کم و بیش ہر حصے میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت کا غلبہ رہا جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی مظہر ’’ایل نینو‘‘ (El Niño) کو قرار دیا جارہا ہے۔ البتہ اس ضمن میں انسانی سرگرمیوں خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بے تحاشا اخراج کو بھی دوسری اہم ترین وجہ بتایا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ بات تشویشناک ہے لیکن ماہرین کےلئے بالکل بھی غیر متوقع نہیں کیونکہ اس بارے میں وہ پہلے ہی پیش گوئی کرچکے تھے۔ ’’ایل نینو‘‘ بہت وسیع پیمانے پر واقع ہونے والا ایک قدرتی مظہر ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بھی بنتا ہے۔ اسی کے ساتھ انسانی سرگرمیوں کے باعث فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار میں شمولیت نے بھی عالمی ماحول کو گرمانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ 2017 کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ اس دوران ایل نینو کا زور ٹوٹ جائے گا جس کی بدولت یہ سال شاید پچھلے دو برسوں (2015 اور 2016) جتنا شدید گرم نہ رہے۔ اس کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو زمینی ماحول پر اپنے منفی اثرات کم سے کم کرنا ہوں گے ورنہ شاید عالمی ماحول اس مقام پر پہنچ جائے جہاں اس کی دوبارہ سے بحالی ممکن نہ ہوسکے۔ ماحول سے متعلق سائنسی تحقیقات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کا دعوی ہے کہ ان اعداد و شمار میں انسانی سرگرمیوں کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے؛ تاہم درجہ حرارت میں اضافے سے انکار کرنا اب ان کےلئے بھی ممکن نہیں رہا ہے۔