خبرنامہ

وزیراعظم کا سفیروں سے خطاب اور پیرس کے بھٹی کا احترام….اسداللہ غالب

وزیر اعظم اپنے ایجنڈے اور ویژن کو آگے بڑھانے کے لئے بے چین ہیں اور تیز رفتار ا قدامات چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں سفیروں کی کانفرنس طلب کی اور ان کے سامنے حال دل کھول کر رکھ دیا۔ سفارتی لب و لہجے کا اپنا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے مگر وزیر اعظم جو بات کر رہے تھے، سیدھی صاف، کھری اور سچی باتیں، جنہیں سچ مچ پورا ہونا چاہئے۔ وہ ملائیشیا کے سفیر سے بہت خوش تھے ۔وزیر اعظم مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ میں ملائیشیا گیا تھا تو مجھے وہاں اپنے سفیر نہیں ملے۔ کہیں چھٹیوں پر تھے۔ ان کے نائب بھی دفتر میں موجود نہ تھے۔ میں دسمبر بانوے میں امریکہ گیا تو وہاں بھی پاکستا نی سفیر دستیاب نہ تھے۔ ان کی جگہ پریس منسٹر نے سنبھالی ہوئی تھی، میں بارش میں بھیگ کر سفارت خانے پہنچا تھا اور پریس منسٹر نے دو گھنٹے انتظار کے بعد ملاقات سے معذرت کر دی۔ کاش! ہمارے سفیر اپنے دفتروں میں موجود رہیں اور پاکستانی ملاقاتیوں کے لئے وقت نکالیں۔ پیرس میں ایک پاکستانی خاتون سفیر نے گلی میں کھڑے کھڑے مجھ سے چند باتیں کیں۔ مگر جاپان کے سفیر نے طویل انٹرویو کے لئے وقت نکالا۔ ایک بار واشنگٹن میں ملیحہ لودھی سفیر تھیں، انہوں نے مجھے کھانے پر بلایا ، میں نے پرانا بدلہ اتارنے کے لیے اس کھانے کا بائیکاٹ کیا۔ ہمارے کولیگ جاوید صدیق وہاں گئے تھے۔ ملیحہ لودھی کے گھر پر میرے خلاف ایک سازش ہوئی۔ کیوں ہوئی اس کی وجہ میں نہیں جانتا ۔ میرے خلاف ایک اسکینڈل گھڑا گیا ۔ جس پر کالم لکھے گئے، خبریں چھپیں اور میرے گھروالوں کی دل آزاری کی گئی۔اب عمران خان سفیروں سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے ہیں، عمران خان ایک مضبوط اور طاقت وزیر اعظم ہیں اس لئے سفیروں کو ان کی سنناہی پڑے گی ورنہ بہت کچھ سننا پڑے گا اور بھگتنا بھی پڑے گا۔
وزیر اعظم نے سفراء کو پہلا درس یہ دیا کہ غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی عزت کریں۔ وہ نجانے کن حالوں میں باہر جانے میں کامیاب ہوئے، کئیوں کی لاشیں سمندر میں ٹھٹھر جاتی ہیں ، کئی کنٹینروں میں بجلی کاجھٹکا لگنے سے کوئلہ بن جاتے ہیں اور کئی یورپ کے برف زاروں میں منجمد ہو جاتے ہیں۔
