خبرنامہ

عدل جہانگیری اور عدل عمرانی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کوئی معاشرہ انصاف کے بغیر نہیں چل سکتا، یہ کہنا تھا چرچل کا جب اسے بتایا گیا کہ جنگ عظیم کی وجہ سے لوگوں کی حالت بہت ابتر ہے۔ چرچل نے پوچھا کیا ہماری عدلیہ انصاف فراہم کرہی ہے ۔ جواب ملا کہ ہاں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے تو چرچل نے کہا کہ پھر مجھے جنگ کی تباہ کاریوں سے کوئی خوف لاحق نہیں کیونکہ ہم نظام انصاف کی مدد سے اس تباہی کے اثرات پر قابو پا لیں گے۔

عدل گستری کی مثالیں تاریخ میں لاتعداد موجود ہیں مگرعدل جہانگیری ایک مثال ہی نہیں محاورہ بن گئی۔ اس لئے کہ شہنشاہ جہانگیر نے داد رسی کے لئے اپنے محل سے باہر ایک گھنٹی لگا دی۔ فریادی آتا اور گھنٹی بجاتا ۔ اسے محل کے اندر بلا لیا جاتا۔ اسے جس کے خلاف شکایت ہوتی ، اسے بھی طلب کر لیا جاتا، یہ تھاموقع پر انصاف کی فراہمی۔مگر ایک بار گھنٹی بجی۔ دربانوں نے بتایا کہ کوئی گدھا گھنٹی سے ٹکرا گیاا ورا س س سے گھنٹی بج اٹھی ہے۔شہنشاہ نے کہا کہ گدھے کو اندر دربار میں لاﺅ اورا سکے مالک کو بھی ڈھونڈ نکالو۔ اس مالک کو تلاش کر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ شہنشاہ نے پوچھا کہ کیا تم اس گدھے پر ظلم کرتے ہو۔ مالک نے تسلیم کیاا ور شہنشاہ نے اسے سزا سنا ڈالی۔ یہ ہے حیوانوں کو بھی انصاف کی فراہمی کی ایک مثال لیکن خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ نے کہا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک پیاس سے ہلاک ہو جائے توا سکے لئے یوم آخرت خلیفہ وقت کی جواب طلبی ہو گی۔

