خبرنامہ

گرمی میں جسم کو ٹھنڈا رکھنے والا لباس تیار

کیلیفورنیا: اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے انجینئروں نے پلاسٹک پر مبنی ایک ایسا کم خرچ کپڑا بنالیا ہے جس سے تیار کردہ لباس پہننے والے کو گرمیوں میں کسی پنکھے یا ایئرکنڈیشنر کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہ لباس اس کے جسم کو ٹھنڈا رکھے گا۔ عام کپڑے پسینہ جذب کرتے ہیں اور اسے تبخیر کے عمل سے ہوا میں تحلیل کرتے ہوئے پسینے کے ساتھ ساتھ گرمی بھی نکال باہر کرتے ہیں۔ یعنی ہمیں ٹھنڈک پہنچانے کا باعث بنتے ہیںاسٹینفرڈ یونیورسٹی میں ایجاد کیے گئے اس ’’پلاسٹک کپڑے‘‘ میں تبخیر کے ذریعے ٹھنڈک پہنچانے کی صلاحیت تو موجود ہے ہی لیکن جسم کو ٹھنڈا رکھنے والی ایک اور اضافی خاصیت بھی ہے۔ اس میں سے گرمی کی لہریں یعنی انفرا ریڈ شعاعیں بھی آرپار گزر سکتی ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ جسم کی اندرونی گرمی اس کپڑے سے گزرتی ہوئی باہر چلی جاتی ہے اور جسم کو ٹھنڈا رہنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ خاصیت عام لباس میں موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ گرمی کی لہروں کو اپنے اندر سے گزرنے سے روکتا ہے۔ کمبل اور گرم لباس میں کپڑے کی یہ حرارت روک خاصیت زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین نے یہ نیا کپڑا تیار کرنے کے لیے عام پلاسٹک یعنی پولیتھین استعمال کیا ہے اور اس میں کیمسٹری، نینو ٹیکنالوجی اور فوٹونکس سے بیک وقت استفادہ کرتے ہوئے ایسی تبدیلیاں کیں جو اس میں کئی ضروری خصوصیات پیدا کرتی ہیں۔ یعنی یہ کسی کپڑے کی طرح اس میں سے بھی پانی اور ہوا کا گزر ہوسکتا ہے جب کہ اضافی طور پر حرارتی شعاعیں بھی اس میں سے بہ آسانی گزرسکتی ہیں۔ ریسرچ جرنل ’’سائنس‘‘ میں اس ایجاد سے متعلق شائع ہونے والی رپورٹ میں اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ انسانی جسم سے گرمی کا 60 فیصد حصہ انفراریڈ شعاعوں کی شکل میں خارج ہوتا ہے جب کہ اس پلاسٹک کپڑے کے استعمال سے (عام لباس کے مقابلے میں) گرمیوں میں جسمانی درجہ حرارت 4 درجے فیرن ہائیٹ تک زیادہ سرد کیا جاسکے گا۔ شدید گرمی کے موسم میں ایک ڈگری کا فرق بھی بہت معنی رکھتا ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ بجلی کی بچت ہے۔ مطلب یہ کہ گرمی میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ایئر کنڈیشنر چلانے کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے۔ یہ پلاسٹک لباس استعمال کرنے پر چونکہ پہننے والوں کو جسمانی ٹھنڈک حاصل ہوتی رہے گی اس لیے ایئر کنڈیشنر کی ضرورت بھی بہت کم رہ جائے گی۔ پلاسٹک لباس روشنی کے لیے غیر شفاف ہے۔ یعنی اسے مختلف رنگ دے کر خوبصورت ’’ڈیزائنر سوٹ‘‘ بھی بنائے جاسکیں گے جن میں بے پردگی کا مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