خبرنامہ

لاول بھٹو، مصطفی نواز کھوکھراور ممنوعہ جماعتیں

لاول بھٹو، مصطفی نواز کھوکھراور ممنوعہ جماعتیں

اندازجہاں۔اسداللہ غالب

جماعت الدعوہ،فلاح نسانیت ا ور جیش محمد کو ممنوعہ جماعتیں کہا جاتا ہے۔ ان پر ریاست نے بعض پابندیاں عائد کی ہیں اور مزید اقدامات کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمانی سربراہوں کو ملاقات کی دعوت دی ہے۔ اس ملاقات سے قبل ہی بلاول بھٹو ار ان کے ترجمان مصطی نواز کھوکھر نے کچھ ایسے بیانات دینے شروع کر دیئے یں جن سے تاثر ملتا ہے کہ وہ حکومتی اقدامات پر مطمئن نہیں بلکہ ڈو مور کی خواہش رکھتے ہیں۔میں نے جن دو شخصیات کا ذکر کیا ہیم، ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ دونوں کے دونوں نوجوان ہی نہیں بلکہ کم سن بھی ہیں ۔ کیا پاکستان کی دفاعی، خارجہ ا ور داخلہ پالیسان ایسے ناتجربہ کار اور سیاسی طور پر نابالغوں کے حوالے کی جا سکتی ہیں۔اگر ایسا کر دیا جائے تو فارسی والے کہتے ہیں کہ کار طفلاں تمام خواہد شد!
ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے ممنوعہ جماعتوں کے سلسلے میں بہت کچھ سوچے بغیر بیانات جاری کئے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جن جماعتوں کا نمدا کسنے کی وہ بات کررہے ہیں ان کا گناہ بھی کم و بیش وہی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے باربار سرزد ہوا۔ممنوعہ جماعتوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین کو بیرون ملک مداخلت کے لئے استعمال کیا اور کشمیر کی تحریک آزادی کی حمائت کی یا بھارت کے خلاف کوئی حرکت کی۔
بلاول صاحب اپنی پارٹی کے کسی بڑے سے پوچھ لیتے کہ آپریشن جبرالٹر کا مشورہ کس نے دیا۔اس آپریشن میں مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین داخل کئے گئے۔ ا س وقت مسٹر بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ ان سے کسی اور محکمے نے ضرور پوچھا ہو گا کہ کیا کشمیر میں چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے بھارت کو بین الاقوامی بارڈر پر حملہ کی شہہ تو نہیں مل جائے گی۔ بھٹو صاحب نے مشورہ دیا کہ نہیں۔ بھارت ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ہم صرف مقبوضہ کشمیر میں کاروائی کرنے جا رہے ہیں جوکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس آپریشن میں پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے جہادیوں کو مقبوضہ کشمیر میں لانچ کیا گیا۔ میں یہاں یہ بحث نہیں کرتا کہ آپریشن جبرالٹر کس حد تک کامیاب ہو ایا کس حد تک ناکام ہواکیونکہ اس کے لئے بلاول صاحب ان فوجی جرنیلوں کو ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں جو آپریشن جبرالٹر کے نگران تھے۔
بلاول کو یہ نکتہ ذہن سے نہیں نکالنا چاہئے کہ آپریشن جبرالٹر کی وجہ سے بھارت نے چوروں کی طرح پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر جارحانہ حملہ کردیا۔ اور واہگہ کے محاذ پر بی آر بی کے پار کا سارا علاقہ قبضے میں لے لیا۔ پھر اس نے چونڈہ میں ٹینکوں کے ذریعے یلغار کی اور شکر گڑھ کا پورا علاقہ، ناروال، جسٹر اور ظفر وال کے وسیع علاقے بھی ہتھیا لئے۔ اس کے مقابلے میں کنٹرول لائن کی حالیہ کشمکش کی وجہ سے بھارت کو پاکستان کی عالمی سرحد پامال کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ حالیہ تصادم دو فضائی جھڑپوں تک ہی محدود رہا مگر ہم نے ممنوعہ تنظیموں کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیا ۔ حکومت نے اگر سختی میں کوئی کمی رہنے دی تو بلاول کا مطالبہ ہے کہ اس سے زیادہ اقدامات کئے جائیں مگر بلاول صاحب کو آپریشن جبرالٹر کی وجہ سے جو ان کے نانا جان کی اشیر باد سے شروع ہوا اور جس کے نتائج بھی زیادہ بھیانک تھے، اس کے لئے وہ مسٹر بھٹو اور ان کی پارٹی کے خلاف کس قسم کے قدامات پسند کریں گے۔
کشمیر میں بھٹو صاحب کی مداخلت یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو یہ اعلان کیا کہ وہ کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آج کی ممنوعہ جماعتیں مبینہ طور پرکشمیر کی جنگ لڑیں تو گردن زدنی ٹھہریں اور بھٹو صاحب کشمیر کے لئے ہزار سالہ جنگ کا عزم کریں تو وہ حریت پسند کہلانے کے حقدار ٹھہریں۔ یہی مسٹر بھٹو تھے جنہوں نے کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے مگرایٹم بم بنائیں گے ۔ اس ایٹم بم کا استعمال کہاں ہونا تھا۔ کیا امریکہ کے سوا کوئی اور طاقت آج تک ایٹم بم کاا ستعمال کر سکی ہے۔ ان سوالوں سے قطع نظر بحث یہ ہے کہ بھٹو نے پاک بھارت تنازعے کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی پر بس نہیں ،انہوں نے مغربی سرحد کو بھی گرم کرنے کے لئے افغان مجاہد لیڈروں کو پاکستان بلایا۔ ان میں سب سے پہلے آنے والے انجینیئر گلبدین حکمت یار تھے۔ ان مجایدین کو افغان حکومت کے خلاف لڑنے کی تربیت دی گئی۔ انہیں اسلحہ دیا گیا اور انہیں پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہی وہ مجاہدین تھے جن کے ذریعے بعد میں امریکہ نے سوویت روس کو افغانستان میں شکست دی۔ روس کے ٹکڑے کئے اور مشرقی یورپ میں مرضی کی حکومتیں اور مرضی سے نئے ممالک کی لکیریں کھینچیں۔اس عمل کے محرک اور بانی مسٹر بھٹو تھے اور بلاول صاحب ان کے اس عمل سے کیسے انکار کریں گے۔ اگر بھٹو کو افغان مجاہدین کو پاکستان بلا کر انہیں واپس لانچ کرنے کی اجازت تھی تو آج یہ حرکت قابل گرفت کیسے ٹھہری۔
بلاول بھٹو کو میں یہ بھی یاد کراتا چلوں کہ جب دیوار برلن ٹوٹی اور دنیا میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں تو کشمیر کے لوگ بھی جاگے ا ور انہوں نے بھی بھارت سے آزادی کی تحریک کو زور شور سے شروع کیا۔ ان دنوں پاکستان میں بلاول کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور وہ تحریک کشمیر سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ کنٹرول لائن جا پہنچیں اور ایک کھلے جلسے میں جذباتی تقریر کی، وفور جذبات میں اپنادوپٹہ سر سے اتارا اورا سے ہوا میں لہرایا اور زور شور سے نعرے بلند کئے کہ آزادی! آزادی! آزادی! کیا یہ کشمیر کے معاملے میں کھلی مداخلت نہیں تھی اور کیا اسکے لئے ان کی پارٹی ذمے دار نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ انہی محترمہ بے نظیر کی حکومت کے دور میں افغان طالبان اٹھے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے اعلان کیا کہ طالبان ان کے بچے ہیں اور وہ طالبان کے ساتھ ٹینکوں پر سوار ہوئے اور انہیں افغان تخت پر بٹھا کر واپس آئے۔ پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اس سے کھلی مثال ا ور کیا ہو سکتی ہے۔
