خبرنامہ

آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ بارے ایک تجزیہ…اسد اللہ غالب

آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ بارے ایک تجزیہ…اسد اللہ غالب

میں یہ کالم جنوبی وزیرستان میں شہید ہونے والے تین جوانوں کے گرم گرم لہو میں قلم ڈبو کے لکھ رہا ہوں۔پاک فوج شہادتوں کے اس مہکتے گل و گلزار پر فخر کرتی ہے۔
پاکستان خلیج کے دہانے کا قلعہ دار ہے اور جنرل قمر جاویدباجوہ اس قلعے کا سپا ہ سالارہے۔
یہ دسمبر انیس سو چھیاسی کی بات ہے۔ مجھے کوالالم پور میں ڈیلی سن فجی کے ہمدو ایڈیٹر ستندراشاندل نے کہا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنتا تو دنیا کے نقشے پر ایک نکتے کی مانند ہمارے ملک کو بھارت ہڑپ کر چکا ہوتا۔
سن دو ہزار میں پیٹیگان کے جرنیلوں نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی وسیع تجارتی منڈیوں کو ترجیح دینے کی بات کی تو مجھے ان کی بات کاٹ کر کہنا پڑا کہ پاکستان آپ کی تجارتی منڈی کے لئے تو ترجیح نہیں لیکن کسی بھی علاقائی آ ویزش میں پاکستا ن کی ا سٹریٹیجک اہمیت کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔
آج پاکستان علاقائی آویزش میں ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ عالمی تجارتی آویزش کا فیصلہ کن فریق ہے اور چین کے بلڈ اینڈ روڈ انشی ایٹو کی کامیابی کے لئے سی پیک ہی چین کو تین بر اعظموں کی تجارت پر حاوی کر سکتا ہے۔
یہ ہے وہ نیا دنگا جس کا فیصلہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے اور ا س پاکستان کی دفاعی کمان کا بٹن جنرل قمر جاوید کے ہاتھ میں ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ خاموش طبع ضرور ہیں مگر کسی بھی چیلنج کے سامنے وہ شمشیر بکف نظر آتے ہیں۔ وہ ابھی اپنے موجودہ منصب کے لئے نامزد نہیں ہوئے تھے کہ ن لیگ کی ایک حلیف پارٹی کے سینیٹر ساجد میر نے ان پر پہلی بوچھاڑ کی۔ تین سال گزارنے کے بعد جنرل باجوہ کی توسیع کا مسئلہ سامنے آیا تو ایک دنیا ان کے خلاف صف آرا تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ اس عہدے پر جنرل قمر باجوہ نہ ہوتے اور خاموش کردار ادا نہ کر رہے ہوتے تو نجانے ہمارا کیا حشر ہوتا۔ بھارت تو ہر وقت غراتا ہے اور پاکستان میں گھس کر مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے، اس نے یہ شوق پورا کرنے کی کوشش بھی کی ا ور جنرل باجوہ کے ہاتھوں منہ کی کھائی۔ جنرل قمر باجوہ نے بھارت اور ارد گرد کے تین ہزار کلو میٹر کے علاقے کو میزائلوں کے نشانے پر رکھ لیا۔ پھر دنیا کو ہوش کے ناخن لینے پڑے اور بھارت نے گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ بند کر دیا۔ مگر جب کشمیر میں آ رٹیکل تین سو ستر والا وار کیا تو اس کا جواب پاکستان کے آزمودہ دوست چین نے دیاا ور لداخ کے تین محاذوں پر بھارت سے سترہ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ صرف مکوں ٹھڈوں اور کنگ فو چاقوؤں کی مدد سے چھین لیا۔ بھارت اپنی لاشیں اٹھاتا رہ گیا۔
