خبرنامہ

پھر وہی دانہ گندم پہ جھگڑا…اسد اللہ غالب

پھر وہی دانہ گندم پہ جھگڑا…اسد اللہ غالب

آٹا ناپید ہو گیا۔روٹی مہنگے داموں بھی دستیاب نہیں ۔ یہ ہمارے ٹی وی چینلز کی رپورٹوں کا خلاصہ ہے۔اس جھگڑے نے آدم اور حوا کو جنت سے نکال کر زمین پر بھجوایا دیا تھا۔بنی نوع انسان کی تاریخ جتنی پرانی ہے روٹی کا یہ تنازعہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ ایک قصہ ہم حضرت یوسف ؑ کا سنتے ہیں جو قید میں تھے اور دوسرے قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے۔ انہی دنوں شاہ مصر کو ڈرائوناخواب آیا ۔ درباریوںنے بتایا کہ ا سکی تعبیر جیل میں قید حضرت یوسف ؑ سے پوچھی جائے،اس سبب حضرت یوسف ؑ کو قید سے رہائی ملی اور انہوں نے اس ڈرائونے خواب کے پیش نظر ایسی تدبیر تلاش کی کہ مصر کو قحط کا شکار نہیں ہونا پڑاا ور خود یوسف ؑ بھی بادشاہ بن گئے۔

آج پاکستان کی جیل میںکوئی سیانا قیدی ہو تو اس سے پتہ کیا جائے کہ گندم کے قحط پر کیسے قابوپایا جائے۔اگر سرکار دربار میں کوئی سیانا ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔

پہلے ملک میں اشیائے خورو نوش کی مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ اب بنیادی ضرورت روٹی ہے وہ بھی خواب بن گئی ایک ڈارئونا خواب۔

پچھلے سال فروری میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وزیر اعظم نے کسانوں کو مبارکباد دی کہ ان کی فصل اچھی اور پیدا وار زیادہ ہو گی مگر یہ بارشیں مارچ اپریل اور مئی کے بعد تک جاری رہیں ۔ اخبار تو کوئی پڑھتا نہیں ورنہ میں ہر تیسرے کالم میں لکھ رہاتھا کہ گندم کی قلت واقع ہو جائے گی۔وزیر منصوبہ بندی کون ہے اور وزیر زراعت کون ہے۔ وزیر خوراک کون ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں۔ شاید زیادہ تر کام ایڈوائزروں کے سپرد ہیں جو ووٹروں اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہر گز نہیں۔ کاش! جب مئی جون میں بارشیں تڑ تڑ برس رہی تھیں تو یہ حکومتی منصب دار اپنے ذہن پر زور ڈالتے۔ جو گندم ہاتھ میں آئی بھی تو اس کا دانہ بھیگا ہوا تھا اور وہ کھانے کے قابل نہ تھا۔ میں اپنی ضرورت کی تیس من گند م ہر سال اپنے گائوں سے خریدتاہوںمگر اب ہر کسی کا جواب تھا کہ گندم بھیگ گئی ہے اور کھانے کے لائق نہیں، اس کاآٹا گوندھا جائے تو سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور ا سکی روٹی کھانے کو دل نہیں چاہتا، میں یہاں ہر گز کسی کا نام نہ لیتا مگر میرے ایک دوست ہیں جن کے حوالے سے میںنے ایک ٹیکنالوجی کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح خشک چارے کو محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ہیں جناب ہوتیانہ صاحب جو پاک پتن کے بڑے زمیندار ہیں ۔ میںنے ان سے کہا کہیں سے بارش سے محفوظ گندم تلاش کردیں ۔ کہنے لگے میری اپنی گندم پندرہ سو من تھی۔ ساری بھیگ گئی تھی۔ اس لئے سرکار کو فروخت کر دی۔اب اپنے لئے کہیں سے تلاش کر رہا ہوں ۔کچھ سراغ ملا تو آپ کے لئے بھی خرید لوں گا۔ انہوںنے اکتوبر تک تین وعدے کئے کہ بس کل صبح گندم پہنچ جائے گی مگر اب تو اگلی فصل کاشت ہو چکی ہے۔ایک دوست ہیں اوکاڑہ میں رانا زمان۔ بڑے زمیندار ہیں ۔ انہوںنے بھی ساری بھیگی ہوئی گندم سرکار کے ہاتھ فروخت کر دی تھی ۔ میں حیران تھا کہ جس گندم کو یہ لوگ خود نہیں کھانا پسند کرتے۔ اسے عوام الناس کو کھلانے پر مجبور کریں گے۔ عوام نے یہ گندم جیسے تیسے کھائی، مگر چونکہ شدید اور لگا تار بارشوں کی وجہ سے گندم کی پید اوار ہی متاثر ہوئی تھی اس لئے اب قحط کا سماں ہے اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ مجھے پتہ تھا تو حکومت کے محکمہ زراعت اور پاسکو کے ایک چپراسی تک کو پتہ ہونا چاہئے تھا مگر سب سوئے رہے اور اب وقت دعا ہے۔ ظاہر ہے گندم در آمد کرنی پڑے گی مگر نوکر شاہی اس عمل میں اتنی دیر لگا دے گی کہ اتنی دیر میں نئی فصل مارکیٹ میں آ جائے گی ، دعا یہ کریں کہ بارشوں کی آفت نازل نہ ہو۔ مارچ کے بعد تو ہر گز بارش نہ ہو۔ کوئی چھڑکائو ہو جائے تو ٹھیک ورنہ گندم بھیگنے سے بچ جائے تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔میں اس مضمون کے پانی میںمدہانی ڈالوں بھی تو کوئی نئی بات نہیں لکھ سکتا۔ حکومت کو میں بے خبر نہیں سمجھتا مگر حکومت کے ہاں پلاننگ کا فقدان ہے۔ بس ڈنگ ٹپائو معاملات چل رہے ہیں۔ مولانا کا دھرنا آ گیا تو اس سے نبٹ لیا۔ آرمی چیف کی توسیع کا مسئلہ کھٹائی میںپڑا تو اس کے حل میں جت گئے۔ ایم کیو ایم نے آنکھیں دکھائیں تو ساری حکومت ان کو منانے میں لگ گئی۔ ادھر ق لیگ اور دیگر چھوٹی جماعتیں روٹھی نظر آتی ہیں تو ان کا منت ترلا جاری رہے گا کیونکہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ حکومت ضرور پانچ سال پورے کرے مگر کار حکومت بھی تو انجام دیتی رہے۔ کشمیر، ایران، سعودی عرب، یمن، شام ، افغانستان اور امریکہ کے معاملات الگ سے ہیں اور بھارت تو بھوت کی طرح سر پہ سوار ہے۔ کام زیادہ ہے اور کٹھن ہے ،جو کہ اگلے ساڑھے تین سال میں بھی پورا کرنا مشکل ہو جائے گا اگر حکومت نے ایڈہاک ازم کو گلے لگائے رکھا۔بہر حال روٹی ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ اس کے لئے جنت ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ اب کھونے کے لئے کچھ نہیں۔ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے پاس وسائل بے اندازہ ہیں مگر استعمال کا سلیقہ چاہئے۔فوج کہتی ہے کہ وہ دفاع کے ساتھ معیشت بھی ٹھیک کرے گی تو اب روٹی کامسئلہ حل کرنے میں تو مدد کرے، آرمی چیف حکومت کی ایک معاشی کونسل کے رکن ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف آرمی چیف معیشت ٹھیک کرنے کے ذمے دار ہیں۔اس کونسل میں باقی ارکان خانہ پری کے لئے تو نہیں۔ وہ بھی عقل کے گھوڑے دوڑائیں۔قوموں کو بحرانوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور قوموں کی قیادت ہی ا ن بحرانوں سے نبٹتی ہے۔

