خبرنامہ

زمین سے مماثلت رکھنے والا سیارہ دریافت

لندن: ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے نظامِ شمسی کے باہر ایک ایسا زمین نما پتھریلا سیارہ دریافت کیا ہے جو ہم سے 4.25 نوری سال دُوری پر واقع ہے یعنی روشنی کو وہاں سے ہم تک پہنچنے میں ’’صرف‘‘ سوا چار سال لگتے ہیں۔ کوین میری یونیورسٹی آف لندن کے ماہرینِ فلکیات نے یورپین سدرن آبزرویٹری (یورپی جنوبی رصدگاہ) کی 2 فلکیاتی دوربینوں سے طویل عرصے تک کیے گئے مشاہدات سے استفادہ کیا۔ ڈوپلر اثر کی بنیاد پر یہ مشاہدات پہلے 2000 سے 2014 کے درمیان، اور بعد ازاں جنوری تا مارچ 2016ء میں کیے گئے۔ محتاط تجزیئے اور خاصی چھان پھٹک کے بعد ماہرین نے اطمینان کیا کہ انہوں نے سورج کے بعد دوسرے قریب ترین ستارے ’’پراکسیما سینٹوری‘‘ کے گرد نیا نظام شمسی دریافت کرلیا ہے یعنی اس سیارے کے گرد بھی ہمارے نظام شمسی کی طرح مختلف سیارے گردش کررہے ہیں۔ ماہرین فلکایت نے ’’پراکسیما سینٹوری‘‘ ہی کے گرد گردش کرنے والے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کی کمیت ہماری زمین کے مقابلے میں صرف 1.3 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین ہی کی طرح پتھریلی سطح رکھتا ہے۔ اس سیارے کو ’’پراکسیما بی‘‘ (Proxima b) کا نام دیا گیا ہے۔ مشاہدات سے پتا چلتا ہے کہ ’’پراکسیما بی‘‘ میں مائع حالت میں پانی موجود ہوسکتا ہے جو زندگی کی اولین شرط بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پراکسیما بی اب تک دریافت ہونے والا وہ قریب ترین ماورائے شمسی (extrasolar) سیارہ بھی ہے جس کا ماحول اور درجہ حرارت (ممکنہ طور پر) زمین سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیںاور وہاں زندگی بھی موجود ہوسکتی ہے۔ البتہ یہ دریافت چونکہ بڑی اہمیت رکھتی ہے اس لیے تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں مقالے کی اشاعت سے پہلے ہی مختلف ذرائع نے اس بارے میں افواہیں اور غیر مصدقہ خبریں پھیلانا شروع کردی تھیں جن میں درست معلومات کا فقدان تھا تاہم گزشتہ روز تحقیقی مقالہ شائع ہونے کے بعد اس کی صحیح تفصیلات سامنے آئی ہیں’پراکسیما بی‘ کا اپنے مرکزی ستارے (پراکسیما سینٹوری) سے فاصلہ صرف 75 لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ صرف 11.2 زمینی دنوں میں پراکسیما سینٹوری کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرلیتا ہے۔ اپنے مرکزی ستارے سے اس کا فاصلہ زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کے مقابلے میں صرف 5 فیصد ہے جو بہت کم ہے لیکن پراکسیما سینٹوری ہمارے سورج کے مقابلے میں بہت کم گرم ہے جس کی بدولت پراکسیما بی کی سطح کا درجہ حرارت بھی زندگی کے لیے مناسب ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام تر شواہد کے باوجود ابھی اس سیارے پر زندگی موجود ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ پراکسیما سینٹوری کا درجہ حرارت کم ہونے کے باوجود اس کی سطح سے خارج ہونے والی ایکسریز اس سیارے پر زندگی کی وجود پذیری کو ناممکن بناسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’پراکسیما بی‘‘ کے کرہ ہوائی اور سطح کا مزید تفصیلی اور محتاط تجزیہ کرنے کے لیے مزید 10 سال کا وقت مانگا ہے۔ اگر تب بھی وہاں زندگی کے لیے حالات سازگار محسوس ہوئے تو شاید اگلی صدی میں روبوٹ خلائی کھوجی وہاں بھیجے جائیں گے۔