موجودہ حکومت کو ورثے میں ایک لٹا پٹا پاکستان ملا۔ دو سابقہ حکومتوں نے فالودے والوں، گول گپے والوں، مالشیوں، باورچیوں اور سکیورٹی گارڈوں کے اکاؤنٹ لبا لب بھرے اور پھر منی لانڈرنگ کر کے پاکستان کے باہر کے بنکوں کو لبا لب بھر دیا تو پاکستان کی معیشت آئی سی یو کے وینٹی لیٹر پر چلی گئی۔ پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پرتھا۔ اس مر حلے پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمال کی سفارت کاری کا ہنر آزمایاا ور چین، سعودی عرب اورقطر کے دورے کر کے پاکستان کے زرمبالہ کے ذخائر کو اس سطح پر پہنچایا کہ حکومت کے لئے آسودگی پید اہو گئی۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ فوج نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ تک نہیں مانگا۔
کچھ عناصرکو آرمی چیف کے غیر ملکی دورے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ان دوروں پر اعتراض حکومت وقت کو ہونا چاہئے مگر تڑپ اپوزیشن کو لاحق ہو تی ہے۔ پچھلے بیس برسوں میں امریکی، برطانوی، نیٹو کے فوجی سربراہ پاکستان کے دوروں پر لگا تار آتے رہے۔دفاعی اور اسٹریٹیجک معاملات تو فوج اور فوج کے درمیان ہی زیر بحث آتے ہیں اور طے پاتے ہیں۔ اور یہ کام جنرل قمر باجوہ نے انجام دیاا ور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔
پاکستان میں انتخابی نتائج پر ہمیشہ انگلیاں اٹھائی گئیں۔ کہ جاتا ہے کہ الیکشن میں پہلا جھرلو ایک آئی جی قربان علی نے چلایا۔ دوسرا جنرل یحی خان نے چلایاا ور ایسا،مینڈیٹ پیش کیا جس نے قوم ا ور ملک کو تقسیم کر دیا،۔ اسی الیکشن میں جمہوریت کی علم بردار پی پی پی کے سربراہ اور بانی بھٹو صاحب سویلین چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر بنے۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن اس جنرل ٹکا خان نے کیا جسے بھٹو نے گل حسن کو ہٹا کر آرمی چیف بنایاا ور پھر یہی ٹکا خان گورنر بنے اور پی پی پی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے۔ نواز شریف کو جنرل جیلانی سیاست اور حکومت میں لائے۔ جنرل حمید گل نے کھلے عام آئی جے آئی بنوائی اور نواز شریف کی وزارت عثمی کی راہ ہموارکی۔ عمران خان اگر کہ دے کہ وہ اور فوج ایک پیج پر ہیں تو اس میں کونسی برائی ہے۔ فوج آئینی طور پر حکومت کے تابع ہے۔ جیسے تمام ریاستی ادارے حکومت کے تابع ہوتے ہیں مگر ہماری بیورو کریسی نئے کبھی حکومت وقت کے ساتھ وفا نہ کی۔ فوج کرے تو اسے شاباش ملنی چاہپئے۔
وزیر اعظم عمران خان ریکارڈ پر ہیں کہ فوج نے کبھی ان کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے بلکہ پی ٹی آئی کے منشور کو کامیاب بنانے میں مدد کی، منشور میں لکھا ہے کہ افغان مسئلہ کا حل لڑائی میں نہیں،مذاکرات میں ہے۔ ہابھی نندن کو رہا کیا تو فوج نے نہیں روکا ٹوکا۔ اس سے پہلے بھارت سے دوستی کی کوشش کی تو فوج آ ڑے نہیں آئی بلکہ کرتارپور راہداری کا اقدام مل جل کر مکمل ہوا۔ خارجہ پالیسی کے اہداف میں حکومت اور فوج اکٹھے ہیں، حکومت چین کو ماڈل سمجھتی ہے اور فوج ساتھ دے رہی ہے۔ملک میں آفتیں آئیں تو فوج کے سوا کوئی ادارہ ایسانہیں جو ان آفتوں میں عوام کی مدد کر سکے،کراچی کی بارشوں کی تباہی سے فوج نے لوگوں کو ریسکیو کیا۔ اس کردار کے بعد توفوج شاباش کی مستحق ہے۔اور ایک تھپکی جنرل قمر جاوید باجوہ کے لئے بھی۔