خبرنامہ

سائنسدانوں نےمقناطیسی حس کےحصول کیلیےمصنوعی کھال تیارکرلی

ڈریسڈن:(اے پی پی) جرمن تحقیقی ادارے ہیلم ہولٹز زینٹرم نے ایک ایسی مصنوعی کھال تیار کرلی ہے جو مقناطیسیت کو محسوس کرسکتی ہے اور مستقبل کے انسانوں کو ممکنہ طور پر چھٹی ’’مقناطیسی حس‘‘ بھی عطا کرسکتی ہے۔ بہت سے جانوروں اور پرندوں میں قدرتی طور پر زمینی مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ بلکہ لمبے فاصلوں تک سفر کرنے والے بعض پرندے نہ صرف زمینی مقناطیسی قوت میں صرف 2 فیصد جیسی معمولی تبدیلی کو محسوس کرسکتے ہیں بلکہ وہ اسی ارضی مقناطیسیت سے رہنمائی لیتے ہوئے ہزاروں میل دور اپنی منزل تک بھی بالکل درست طور پر پہنچ جاتے ہیں۔ انسانوں میں یہ صلاحیت قدرتی طور پر موجود نہیں ہوتی لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تیار کردہ مصنوعی کھال کو پہن کر انسان بھی اس قابل ہوجائیں گے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود آلات سے پیدا ہونے والے مقناطیسی میدان کو محسوس کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے مستقبل کے انسان کی چھٹی مقناطیسی حس بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ مقناطیسی کھال بنانے کے لیے سب سے پہلے ماہرین نے ایک مائیکرومیٹر جتنے باریک پلاسٹک کی پنّی میں مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے والے انتہائی مختصر سینسرز شامل کیے۔ اس کے بعد انہوں نے اس پر بہت ہی باریک پنیاں چپکائیں جنہوں نے اسے بہت لچکدار اور کھینچے جانے کے قابل بنادیا۔ مقناطیسی میدان کی موجودگی کا اشارہ دینے کے لیے اس کے ساتھ ایل ای ڈیز منسلک کی گئیں اور یوں یہ کھال تیار کرلی گئی۔ آزمائشوں کے دوران معلوم ہوا کہ یہ مصنوعی کھال صرف ایک ملی ٹیسلا یا اس سے بھی کم شدت والے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مقناطیسی میدان کی یہ شدت، ریفریجریٹر سے پیدا ہونے والی مقناطیسیت سے بھی کئی گنا کم ہوتی ہے۔ البتہ سائنسدانوں نے واضح کیا کہ مقناطیسی چھٹی حس کا مقصد انسانوں کو مقناطیسیت محسوس کرنے کے قابل بنانا ہر گز نہیں بلکہ طبّی تشخیص کے عمل کو آسان اور تیز رفتار بنانا ہے کیونکہ کئی ایک امراض کی تشخیص میں جسم کے نہایت خفیف سے مقناطیسی میدان اور اس میں ہونے والی انتہائی معمولی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے بیشتر آلات (بشمول ایم آر آئی) بہت بڑے اور بھاری بھرکم ہوتے ہیں جنہیں بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے۔