میں نے محمود بھٹی کی کتاب پیرس میں دوسر اجنم کھولی۔ اس نے لکھا تھا کہ جب وہ جہاز میں سوار ہونے کے لئے کراچی ایئر پورٹ پر کھڑا تھا تو ایک پولیس والے نے اس کی جیب سے پانچ سو فرانک کے نوٹ تھے، وہ اس نے اچک لئے ۔ میں نے پھر ٹی وی کی طرف کان لگائے۔ وزیر اعظم اپنے سفیروں کو نصیحت کر رہے تھے کہ اوور سیز پاکستانی برے حالوں میں رہتے ہیں، ان کی خبر گیری کیاکریں۔ محمودبھٹی کی کتاب کا میں نے صفحہ پلٹا۔ اس نے لکھا کہ پیرس میں اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ وہ ریلوے اسٹیشنوں پر سونے کے لئے مجبور تھا۔ ٹی وی پر وزیر اعظم کی آواز بلند ہوئی۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کی عزت کرو ۔ وہ خون پسینے کی کمائی وطن بھیجتے ہیں ، ان کے ڈالروں سے ملک کی معیشت کا پہیہ گردش کرتا ہے۔
بھٹی کے کانوں میں تڑاخ تڑاخ آوازیں گونجتی ہیں۔ تم چور ہو ، ڈاکو ہو۔ اس کو ہتھکڑی لگاؤ۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کر لو۔ اس کو ای سی ایل پر ڈال دو۔
وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ اوور سیز پاکستانیوں کو جمع کرو۔ ان کی ایسوسی ایشنیں بنائیں، ان کے مسائل سنیں۔ ان کا حل نکالیں۔
بھٹی سوچ رہا تھا۔ اس نے کم سنی میں پاکستان چھوڑا۔ پیرس کا رخ کیا ، وہاں در بدر دھکے کھائے مگرآخر اس کا کاروبار چمکا اور وہ ڈریس ڈیزائنر بھٹی کے نام سے معروف ہوا۔ اس پر فلمیں بنیں، فیشن میگزینوں کے ٹائٹل پر اس کی کلرڈ تصویریں چھپیں۔ اس کا شمار فرانس کی ایلیٹ میں ہونے لگا۔ وہ ہیرو تھا، یا سپر اسٹار ،پھر بھٹی کے ذہن میں بجلی گرجی۔ تم چور ہو، چور ہو‘ ڈاکو ہو‘ ڈاکو ہو۔ حاسدوں نے اس کی ذلت آمیز وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔
بھٹی کو جھٹکا سا لگا کہ وہ یکایک ہیرو سے زیرو کیسے ہو گیا ہے۔
یہ ایک بھٹی کی داستان نہیں،ہر اوور سیز پاکستانی کا المیہ ہے کہ اسے اپنے وطن میں عزت نہیں ملتی۔ چودھری سرور نے لڑ بھڑ کر عزت کمائی مگر یار لوگ اس کے در پئے آزار ہیں۔ ایک سابق میڈیا ایڈوائزر کو اس سے کیا چڑ ہے کہ اس کے بارے میں وڈیوز وائرل کر دی ، تاکہ وزیر اعظم کو اس سے بد گمان کر دیں۔ بیسٹ وے کے پرویز صاحب پر کیا گزر رہی ہے، کون جانے۔ شکاگو کے چودھری رشید کن حالوں میں ہیں، کون جانے، یہی چودھری رشید پاکستانی حکمرانوں کو کلنٹن خاندان سے متعارف کراتے تھے۔چودھری یعقوب نے کیا کیااحسانات نہیں کئے۔ قتیل شفائی کا داماد شوکت بٹ جب دل کے عارضے میں مجھ سے فریادیں کر رہا تھا کہ اپنے دوست سے کہو کہ مجھ سے ادھار وصول کرنے کے لئے عدالت میں نہ جائے، ٹھیک ہو جاؤں گا تو پینی پینی ادا کر دوں گا مگرا سکی کسی نے نہ سنی۔اور وہ صدمے کی کیفیت میں دار فانی سے کوچ کر گیا۔
مگر عمران خان اوور سیز پاکستانیوں کی قدر ومنزلت سے آگاہ ہیں ، شوکت خانم پراجیکٹ میں جتنی دل کھول کر انہوں نے مدد کی ، عمران خان ا س کو بھول نہیں پاتے۔ عمران خان کویقین ہے کہ اب بھی ہم ان لوگوں کوپورااحترام اور عزت دیں تو ان کی ترسیلات سے پاکستانی معیشت کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
