خبرنامہ

Pervez Elahi Always Prevails (5)…اسد اللہ غالب

Pervez Elahi Always Prevails (5)…اسد اللہ غالب

کیا آپ کویہ بات عجیب نہیں لگتی کہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی ایک آپ بیتی لکھی، اس میں انہوں نے اپنی یادگار تصوریریں بھی شامل کیں مگر ساتھ ہی ساتھ پرویز الٰہی کی قصہ کہانی بھی موجود ہے اور ان کے حکومتی کارناموں کی تفصیلات بھی موجود ہیں ۔اصل قصہ یہ ہے کہ چوہدری پرویز کی شخصیت سیاست پر اتنی ہی حاوی ہے جتنی خود چوہدری شجاعت حسین کی۔ اس لیے چوہدری پرویز الٰہی اپنے کزن کی کتاب پر بھی حاوی نظر آتے ہیں ،آئیے ذرا دیکھتے ہیں کتاب میں کیا کچھ ہے ۔

’’سچ تو یہ ہے‘‘ چودھری شجاعت حسین کی انتہائی جاندار آپ بیتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کا ہماری سیاست کے ہر طالب علم کو علم ہونا چاہیے۔کتاب کے مواد کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے ا ور آسان بنانے کے لئے 20ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب کا الگ عنوان ہے اور ہر باب کو مزید ضمنی ابواب میں سرخیوں سے تقسیم کیا گیا ہے جس سے کتاب پڑھنا سمجھنا اور کوئی بھی چیز تلاش کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔جس نفاست اور پذیرائی کا مظاہرہ چودھری برادران اپنے حلقہ احباب اور ملنے جلنے والوں سے کرتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے قارئین کیلئے بھی بہت سی آسانیوں کا اہتمام کیا ہے جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔پیش لفظ انتہائی مختصر لیکن جامع اور سلیس انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایک ہی صفحہ میں گویا سمندر کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی‘ اس حوالے سے اتنا عمدہ اور اختصار کے ساتھ پیش لفظ کم ہی دیکھا گیا ہے۔باقاعدہ ابواب شروع کرنے سے پہلے تمہید ہے اور تمہید میں چودھری شجاعت نے اپنے شہید والد چودھری ظہور الٰہی کو اپنا رہنما قرار دیتے ہوئے ان کی استقامت‘شجاعت اور پھر شہادت کے واقعات قلم بند کئے ہیں۔چودھری شجاعت حسین آج جس مقام پر ہیں اس میں ان کے والد کا بہت بڑا اور نمایاں کردار ہے ۔ان کی ابتدائی زندگی میں کہ جب وہ گیارہ بارہ برس کے چھوٹے سے بچے تھے دو ایسے واقعات پیش آئے تھے جنہوں نے ان کی بنیاد مضبوط کرنے‘ انہیں حوصلہ مند بنانے اور ان میں جرأت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلا واقعہ انیس سو پچاسی میں پیش آیا کہ کس طرح دن دہاڑے ان کے گھر کی دیواریں گرا دی گئیں اور ان کے والد چودھری ظہور الٰہی کر گرفتار کر لیا گیا اور یہ سب دس برس کے بچے نے دیکھا اور یہ بھی کہ ان کے والد کے چہرے پر ذرا بھی پریشانی کے آثار نمایاں نہیں ہوئے اور انہوں نے سیکھ لیا کہ اگر آدمی کی زندگی کا کوئی نصب العین ہے تو پھر اس کے حصول کی راہ میں کوئی مشکل بھی آ جائے تو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے۔ چودھری شجاعت لکھتے ہیں کہ ’’والد صاحب کی شہادت کے بعد میرے لیے سب کچھ ہی بدل گیا اور مجھے عملی سیاست میں آنا پڑا۔ عملی سیاست کے ہر موڑ پر میرے لیے میرے والد کا کردار مشعل راہ رہا ہے۔ ان کے اصول ِسیاست ہرموڑ پر میری رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ ان کا ایمان تھا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ان کا یہ پختہ ایمان میری زندگی کے سفر میں چراغ راہ کا کام دیتا رہا ہے۔ ان کی تقلید میں، میں نے بھی اپنی زندگی میں کلمہ حق کی سر بلندی اور مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ میں اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں، اس کا حتمی فیصلہ بہرحال میں نے نہیں،عوام نے کرنا ہے۔ لہٰذا میں اپنی زندگی اور اس کے نشیب و فراز کی کہانی جو پچھلے ستر سال پر پھیلی ہوئی ہے، آج اپنے عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یہ کہانی دریائے چناب کے کنارے گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں’’نت وڑائچ‘‘ سے شروع ہوتی ہے‘‘۔