ہمارے ایک لیڈر ہیں شیخ رشید جو زیادہ تر الہامی باتیں کرتے ہیں۔ ا ب فرماتے ہیں کہ لوگ سردیوں میں زیادہ کھاتے ہیں۔ یہ بات بالکل الٹی کی۔ گرمیوںمیں روٹی زیادہ کھائی جاتی ہے۔ ابھی کسی سقراط نے یہ بھی کہا ہو گا کہ روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھائیں ، کیک کھائیں۔ کیک اور ڈبل روٹی حکمرانوں سے بچے گی توعوام کو مل پائے گی اور ا سکے لئے پیسے چاہئیں وہ کہاں سے آئیں گے۔ شہباز شریف کو بھی آٹے کے بحران کا سامنا ہوا تھا۔ اس نے کاغذی تنور لگائے،ان کے لئے آٹے کے ٹرک مختص کئے۔ نہ یہ تنور کسی کو نظرا ٓئے اور نہ آٹے کے ٹرک۔ خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ ایوب کے دور میں چینی چارآنے مہنگی ہو گئی اور یہ ایوب حکومت کو بہت مہنگی پڑی۔حکومت اس کے ہاتھ سے چلی گئی۔ بھٹودور میں ہم نے راشن ڈپو دیکھے ا ور ان کے باہر لمبی قطاریں دیکھیں اور پھر یہ قطاریں جلوسوں میں بدل گئیں جو بھٹو کے اقتدار کو لے ڈوبیں۔ کوئی ہے جو ماضی سے سبق سیکھے۔
ریاست مدینہ کے حاکم نے اعلان کیا تھا کہ کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی ذمے داری ان پر ہو گی۔کراچی میں ایک بھوکے نے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔شاعر بڑے ستم ظریف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے اور ایک حضرت فرماتے ہیں کہ اب تو گبھرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے۔،مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ بھارت والے تو بات بات پہ کہتے ہیں کہ جائو پاکستان کیوںنہیں چلے جاتے۔