ریاست مدینہ میں انصاف کے لئے سرعام اپیل کی جا سکتی تھی۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا گیا کہ وہ مدینے میں اپنی کپڑے کی دکان چلائیں گے تو سب گاہک اسی کا رخ کریں گے۔ باقی کپڑوں کی دکانیں ٹھپ ہو جائیں گی۔ خلیفہ نے اعتراض کے سامنے سر تسلیم خم کر دیاا ور اپنی دکان بند کر دی۔ حضرت عمر ؓ جمعہ کے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک بدو نے اعتراض کیا کہ آپ اس منصب کے لئے اہل نہیں ہیں کیونکہ آپ نے جو کرتا زیب تن کر رکھا ہے۔یہ ا س چادر سے نہیں بن سکتا تھا جو سب کو ملی ہے۔ آپ نے دو چادریں کہاں سے لیں۔ خلیفہ نے خطبہ روک دیا۔ اپنے بیٹے کو گواہی کے لئے طلب کیا اور مجمع کے سامنے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے حصے کی چادر مجھے عنایت نہیں کر دی تھی۔ بیٹے نے اثبات میں جواب دیا ۔ بدو نے اپناالزام واپس لیا اور خطبہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تو وہ ریاست مدینہ کی مثال بار بار دیتے ہیں جس میں انصاف ہوتا تھا اور احتساب سر عام ہوتا تھا۔ اب انہوںنے عام آد می کو انصاف کی فراہمی اوراس کی شکایات کے ازالے کے لئے ایک الیکٹرانک نظام تشکیل دیا ہے ۔ ہرکوئی اپنی شکایت یا اپنا مسئلہ ایک پورٹل پر درج کروا سکے گاا ور پھر جو ایکشن ہو گا وہ بھی گھر بیٹھے دیکھ سکے گا۔ اسے انصاف کی فراہمی کے لئے مختلف محکموں کے دھکے نہیں کھانا پڑیں گے۔ ادھر یہ پورٹل لانچ ہو رہی تھی ، ادھراس کو لوگوں نے ڈاﺅن لوڈ کرنا شروع کر دیا۔ کبھی یہ پورٹل کریش کر جاتی، کبھی کام کرنے لگ جاتی۔ اب چوبیس گھنٹوں میں کئی لاکھ لوگ اسے ڈاﺅن لوڈ کر چکے۔ کئی ہزار لوگوںنے اس کی تعریف کی ہے اور چند سو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کامضحکہ اڑایا ہے۔ مجھے بھی تشویش لاحق ہوئی کہ ہماری ہر پورٹل کریش کیوں کر جاتی ہے۔ میں یہاں پھر اپنے پوتے عبداللہ کی مثال دوں گا جس نے کہا کہ فیس بک پر اربوں لوگ بیک وقت لاگن ہوتے ہیںمگر یہ کریش نہیں ہوتی۔ ہمارا پورٹل ہی کریش کیوں ہوتا ہے ۔ میں نے سمجھانے کے انداز میں کہا کہ اس پورٹل میں عوام نے یکا یک دلچسپی ظاہر کی ہے ، دوسرے ہمارے پاس وہ سرور نہیں ہے جو یوٹیوب کو میسرہے ۔ میں نے اسے بتایا کہ چند روز پہلے وزیر اعظم نے پچاس لاکھ گھروں کے لےے ایک پورٹل کا اعلان کیا۔ اسے نادرا نے تیار کیا تھا اور اس پرموجودفارم لاکھوں لوگوںنے بیک وقت ڈاﺅن لوڈ کیا مگر یہ پورٹل کریش نہیں ہوا ، اس لئے کہ یہ نادار کے سرور پہ تھا۔ اب شکایات سیل والا پورٹل نہ جانے کس نے تیار کیا ہے اور اس نے یہ لحاظ کیوں نہ کیا کہ ا سے کسی جاندار سرور پر ہوسٹ کرنا چاہئے تھا۔ ممکن ہے چند روز کے ابتدائی تجربے سے ا س پورٹل کی ٹیکنیکل ٹیم اپنے سرور کے لئے نئی جگہ تلاش کر لے۔ اور اگر کوئی دوسری خامی بھی نظر آئی تووہ اس کو دور کر سکتی ہے۔ گوگل، یو ٹیوب، فیس بک، یا ہو نے بھی وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا ہے اور روز نئی تبدیلیاں عمل میں آ رہی ہیں۔ ہفتے کو ایک محفل میں بات ہوئی کہ ہمارے آئی ٹی ماہرین کا کوئی ثانی نہیں ۔ میں تو ان کے قصیدے لکھتا ہوں اور جائز طور پر لکھتا ہوں مگر محفل میں موجود چند احباب نے میری توجہ ایک گمبھیر مسئلے کی طرف مبذول کروائی کہ پچاس لاکھ گھروں کا فارم تو کسی طور ڈاﺅن لوڈ ہو گیا مگراب ا سکو جمع کروانے کے لئے میلوں لمبی قطاریں نظرا ٓتی ہیں ، یہ شکائت بی بی سی نے بھی رپورٹ کی ہے۔ یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے اور میںنے نادرا کے اعلیٰ ترین حکام سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ ا ٓپ جو فارم ڈاﺅن لوڈ کروا رہے ہیں۔ ا سے ا ٓن لائن بھرنے کی گنجائش کیوں نہیں رکھتے اور اگرا س فارم کے ساتھ کوئی فیس بھی ادا کرنی ہے تو ا سکے لئے وہ طریقہ کیوں استعمال نہیں کیا جاتا جو ڈیم فنڈ کے لئے کیا جا رہا ہے۔ ایک ا یس یم ایس سے آپ پیسے وصول کر سکتے ہیں ، ایزی پیسے کے ذریعے بھی مطلوبہ فیس وصول کی جا سکتی ہے۔نادرا کے افسر اعلیٰ نے میری معروضات کو تحمل سے سنااور کہا کہ پہلے تو مجھے اپنے پھولے ہوئے سانس پر قابو پاناچاہئے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ اب گھر سکیم کا فارم آن لائن ہی بھرا جاسکتا ہے ا ورا س کی فیس ایزی پیسہ کے ذریعے ادا کی جا سکتی ہے۔ فیس کی وصولی کے لئے دیگر طریقے بعد میں بڑھا دیئے جائیں گے مگر اس وقت جب یہ اسکیم پورے ملک کے لئے عام کر دی جائے گی تب اس پر زیادہ بوجھ پڑے گاا ور حکومت میں سے بھی کوئی نہیں چاہتا کہ کہ عوام کو لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے ذلیل و رسوا کیا جائے۔