پہلا باب ’’میں اور میرا خاندان‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں چودھری صاحبان کے پردادا‘ دادا‘ اہل خانہ‘کاروبار اور خاندان کی سماجی خدمات کا ذکر ہے۔ باب دوم ایوب خان کے دورِ حکومت سے متعلق ہے جس میں چودھری ظہور الٰہی کی سیاست اور جنرل ایوب خان کے دور کا ذکر ہے۔باب تین میں 1970ء کے انتخابی معرکہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ باب چار انتہائی اہم اور دلچسپ ہے۔ اس میں مشہور بھینس چوری کے مقدمے کے علاوہ عراقی اسلحے اور باغیانہ تقریر کے مقدمات اور ان کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری بھی اس دور میں ہوئی۔ پھر معاشی دبائو کابھی انہیں سامنا کرنا پڑا۔اس دوران تحریک ختم نبوت ؐ بھی چلی۔ متحدہ جمہوری محاذ کی تشکیل ہوئی ان سب کا تذکرہ باب چار میں موجود ہے۔ باب پنجم الیکشن ستتر اور پی این اے کی تحریک اور بھٹو حکومت کے خاتمے پر مشتمل ہے۔باب چھ میں جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لا کے ابتدائی دور اور اس سے جڑے اہم واقعات کا ذکر ہے۔ چودھری شجاعت کی نواز شریف سے پہلی ملاقات کا بھی تذکرہ ہے۔ باب سات میں نواز شریف کی مسلسل عہد شکنی سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔وہ پہلے وزیراعلیٰ کیسے اور کیوں بنے اور پھر تحریک عدم اعتماد کا آنا یہ سب اسی باب کاحصہ ہے۔ باب آٹھ میں محمد خان جونیجو کے دور حکومت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی دور میں سانحہ اوجڑی کیمپ بھی ہوا تھا پھر جونیجو صاحب کو جس طرح برطرف کیا گیا، اس پر چودھری شجاعت حسین نے بغیر لگی پلٹی رکھے اپنے دل کی باتیں کھرے الفاظ میں بیان کر دی ہیں۔باب نو بینظیر کے پہلے دور حکومت بارے ہے۔ باب دس اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت اور اس سے متعلقہ واقعات سے مزین ہے۔باب گیارہ میں بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے خاتمے جبکہ باب بارہ میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے خاتمے کی وجوہات اور پس پردہ واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔جنرل مشرف کا ٹیک اوور اور ا س سے جڑے پراسرار واقعات باب تیرہ میں ہیں۔باب چودہ میں اس مشرف نواز ڈیل کا ذکر ہے جس کو نواز شریف نے ایک عرصے تک چھپایا اور پھر اس کی خلاف ورزی بھی کی۔باب پندرہ پاکستان مسلم لیگ ق کے دور حکومت پر مشتمل ہے۔یہ اس کتاب کا سب سے تفصیلی باب ہے اوراسی دور میں پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین فیصلے بھی کئے گئے‘ بڑے بڑے منصوبے بھی شروع کئے گئے۔ باب سولہ میں چودھری شجاعت نے اپنی وزارت عظمیٰ کا تذکرہ کیا ہے۔باب سترہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کے دورِ حکومت پر مشتمل ہے۔ بلاشبہ چودھری پرویز الٰہی کے اس دور کو سنہری الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے کہ جس میں گیارہ بائیس ایمرجنسی سروس بنی جو آج تک چل رہی ہے‘ارفع ٹیکنالوجی پارک بنا‘قرآن بورڈ اور سیرت اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا‘زراعت اورصنعت میں انقلات بھی اسی دور میں آیا۔اس باب میں ڈیڑھ درجن سے زائد ایسے منصوبوں کا ذکر ہے۔باب اٹھارہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی معزولی اور لال مسجد آپریشن سے متعلق ہے۔ باب انیس میں این آر او کا تنازعہ اور باب بیس میں الیکشن دو ہزار آٹھ میں ہونے والی دھاندلیوں اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ تین سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل اس کتاب نے چودھری شجاعت حسین کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ چودھری برادران نیک سیرت‘بااخلاق اور وضع دار شخصیات کے طور پر معروف ہیں ۔چودھری شجاعت حسین کی یہ خودنوشت ان کی سماجی اور سیاسی خدمات کے ساتھ ایک ادبی اور صحافتی خدمت کے طور پر ایک شاندار اضافہ ہے جس پر انہیں ڈھیروں مبارکباد۔(ختم شد)