خبرنامہ

نئی حکومت کس کس زخم پر مرہم رکھے..آصڈآٌٌۃ گآٌب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ایران مین ہمیشہ بادشاہت رہی۔ ایک بادشاہ �آتا اور لوٹ مار کر کے چلا جاتا۔ اگلا بے چارہ انگلیاں دانتوں تلے دبائے حیران ہوتا کہ کروں تو کیا کروں۔ مملکت کے شاعروں نے آخر بادشاہوں کی ہمیشہ کے لئے مدد کی اور ایک روز مرہ ایجاد کر ڈالا کہ تن ہمہ داغ داغ شدہ۔ پنبہ کجا کجا نہم۔ کہ جسم جگہ جگہ زخموں سے چور چور ہے ،مرہم رکھوں تو کہاں کہاں رکھوں۔یہی کیفیت اب پاکستان کی ہے۔نئی حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ وہ تو پاکستان کو ایک پاکستان بنانا چاہتی تھی۔ نیا پاکستان بنانا چاہتہی تھی مگر اب جس شعبے میں بھی ہاتھ ڈالتی ہے تو پریشان رہ جاتی ہے کہ اند ر تو سب کچھ کھوکھلاہو چکا۔ آوے کا�آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کہاں سے شروع کیا جائے ا ور کہاں ختم کیا جائے۔
وزیر اعظم ہاؤس میں بھینسیں بندھی تھیں یا کھٹارہ گاڑیاں،کھابہ گیری کے اگلے پچھلے ریکارڈ مات کر دیئے گئے تھے۔صوبوں کے وزرائے اعلی ہاؤس اور گورنر ہاؤس لوٹ مار کی داستانوں سے بھرے ہوئے تھے۔خزانہ دیکھا تو خالی۔ اور قرضوں کا بہی کھاتہ کھولا تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میٹروبسوں اربوں روپے ڈکار رہی تھیں۔ اورنج ٹرین کا انجر پنجر بکھرا ہو اتھا، نندی پور کی بجلی کا یونٹ آسمان سے باتیں کرتا دکھائی دیا۔ تھر کول تو چیف جسٹس بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہزاروں میگا واٹ کی بجلی کے دعوے کیوں دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سولر پلانٹ معیشت کے لئے رسولی بن چکا تھا اور ونڈ پراجیکٹ نرے ہوائی منصوبے۔
نئی حکومت نے بے شک کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی مگر سعودی عرب سے بھی سب کچھ پچھلی حکومت لے اڑی تھی اور تھرمل والوں کی جھولی بھر دی تھی۔کویت ، قطر اور امارات کو بھی وہ نچوڑ چکے تھے۔ چین پہلے ہی باسٹھ ارب ڈالر دان کر چکا ہے ، اور وہ سب زیر تکمیل منصوبوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دانش اسکولوں کی تعمیر میں دانش کا استعمال تک نہ کیا گیاا ور اقبال ا ور قائد کے نام پر بننے والے آشیانے تنکا تنکا بنے ہوئے۔ایک زمانے میں مارشل لا حکومت آتی تو ہم میڈیا والوں کی سہولت کے لئے ظلم کی داستانیں سنانے کے بجائے اکٹھا ایک وائٹ پیپر چھاپ دیتی جس سے پچھلی حکومت کا سب کچا چٹھا کھل جاتا۔
نئی حکومت کے سامنے دو راستے ہیں ،ایک تو کشکول اٹھائے دنیا کا چکر لگائے اور کہیں نہ کہیں سے قرض مانگے یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ بجلی، پٹرول،گیس، پانی اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرے اور حکومت کو چلانے کے لئے پیسہ ملک کے اندر سے اکٹھا کر لے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ وہ اٹھارہ ارب کے قریب تواس طریقے سے جمع کر سکتے ہیں مگر بارہ ارب ڈالر کا پھر بھی گیپ رہ جائے گا۔ اس کے لئے لازمی طور پر کسی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنا پڑے گا۔
