خبرنامہ

بھارت کی فضائی جارحیت اور ہماری سوچ بچار…اسد اللہ غالب

بھارت کی فضائی جارحیت اور ہماری سوچ بچار…اسد اللہ غالب

کچھ سوالات ہیں جن کا جواب سامنے آنا چاہئے ۔ سوال پوچھنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے ، جواب تسلی بخش مل جائے تو قوم کو اس سے دلی اور جذباتی اطیمان اورسکون حاصل ہو گا۔
میرا خیال ہے کہ میں بے حد کند ذہن واقع ہوا ہوں۔میں نے تو عندیہ دیا تھا کہ بھارت ہمارے خلاف آبی جارحیت کر کے ہمارا قبرستان بنا دے گا ۔ میرے ذہن کے کسی کونے میں کوئی وسوسہ تک نہ تھا کہ بھارت فضائی جارحیت پر اتر آئے گا، اس لئے کہ میرے ملک کے وزیر اعظم کہہ چکے تھے کہ بھارت نے کوئی شرارت کی تو پاکستان کسی سوچ میں نہیں پڑے گا بلکہ بھارت کے خلاف کاروائی کرے گا۔ اس سے بھارت کو سمجھ آ جانی چاہئے تھی کہ اسے کیا جواب ملے گاا ور یہ جواب ملنے کا خدشہ یا خطرہ ہو تو بھارت ہو یا کوئی اور طاقت ،پاکستان کی طرف کسی کو میلی نظر سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی۔
بھارت نے رات کے اندھیرے میں کاروائی کی مگر ہم کیوں اندھیرے میں رہے۔ بھارتی میڈیا کے دعوے کے مطابق یہ کاروائی بیس منٹ تک جاری رہی۔اس کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے بارہ میراج طیارے گوالیار کے اڈے سے اڑے اور دس منٹ بعد وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری فضائی حدود میں گھس آئے تھے۔ اس کاروائی میں ہمار ا کوئی جانی نقصان ہو ا یانہیں، یہ سوال اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کے بارہ طیارے اپنے اڈے سے اڑے،کیا ہم ان کی اڑان پر نظر نہیں رکھ سکے اور جب یہ طیارے بیس منٹ تک لائن آف کنٹرول پربمباری میں مصروف تھے تو ہم نے ان کی موجودگی کو کس وقت محسوس کیا ۔ میرا یہ سوال صرف ٹائم لائن جاننے تک محدود ہے ۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب چودہ فروری سے حالات سنگین صورت اختیار کر چکے تھے۔ بھارت نے یہ دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو سخت سزا دی جائے گی ا ور ہم بھی کہہ چکے تھے کہ ہم سوچیں گے نہیں بلکہ کاروائی کر گزریں گے تو ا س دوران پاک سرحد اور کنٹرول لائن پر ائیر ڈیفنس سسٹم نصب کیا گیا یا نہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہمارے لڑاکا طیاروں کو پشاور یا سرگودھا سے پرواز کر کے کنٹرول لائن تک پہنچنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ جیسے ستر کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ نے مصر اور شام کے راڈاروز کو اندھا کر دیا تھا اور مصری اور شامی فضا اسرائیل کے لئے بالکل کھل گئی تھی یا ایبٹ آباد پر امریکی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں بھی ہمارے راڈار سسٹم کوجام کر دیا گیا تھا یا جان بوجھ کر ہم نے ان سے صرف نظر کیا تو بھارتی فضائی جارحیت میں ان میں سے کونسی ممکنہ صورت حال دیکھنے میں آئی۔
بھارتی طیاروں کاتین سے چار میل تک اندر گھسنے کا مطلب کیا ہے۔یہ کھلی ننگی جارحیت ہے۔ اور قوم کو امید تھی کہ پاکستان ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بھارتی طیاروں کو مکھی مچھروں کی طرح مار گراتا، کارگل کی جنگ میں دو بھارتی طیاروں نے جارحیت کی ، پاک فضائیہ نے ایک طیارے کو اپنے علاقے میں مار گرایااور دوسرا طیارہ بھاتی علاقے میں جا گرا۔ا سکاپائلٹ ہلاک ہو گیا تھا اور پاکستان میں گرنے والے پائلٹ کی جان بچ گئی تھی ، اسے جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا اور بعد میں رہا بھی کردیا گیا۔
اس بار ہم نے فوری جوابی کاروائی کیوں نہ کی جبکہ وزیر اعظم قوم سے وعدہ کرچکے تھے کہ سوچنے کے بجائے ہم کاروائی کریں گے،حقیقت یہ ہے بھارتی فضائی جارحیت کو گھنٹوں گزر گئے ہیں اور ہم ابھی تک سوچ بچار میں غرق ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کی پابندی کی جائے۔ یہی پارلیمنٹ اپنے فیصلے چودہ فروری کے بعدسو بار کر سکتی تھی۔ اس نے ایساکیوں نہ کیا اور اس بات کا انتظار کیوں کیا کہ بھارت جارحیت میں پہل کر لے۔ میں افواج پاکستان سے کوئی سوال پوچھنا نہیں چاہتا کہ جمہوری نظام میں وہ حکومت وقت کے حکم کی پابند ہوتی ہیں ورنہ پینسٹھ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھ میں کمان تھی۔ انہوں نے بھارت کی ننگی جارحیت پر دشمن کو قرار واقعی سزا دی تھی۔