خبرنامہ

لگتا ہےدو چارکلرک ہی وفاقی حکومت چلا رہے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ورکرز ویلفیئر فنڈز ڈیپوٹیشن ملازمین کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں کا اس طرح مذاق نہیں اڑایا جاتا، لگتا ہے دو چار کلرک ہی وفاقی حکومت چلا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ورکرز ویلفئیر فنڈز ڈیپوٹیشن ملازمین کے خلاف کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ وصی ظفر نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلریکل غلطی ہے، فیصلے میں درخواست گزار کا نام بھی ڈیپوٹیشن ملازمین کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں ہے، وفاقی حکومت ریاست چلاتی ہے یا دو چار بندے، مجھے لگتا ہے دو چار کلرک ہی حکومت چلا رہے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کیا ہو رہا ہے، بعض دفعہ مقدمے کو اس لیے طول نہیں دیتے کہ حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک جواب داخل کرائیں، جواب آنے کے بعد دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

کے پی حکومت اور ٹھیکے دار تنازع کیس
علاوہ وزیں قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خیبرپختونخوا کے میں حکومت اور ٹھیکے داروں میں اجناس کی قیمت پر تنازع کیس میں ریمارکس دیئے کہ کے پی حکومت اپنی بے بسی ظاہر نہ کرے، آپ ریاست ہیں، آپ کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کلرک افسر اور منشی ملے ہوئے ہوتے ہیں، پیسے لے کر معاملات میں تعطل کیا جاتا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکے پی کے میں حکومت اور ٹھیکے داروں کے درمیان اجناس کی قیمت کی پر تنازع کیس کی سماعت کی۔

وکیل کنٹریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ 2007 اور 2008 میں ٹرانسپورٹرز کو کراچی سے پشاور اجناس لینے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا، جس کے بعد 41 فیصد اضافے کے ساتھ ٹھیکے میں ایک سال کی توسیع دی گئی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ صوبائی حکومت کو سمجھ نہیں آیا کہ پشاور ہائیکورٹ نے رٹ پٹیشن پر فیصلہ کیسے دیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ زائد المیعار اپیل فائل کی وجوہات بیان کرنے کے لیے وقت دیا جائے، جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