بلاول بھٹو تاریخ کو بھول سکتے ہیں مگر تاریخ اپنے آپ کو نہیں بھولتی ۔تاریخ گواہ ہے کہ مسٹر بھٹو نے آپریشن جبرالٹر شروع کروا کر پاکستان کی سرزمین کو بیرون ملک مداخلت کے لئے استعمال کرنے کی ابتدا کی۔انہوں نے افغان مجاہدین کو پاکستان بلا کر انہیں اپنے ملک میں مداخلت کے لئے پاکستان کی سزرمین فراہم کی۔ آگے چل کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے افغان طالبان کی پیٹھ ٹھونکی اور ان کی حکومت کے وزیر داخلہ خود طالبان کے ٹینکوں پر سوار ہو کر انہیں افغان تخت پر بٹھا کر آئے ۔ یہ کام کسی ایوب خان نے نہیں کیا۔ کسی جنرل ضیا نے نہیں کیا کسی نواز شریف اور جنرل مشرف نے نہیں کیا۔ کسی جیش محمد اور لشکر طیبہ نے نہیں کیا کسی جماعت اسلامی سے یہ کام نہ ہو سکا مگر وہ پابندیوں کا شکار ہے یا مزید پابندیوں کی زدمیں آ سکتی ہیں تو بلاول کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں کہ نیشنل ایکشن پلان کاا طلاق ان کی جماعت اور ان کی قیادت پر بھی ہو سکتا ہے۔ ریاست کا کوئی دوست نہیں ہوتا ۔ کوئی دشمن نہیں ہوتا ۔ ریاست کے دوستوں اور دشمنوں کی فہرست بدلتی رہتی ہے۔ کیا بلاول بھول گئے ہیں کہ افغان مجاہدین امریکی حکومت کی آنکھوں کا تا را تھے۔ ان کا وائٹ ہاؤس میں سواگت کیا جاتا تھا اور پھر یہی مجاہدین دہشت گرد کہلائے ۔ انہیں حقانی گروپ کا نام دے کر پاکستان کو بار بار مجبور کیا گیا کہ وہ انہیں کچل ڈالے۔ ڈو مور ڈو مور کی گردان ہوتی رہی اور اگر ڈو مور کی لسٹ میں پاکستان پیلز پارٹی بھی آ گئی جس کے لئے تاریخ کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں تو بلاول صاحب ساری چوکڑی بھول جائیں گے۔ آج وہ کوٹ لکھپت جیل میں جانے پر مجبور ہیں ۔ کل کو وہ مرکز قادسیہ اور بہاول پور میں بھی حاضر ہو کرمددمانگنے پر مجبور ہوں گے۔
مجھے ذاتی طور پر مسٹر بھٹو اور ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے نظریات اور افعال پرکوئی اعتراض نہیں۔ اگر کشمیر کے لئے بانی پاکستان اپنی تڑپ کااظہار کر سکتے ہیں اور اگر کشمیر کے لئے میرے مرشد مجید نظامی تڑپ کااظہار کر سکتے ہیں تو بھٹو اور بے نظیر پر تو ایسا کرنا فرض تھا کہ وہ ا س ملک کے حکمران تھے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ بلاول بھٹو بھی وہ اعتراضات نہ اٹھائیں جن کی زد میں ان کے نانا جان اور ان کی والدہ محترمہ اور ان کی پارٹی بھی آ سکتی ہے۔ویسے باری ہر ایک کی آنی ہے۔ آج جیش محمد اور لشکر طیبہ قانون کی گرفت میں ہیں ، کل کے لئے جماعت اسلامی کی ٹانگیں کپکپا رہی ہیں تو پرسوں کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ کیا پتہ نیوزی لینڈ میں کسی اور جنونی نے اپنے مہلک ہتھیاروں پر ان دی لائن آف فائر میں کس کس کا نام کندہ کر رکھا ہے ۔ایک نیشنل ایکشن پلان ہمارا ہے اور ایک ایکشن پلان ان جنونیوں کا ہے۔ مگر دونوں پلان ایک دوسرے سے مطابقت کیوں رکھتے ہیں۔یہ بلاول کو سوچنا چاہئے تاکہ وہ کسی پھندے میں پھنسنے بچ سکیں۔
بلاول کے بزرگوں نے جو نیکیاں کیں وہ انہیں جرائم میں کیوں تبدیل کر رہے ہیں۔
مصطفی نواز کھوکھر اپنے والد گرامی سے راہنمائی حاصل کر سکیں تو وہ اپنے بیانئے پر ضرور نظر ثانی کر لیں گے۔