بھارت نے چوروں کی طرح سیاچین پر قبضہ کیا تو جنرل ضیا نے یہ تو کہا کہ سیا چین میں گھا س تک نہیں اگتی مگر اس کے دورسے آج تک پاک فوج سیاچین میں بھارتی جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں پارلیمنٹ نے جنرل کیا نی اور بعد میں جنرل راحیل شریف کو کاروائی کی آزادی دی تو پاک فوج نے قیمتی جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کا خاتمہ کر دکھایا۔ جنرل مشرف ہی کے دور میں ممبئی سانحے کے بعد بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر فوج جمع کر دی تو پاک فوج بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مورچہ زن ہو گئی تھی۔ اور ہمارے میزائل عین سرحد پر نصب کر دیئے گئے تاکہ مار کی آخری حد تک پہنچ سکیں۔
پاکستان کے لئے بہترین آپشن تو یہی ہے کہ وہ بھارت کی انگیخت میں نہ آئے اور دنیاکے سامنے ایک پرامن رویہ اختیار کرے۔ پاکستان جنگ جو ملک نہیں ہے۔ نہ بھارتی الزامات کے مطابق کشمیری حریت پسندوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ یقینی طور پر پاکستان کی خواہش ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور بھارتی فوج ظلم و تشدد کا سلسلہ بند کر دے۔
کسی ایک جارحانہ کاروائی پر کوئی ملک آل آؤٹ جنگ نہیں چھیڑ سکتا۔جب ایبٹ آباد پر امریکی حملہ ہوا تومیں نے جنرل نصیر اختر سے پوچھا تھا کہ اگر امریکی ہیلی کاپٹروں کو روکنے کی کوشش کی جاتی تو کیا پاک امریکہ جنگ چھڑ سکتی تھی ۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہر گز نہیں۔ امریکی فوج نے ایران میں ایک ناکام کاروائی کی مگر اس پر ایران امریکہ جنگ شروع نہیں ہوئی۔
بر صغیر میں آل آؤٹ جنگ کا تصور کرنا نری حماقت ہے کیونکہ پاکستان کہہ چکا ہے کہ وہ کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ دونوں کے پاس طرح طرح کے میزائل بھی ہیں۔ مگر ان کے استعمال کا مطلب دو ارب آبادی کی موت ہے۔ ایسی تباہی کا رسک دونوں طرف کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہو گا۔ میرے مرشد مجید نظامی کا کہنا تھا کہ ایٹمی جنگ میں پاکستان تو نہیں بچے گا مگر دنیا میں پچاس سے زیاد ہ اسلامی ملک اور بھی موجود ہوں گے،دوسری طرف واحد ہندو ریاست کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ یہ کام بھارت کے سوچنے کا ہے کہ خدا نخواستہ پاکستا ن کو مٹا کر وہ خود بھی مٹنے کو تیار ہے۔
پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس کی بات ہو رہی ہے، یہ کانفرنس موجودہ حالات مین ممکن نہیں ۔ اس کانفرنس کے کئی سیشن کرناپڑیں گے۔ کچھ سیشن نیب کے سیف ہاؤسوں میں ، کچھ سیشن کوٹ لکھپت اور اڈیالہ جیل میں اور کچھ وزیر اعظم ہاؤس میں۔ اوراس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کانفرنسوں کے نتیجے میں قومی یک جہتی کی فضا پیدا ہو سکے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن سنگین محاذ آرائی میں الجھی ہوئی ہیں۔ اور کوئی بھی دوسرے کو ڈھیل نہیں دینا چاہتا۔ جبکہ قومی اتحاد کے لئے سب کو اپنے رویؤں میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ اللہ کرے ایسا ہو سکے۔
منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھارت کو کشمیریوں کے رد عمل کو برداشت کرنا پڑے گا اور ان کی امنگوں کااحترام بھی کرنا ہو گا اور پاکستان کو بھارت کی سرجیکل اسٹرائیکوں پر صبر کا گھونٹ پینا پڑے گا۔
آج پھر وہی ہوا۔ مین کالم مکمل کر چکا تو وزیر خارجہ کی بریفنگ شروع ہو گئی۔میں اس پرکوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس میں اعلانات ہی اعلانات ہیں۔بھارت کے خلاف کسی فوری اقدرام کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ جہاں تک انہوں نے اسلامی کانفرنس کی ایک رام کہانی سنائی ہے تو میں قوم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مراکش میں مسجد اقصی کی آتش زنی پر اسلامی کانفرنس کا اجلاس بلایا گیا تو اس میں بھی بھارت کے وزیر خارجہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ مگر پاکستانی وفد کے سربراہ جنرل یحی نے اپنے وفد کے ارکان سے کہا کہ وہ پیک اپ کر لیں ،۔ جہاز کے انجن اسٹارٹ کر دیئے گئے تھے تو اسلامی کانفرنس نے بھارتی وزیر خارجہ کو اجلاس سے نکال باہر کیا تھا۔ آج جب جدہ میں اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا گیا ہے تو پاکستان کس سوچ میں پڑ گیا ہے۔ کیوں پڑ گیا ہے۔ کیا یحی خان قبر سے اٹھ کر فیصلہ کرتے