خبرنامہ

حادثہ، معجزہ،دعا اور شفا…اسد اللہ غالب

حادثہ، معجزہ،دعا اور شفا…اسد اللہ غالب

سال کے شروع میں وزیر اعظم عمران خان نے اعلیٰ افسروں کی ایک میٹنگ بلائی جس میں انہوں نے نام لے کر آصف جاہ کی دو مرتبہ تعریف کر ڈالی۔ میں نے ڈاکٹرصاحب کو فون کیا کہ اللہ آپ کو حاسدوں سے بچائے۔
آواران میں زلزلہ آیا تو آصف جاہ زلزلہ زدگان کی مدد کو جا پہنچے۔ا س علاقے میں کسی پاکستانی کا جانا خطرے سے خالی نہیں، دہشت گرد آصف جاہ کو بھی دھمکانے کیلئے آئے مگر انہوں نے بتایا کہ وہ تو زخمیوں کی مرہم پٹی اور بھوک سے ستائے لوگوں کے لئے کھانے پینے کو کچھ لائے ہیں تو ان کی جان چھوٹی۔
سوات میں زلزلہ آیا تو وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچے اور جب نیچے اترنے لگے تو ان کا پاؤں پھسل گیا اور کئی فٹ تک لڑھکتے چلے گئے، ایک کیمرے نے یہ منظر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا۔میں نے پھر انہیں فون کیا کہ اب ان کی عمر چھلانگیں بھرنے کی نہیں ہے۔کچھ احتیاط کریں، انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاتھ سے کسی کی مدد نہ کروں تو تسلی نہیں ہوتی۔