لیجئے جی۔ یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ بنکوں میں بھی آپ جاتے ہیں تو مشین سے ٹوکن مل جاتا ہے ا ورا ٓپ کو پتہ ہوتا کے کہ کتنا انتظار کرنا پڑے گا، نادرا کے دفتر میں بھی جائیں تو اسی طرح کی مشین سے ٹوکن مل جاتا ہے ا ور باری باری ہر شخص اپنا مسئلہ حل کروا لیتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک بات اورا ٓئی کہ یہی ٹوکن سسٹم اگر پاسپورٹ دفاتر میں رائج کردیا جائے ا ور پاسپورٹ کی فیس بنک کی لمبی لائن میں کھڑے ہوئے بغیر آن لائن ادا کرنے کی سہولت دے دی جاے تو لوگوں کو پاسپورٹ کے دفاتر میں خجل خوار اور ایجنٹ مافیا سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے آج اپنے ڈارئیونگ لائسنس کی تجدید کے لئے جانا ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اب وہاں کوئی سفارش نہیں چلتی۔ اخبار نویس کہیں گے تو کئی چکر لگوائیں جائیں گے یا شایدکوئی مستقل اعتراض ہی لگا دیا جائے ا ور آپ کہیں کے نہ رہیں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ یہ ڈارئیونگ لائسنس بنانے کا سہرا تو پنجاب آئی ٹی بورڈ نے لیا اور جائز طور پر لیا مگر وہ ساتھ ہی اس کے ٹوکن کے حصول کے لئے آن لائن نظام بنا دے تاکہ مجھے یا کسی کو بھی صبح سویرے قطار میں جا کر نہ کھڑا ہونا پڑے۔ پتہ نہیں افسر شاہی کو کیا لطف آتا ہے عوام کو لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے۔ بجلی۔ گیس، فون کے بل ادا کرنے والے بھی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں ، دوھوپ میں بھی ، بارش میں بھی اور ٹھٹھرتی سردی میں بھی۔ دنیا کہاں سے کہاں ترقی کر گئی۔ ہم کب تک اپنے عوام کو کولہو کا بیل بنائے رکھیں گے۔

وزیر اعظم نے سعودیہ کی کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم آئی ٹی میں بھی سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔یہ ایک درست ا ور لائق تحسین ویژن ہے اور امید رکھنی چاہئے کہ اب بیس کروڑ عوم کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ انسان کو خدا نے اشراف المخلوقات بنایا، ہم بھی شرف انسانیت کا احترام سیکھیں اور لاہور کے چیف ٹریفک افسر بھی پنجاب آئی ٹی بورڈ سے درخواست کریں کہ وہ انہیں ایک خود کار نظام وضع کر دیں۔ ڈاکٹر عمر سیف اور ان کی ٹیم کے لئے یہ پانچ منٹ کاکھیل ہے ۔