خبرنامہ

جنوبی پنجاب کا صوبہ۔ اہم پیش رفت…اسداللہ غالب

بسم اللہ
انداز جہاں۔اسداللہ غالب

جنوبی پنجاب کا صوبہ۔ اہم پیش رفت

تحریک انصاف کے منشور کے مطابق جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کی طرف عملی اقدامات کاا ٓغاز کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بعض وضاحتیں کی ہیں اور خود حکومتی ترجمانوں کی طرف سے ٹھوس اعلانات سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہزارہ صوبہ کی تحریک ایک بار تو زوروں پر چلی مگر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے منشور میں ایساکوئی وعدہ نہیں کیا گیا،۔ سندھ میں کراچی اور اندرون سندھ کودو حصوں میں بانٹنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر کسی پارٹی نے اسے اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا سو یہ تجویز اپنی مو ت ا ٓپ مر گئی۔ پنجاب کو دو تین حصوں میں تقسیم کی باتیں ہوتی رہی ہیں مگر ان میں سے صرف جنوبی پنجاب کے صوبے کو پی ٹی آئی کی حکومت نے پذیرائی بخشی ہے۔
انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل میں کوئی امر مانع نہیں سوائے اس کے کہ اس کے لئے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جائے۔ جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام کے لئے حکومت نے اپنا عندیہ دے دیا ہے، اب یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ سناتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ موجودہ صوبہ پنجاب اس قدر بڑا صوبہ ہے کہ اسے تخت لاہور سے کنٹرول کرنا ممکن نہیں اسی لئے دور دراز کے علاقوں کے عوام کو محرومیوں کااحساس ہوتا ہے۔ رحیم یار خان۔ بہاولنگر۔ ڈی جی خان کے لوگ اپنے رو زمرہ کے کاموں کے لئے لاہور کے پھیرے لگانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پڑوس میں مشرقی پنجاب کو تین صوبوں میں بانٹا جاچکا ہے،۔ اس کے علاوہ بھی بھارت میں نت نئے صوبے بنے ہیں۔نئے صوبوں کا قیام درا صل انتظامی ضرورت ہوتا ہے مگراس کے سیاسی عوامل بھی مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔ محض لسانی بنیادوں پر تو صوبوں کی تشکیل نہیں کی جا سکتی مگر دوریوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں،امریکہ ایک بر اعظم ہے اورا سکی بھی پچاس سے زیادہ ریاستیں ہیں جو وفاق کے ماتحت بھی ہیں اور ان کو خود بھی بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ان کی اپنی سینیٹ اور ریاستی اسمبلی ہوتی ہے۔ ہر ریاست کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے۔ ضروری نہیں کہ وفاقی قوانین ریاستوں پر مسلط کئے جائیں۔ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے مگر اس کے بھی ان گنت صوبے ہیں اور انہیں بڑی حکمت سے چلایا جا رہا ہے۔
دنیا میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ملکوں کی سرحدیں بھی عملی طور پر ختم کر دی گئی ہیں۔ یورپی ممالک میں ایک ویزے کے ساتھ کوئی بھی کسی ملک میں جاسکتا ہے۔ ایک طرف متحد ہونے کا رجحان ا ور دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک میں نئے صوبوں کے مطالبے، بہر حال ہر ملک کے اپنے تقاضے ہیں اور اپنی ضرویات ہیں۔ ا سلئے جنوبی پنجاب کے لوگ الگ صوبے کی مانگ کررہے ہیں تو ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ضرورت کیو ں ہے۔ ماضی میں بہاوپور کی الگ ریاست بھی کام کرتی رہی ہے جسے مغربی پاکستان اور پھر پنجاب میں ضم کر دیا گیا، ملتان کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہاں سے بھی پنجاب پر راج کیا گیا، سکھوں کے دور میں لاہور میں بیٹھ کر افغانستان پر بھی حکومت کی گئی مگر ضروری نہیں کہ ہم ماضی کی مثالوں کو پیش نظر رکھیں، فی زمانہ لوگوں کو اپنے حقوق کا شعور ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جائیں اور انہیں دور دراز کے صوبائی دارالحکومتوں تک سفر نہ کرنا پڑے۔ صوبہ چھوٹا ہو گا تو وہاں عدلیہ کے دفاتر بھی ہوں گے۔ وہیں انتظامیہ کے دفاتر ہوں گے،۔ تنخواہوں اور پنشن کے جھگڑے بھی وہیں طے ہو جائیں گے۔ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا نظام بھی آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے گا اور مواصلاتی ضروریات کی تکمیل بھی آسانی سے ہو جائے گی۔ موجودہ صورت حال میں صوبائی اسمبلی ارکان کو بہانہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنے حلقوں سے دور رہنے کے لئے لاہور میں ہی قیام پذیر رہیں، یوں ان کا رابطہ اپنے ووٹروں سے کٹ جاتا ہے مگر جنوبی پنجاب کے صوبے کی تشکیل کے بعد یہاں ارکان اسمبلی اپنے ووٹروں کی دسترس میں رہیں گے۔اور اپنے کاموں کے لئے انہیں جو سفارش درکار ہو گی وہ ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر جا کر پوری کر لیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان اب ا س پوزیشن میں ہیں کہ وہ اپنے منشور کو بروئے کار لائیں پہلے ایک دو سال تو معیشت کو درست کرنے میں لگ گئے۔ ماضی کی حکومتوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا اور ایک لحاظ سے معیشت آئی سی یو میں پڑی تھی۔ اس حالت میں کہ حکومت کے پا س مالی وسائل ہی نہ ہوں اور وہ روز مرہ کے اخراجات پورے کر نے سے قاصر ہو تو اس کے لئے نیا صوبہ تشکیل دینا مشکل کام تھا مگر اب معیشت اور مالیات کا نظام پٹری پر چل نکلا ہے تو وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بیس سوبیس معاشی اور سماجی ترقی کا سال ثابت ہو گا۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے۔
وزیر اعظم عمران کو طعنے دیئے جاتے تھے کہ ان کے منشور کا کیا بنا، وزیر اعظم نے معیشت ا ور احتساب پر توجہ دی اور ثابت کیا کہ وہ ان سیکٹرز میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں،۔ خارجہ امور میں جو مشکلات حائل تھیں خاص طور پر بھارت کی سرجیکل اسٹرائیکوں کی دھمکیوں نے حالات خراب کر رکھے تھے۔ ان کا بھی منہ توڑ جواب دیا گیا اور ایک معجزہ جسے تاریخ یاد رکھے گی وہ افغان امن معاہدہ ہے جس کے لئے وزیر اعظم نے ان تھک تعاون کیا۔اس طرح کے انتہائی ضروری کاموں سے فراغت پانے کے بعد اب انہیں موقع ملا ہے کہ منشور کے دیگر حصوں کی طرف بھی توجہ سے سکیں تو انہوں نے جنوبی پنجاب کے صوبے کے لئے بل لانے کے اعلان میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ ضروری عملہ کا یقین کر دیا گیا ہے اور اربوں کا فنڈ بھی ا س مقصد کے لئے مختص کر دیا گیا ہے تا کہ بل کی منظوری کے مراحل طے ہونے کے دوران نئے صوبے کی بنیادیں استوار کی جا سکیں۔
میں امید رکھتا ہوں کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے بعد سرائکی شاعروں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ اساں قیدی تخت لاہور دے۔