میر پورکے زلزلے میں جھٹ وہاں بھی راشن اور خیمے لے گئے مگر اگلے کئی گھنٹوں تک خود زلزلے کے جھٹکوں میں پھنس گئے۔میں نے اس بار کوئی فون نہیں کیا کہ خطرات سے کھیلنے و الے یا خطرات میں مبتلازندگیوں کو بچانے والے کو کیسے روک سکتا ہوں۔
مگر وہ ہو گیا جس کا مجھے مسلسل خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔
18 جون کو اسلام ا ٓباد سے لاہور آ رہے تھے کہ سکھیکی میں انہوں نے نماز عصر ادا کی اور پھر سفر دوبارہ شروع کیا مگریہ سفر انہیں منزل سے دور لے گیا۔ ایسا خوفناک حادثہ ہو اکہ کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، ہر طرف آہو بکا تھی۔ اور خون تھا۔ ریسکیو والے ان کی گاڑی کی طرف آئے تو انہوں نے سوچا کہ گاڑی کا کچومر نکل گیا، اس کے مسافربھی خدا نخواستہ قیمہ بن گئے ہوں گے۔ مگر ریسکیو والے قدرت کے معجزے پر ششدر ہ گئے کہ اندر سے ڈرائیوار اور آصف جاہ کو زندہ سلامت نکال لیا۔ اب ایک حادثہ اور ہوا کہ ریسکیو کی ٹیم نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان دونوں زخمیوں کی ٹوٹی ہڈیوں کو پٹی سے نہیں باندھا۔ مریض جناح ہسپتال پہنچے۔ وہاں بھی ایمر جنسی کے ڈاکٹروں نے بغیر مرہم پٹی کئے زخمیوں کومیو ہسپتال بھجوا دیا۔
کوئٹہ چرچ
آزمائش کا سلسلہ یہاں رکا نہیں۔ میو ہسپتال میں سرجنز کی بہترین ٹیم نے ڈاکٹر آصف جاہ کا فل باڈی اسکین کئے بغیر ان کی کمر میں بے ہوشی کا ٹیکہ لگا دیا اور پھر جو منظر تھا وہ سرجنز کی ٹیم کے لئے بھی برداشت سے باہر تھا۔ ڈاکٹرا ٓصف جاہ کولیپس ہو چکے تھے ان کے دل کی دھڑکن دیکھنے والے آلے پر گراف فلیٹ ہو گیا۔سرجنز کی ٹیم چیخیں مار کر آپریشن روم چھوڑ کر بھاگ گئی، مگر ابھی کوئی معجزہ اورہونا تھا۔ نئی ٹیم آئی، انہوں نے پوری طاقت سے ان کے سینے اور پسلیوں پر مکے مارے اور الٹا کر کے کمر کو بھی زور دار مکوں کا نشانہ بنایا،یہ ایکسر سائز تین منٹ تک جاری رہی مگر ڈاکٹر صاحب کے دل نے حرکت نہ کی۔ مکوں کی بارش جاری رہی، چوتھا منٹ ختم ہونے کو تھاا ور یہ منٹ آخری امید کے مترادف تھا۔ ایک معجزہ ہوا اور دل چالوہو گیا مگر تین پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں اور کمر بھی زخمی ہو گئی اس موقع پر ان کا فل باڈی اسکین ہو اتو پتہ چلا کہ پیٹ تو سارے کاسارا خون سے بھرا ہوا ہے۔ اب سرجنز کے سامنے ایک نیا امتحان تھا مگر انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور مریض کو مکمل بے ہوش کر کے پیٹ کو صاف کیاا ور جو شریانیں کٹ چکی تھیں انہیں سی دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ زیادہ خون بہہ جانے سے دل کی حرکت خفیف ہو گئی ہے، انہیں مزید خون دینے کی ضرورت بھی تھی اور دل کو سہارا دینے کے لئے وینٹی لیٹر کی بھی ضرورت آن پڑی۔ آئی سی یو میں انہیں ایک وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا جو چند لمحوں میں جل گیا۔ ایک وینٹی لیٹر اور لگایا گیا۔، اس نے بھی کام نہ کیا۔ایک رحم دل اور فرض شناس نرس نے دیکھا کہ ایک مریض جس کی حالت قدرے بہتر ہو چکی تھی،اس کا وینٹی لیٹر اتار کر آصف جاہ کو لگا دیا۔یہ کوشش اللہ نے کامیاب کر دی، چند روز بعد انہیں کمرے میں منتقل کر دیا گیا مگر حوادث نے پیچھا نہ چھوڑا اور انہیں زورسے قے شروع ہو گئی جس سے جسم کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہوگئی۔
ڈاکٹر صاحب ذرا سنبھلے تو انہوں نے مجھ ناچیز کو فون کیا اور اپنی خیر خیریت کی اطلاع دی۔ا نہوں نے کہا کہ ا ٓپ دوستوں کی دعائیں رنگ لائی ہیں اور میں اللہ کے فضل و کرم سے اب بہت بہتر ہوں، میں نے کہا کہ ہم جیسے گناہ گاروں کی دعاؤں میں اثر ہوتا تو آپ اس حادثے کا شکار ہی نہ ہوتے، آپ کے محفوظ رہنے کی دعا تو اس ماں نے کی ہوگی جس کے سر پر آپ نے دست شفقت رکھا ہوگا اور جس کا بچہ بالاکوٹ کے سکول میں چھت کے نیچے سسکیاں لے کر جان ہار گیا ہوگا۔ آپ کو جھنگ کی کسی بیوہ کی دعا لگی ہوگی جس کا گھر سیلاب کے ریلے میں بہہ گیا ہوگا، جسے آپ نے ایک نئی چھت مہیا کی ہوگی اور تھر کی کسی ہندو عورت کی دعا نے بھی اثر دکھایا ہوگا جس کی چھاتی سے ہڈیوں کا ڈھانچا بنے ایک بچے جیسی مخلوق چمٹی ہوگی اور جسے آپ نے دودھ کا ٹھنڈا اور میٹھا پیکٹ پیش کیا ہوگا،۔۔۔ آپ کے لیے اس۔۔ پاکستان۔۔ نے دعائیں مانگی ہوں گی جس کا قومی ترانہ آپ نے آواران کے بچوں کے سامنے گایا ہوگا۔
میرے ہاتھ میں ڈاکٹر آ صف محمود جاہ کی کتاب ہے جس میں درد ہے،کرب ہے، حادثے پر حادثہ اور معجزے پر معجزہ، اور دعاؤں کی تاثیر۔
اللہ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے، میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈاکٹر آصف جاہ نیکیو ں کا سلسلہ بند کردیں مگر خدا سے دعا کرتا ہوں اللہ انہیں ہر آزمائش سے محفوظ رکھے۔ آمین