میں اکثر مانچسٹر جاتا رہا ہوں۔ وہاں چودھریوں کا غلبہ ہے۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد قرض اتاروملک سنوارو کے لئے حکومتی وزرا چندہ لینے جاتے تھے تو ان کی ضد ہوتی تھی کہ انہیں فائیو اسٹار ہوٹلز میں ٹھہرایا جائے، سو جتنی رقم اکٹھی ہوتی تھی، وہیں صرف ہو جاتی تھی۔۔ خزانے میں کیا آناتھا۔پالیسی ریسرچ کونسل کے فنانشل ہیڈ خالد سلیم جو ایک زمانے میں اسٹیٹ بنک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرہواکرتے تھے‘ کا کہنا ہے کہ اس اکاؤنٹ میں چندہزار سے زیادہ کی رقم جمع نہیں ہوئی۔ ساری کی ساری جو اکٹھی ہوئی، وزرا صاحبان نے بیرونی سفر میں شاپنگ پر اڑا دی۔یہ ایک تلخ تجربہ تھا مگر عمران خان نے شوکت خانم کے لئے پیسہ اکٹھا کیا ،لوگوں نے دیکھا کہ یہ جائز خرچ ہوا، اسلام آباد میں الشفا ہسپتال والے جرنیل صاحب بھی باہر چندہ اکٹھا کرنے جاتے تھے اور جھولیاں بھر کے لاتے تھے، مسجدیں اور مدرسے کھڑے کرنے والے بھی کبھی مایوس نہیں لوٹے مگرآج ملک کو ڈالر کی اشد ضرورت ہے تو ایک بار پھر ہمیں اوورسیز پاکستانی یاد آ رہے ہیں ۔ یہ لوگ ضرور اپنے وطن کی پکار پر لبیک کہیں گے مگر پہلے ان کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔ ان کو پاکستان کے ایئر پورٹوں پر کسٹم اور ایف آئی کی لوٹ مار سے تحفظ کی یقین دہانی کرانی ہے۔ ان کی جائدادوں پر قبضے ہو گئے۔ ان کے پلاٹوں کی قیمت وصول کرلی گئی ہے مگر پلاٹوں کا نام و نشان نہیں۔ عمران خان کو بہت محنت کرنا ہے ۔ پہلے تو وہ ایک کال کریں اور پیرس کے محمودبھٹی کی تالیف قلب کریں۔ اپنے سفیر کو ان کے دفتر جانے کی ہدایت کریں، انہیں ہر طرح کی عزت ا ور احترام کا یقین دلایا جائے۔ بھٹی اس وقت سخت مایوس ہے۔ وہ پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری واپس لے جاناچاہتا ہے۔ اس کو دیکھ کر باقی اوور سیز پاکستانی آزرد خاطر ہیں۔ ان لوگوں کوپاکستان سے محبت ہے مگرا س محبت کی سزا یہ تو نہ دیں کہ انہیں انارکلی کی طرح دیوار میں چن دیں، ٹھیک ہے وزیر اعظم کو زلفی بخاری پر اعتماد ہے۔ وہ بھی ڈالر لا سکتے ہوں گے مگر وزیر اعظم میری بھی مانیں اور محمود بھٹی کو اوور سیزپاکستانیوں کے لئے ایمبیسڈر ایٹ لارج مقررکریں ۔ وہ اکیلا پاکستان کی اکثر ضروریات پوری کرسکتا ہے اور اگر اس کا دل جیت لیاجائے تو وہ اپنے دوستوں سے کہہ کر ڈالروں کا انبار لگا سکتا ہے۔ چلئے انبار نہ بھی لگائے تو پھر بھی وہ عزت کا مستحق ہے۔ دنیااسے جو عزت دیتی ہے،اس سے زیادہ نہ سہی، وہی عزت تو اسے دیں تاکہ وہ ایک نئی کتاب لکھے، پاکستان میں نیاجنم۔ یہ کتاب عمران خان کے نئے پاکستان کی بنیاد بن سکتی ہے۔