ادھر دن پہ دن گزرتے چلے جا ر ہے ہیں اور یار لوگ پوچھتے ہیں کہ پہلے سو دنوں کا ایجنڈہ کہاں گیا، مگر میں کہتا ہوں کہ ملک کا جو بیڑہ غرق کر دیا گیا،اسے پانچ سالوں میں بھی ٹھیک کر لیں تو غنیمت سمجھئے، پہلے لوٹ مار ہوتی تھی تو نظر آتی تھی۔ اسے بھتہ خوری کہتے تھے۔ بد معاشی کہتے تھے۔ رینجرز نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کراچی میں اس بد معاشی کو ختم کیا مگر اب ایک باریک کھیل سامنے آیا ہے کہ فالودے و الے کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے نکلتے ہیں۔ سلائی مشین پر گزارہ کرنے والی بیوہ کے اکاؤنٹ میں کروڑوں آتے جاتے رہے۔یہ منی لانڈرنگ ہے جو عالمی ماہرین کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ اسی لئے جن لوگوں کے اسمائے گرامی پانامہ پیپرز میں نہیں ہیں،وہ خود کو صادق اور امین سمجھنے لگ گئے ہیں۔ کسی نیب یا ایف آئی اے کو نزدیک نہی پھٹکنے دیتے۔ان اداروں کے ہتھے کوئی چڑھ جائے تو جمہوریت خطرے میں ہے کی دہائی مچ جاتی ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان میں مقبول نعرہ یہ تھا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ اب اسلام کو درپیش خطرات تو اللہ کے حوالے، اور جمہوریت کو درپیش خطرات پر واویلا۔عمران کہتا رہا۔ اب بھی کہتا ہے کہ چوروں اور ڈاکووں کو نہیں چھوڑوں گا مگر ایک گٹھ جوڑ اس کے راستے کی دیوار بن گیا ہے ۔یہ دیوار برلن سے زیادہ مضبوط ہے کہ اس واویلے میں سب کا مفاد وابستہ ہے۔
ہم سب ریاست مدینہ کو اپنے لئے مثال قرار دیتے ہیں ۔ مشرف کو نکالنا تھا تو حضرت عمرؓ اور خالد بن ولیدؓ کی مثال دی گئی مگر جو حضرت ابوبکرؓ نے مثال قائم کی کہ مدینے میں اپنی کپڑے کی دکان ا س لئے بند کر دی کہ اگر خلیفہ کی دکان ہو گی تو یہی چلے گی۔ باقی سب بند ہو جائیں گی۔ مگر ہم نے حکومت میں آکر ایک فیکٹری کو کارخانوں کے گروپ میں تبدیل کر لیا۔ ایوب خان کے بیٹوں نے صنعت لگائی تو پورا ملک چیخ اٹھا تھا اور ان صاحب زادگان کو اپنے کارخانے بیچنے پڑے تھے۔کیا لیاقت علی خان، سہر وردی، چودھری محمد علی اور محترمہ فاظمہ جناح نے اقتدار کا ناجائز فائدہ ا ٹھایا۔ ناجائز تو کجا ،جائز فائدہ بھی حاصل نہیں کیا۔ابھی کل ہی ہم نے قصور کی ننھی زینب کے وحشی قاتل کو پھانسی دی جبکہ چین نے دو رشوت خوروں کو پھانسی چڑھایا۔ان میں ایک عورت بھی شامل ہے۔ چین دنیا میں واحد ملک ہے جو وائٹ کالر کرائم پر پھانسی کی سزا دیتا ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ روکنے کے لئے ایک عالمی ٹیم نے ہفتوں سے پاکستان میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے مگر ہم کسی کرپٹ اور منی لانڈرنگ میں ملوث شخص پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ماحول جسے نئی حکومت نے ٹھیک کرنا ہے اور پھر اپنے منشور کو بھی عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہ پہاڑ جیساکام ہے مگر جس شخص کا نام عمران خان ہے وہ ارادے کا پکا اور وعدے کا سچا ہے۔
حکومت کہتی ہے عوام کچھ عرصے کے لئے صبر سے کام لیں اور کڑوا گھونٹ بھریں۔ پھر اچھا وقت آئے گا اور حکومتی کاوشوں کا پھل ملے گا۔ نیا پاکستان اور ایک پاکستان دیکھنے کو ملے گا۔