Columns

درگئی کے شہید

درگئی کے شہید

آسمانوں سے فرشتے قطاراندر قطار اترآئے ہیں اور انہوں نے درگئی کو نور کے ہالے میں لپیٹ لیا ہے۔درگئی کی خاک کو شہیدوں کے خون نے اس سحر کی شفق میں تبدیل کردیا ہے، جس کے انتظار میں قومیں صدیاں گذاردیتی ہیں۔ خون صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحرپیدا،درگئی کی خاک میں میرے وطن کی ماﺅں کے چاند تاروں کا خوں کیا بہا کہ پاکستانی قوم کے سامنے مستقبل کے ہزاروں امکانات روشن ہوگئے۔یہ ذبحِ عظیم ہے ،یہ ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑکی روشن روایت کی پیروی ہے۔اسماعیل ؑنے زمین پر ایڑیاں رگڑی تھیں اور زمزم کا حیات نوازچشمہ پھوٹ نکلا تھا۔درگئی کے شہیدوں کے لاشے تڑپے تو خون کا ایک سیلِ رواں بہہ نکلا،خون جو میرے جذبات کو گرماتا رہے گا، خون جو قوم کے ماتھے کا جھومر بن کر تابندہ وتابناک رہے گا۔
سب کہہ رہے ہیں کہ یہ سانحہِ باجوڑ کا ردِ عمل ہے۔ خبر شائع ہوئی کہ مقامی طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ میں مقامی یا غیرمقامی طالبان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کی پاکستان سے لڑائی کیا ہے۔ افغانستا ن پر پاکستان نے توقبضہ نہیں کیا،افغان عوام پر کروز میزائلوں کی بارش پاکستان نے نہیں کی تھی۔بی 52 طیاروں کا کوئی تعلق پاکستانی فضائیہ سے نہیں ہے۔یہ پندرہ ہزار میل دور امریکی ریاست میسوری سے اڑکر آتے تھے اور نان سٹاپ پرواز کرتے ہوئے 35ہزار فٹ کی بلندی سے ہزاروں پونڈ وزنی بم برساکر واپس چلے جاتے تھے۔ان بموں سے افغانوں کے معصوم بچے گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل ہوتے رہے،طالبان کے جسموں میں پٹرول انڈیل کر جب ان کے منہ میں آگ لگائی جاتی تھی تو تڑپتی لاشوں کے رقص کا تماشا دیکھنے والے سفاک شمالی اتحاد والے تھے، پاکستانی فوج نے ان کی کبھی پشت پناہی نہیں کی تھی۔ شمالی اتحاد کی پیٹھ ٹھونکنے والا افغانستان کا ایک ہمسایہ ہی تھا اور طالبان جانتے ہیں کہ ان کی بربادی میں اس ہمسائے کانوے فی صد ہاتھ ہے اور اس نے یہ سب کچھ رضاکارانہ کیا، طالبان کی دشمنی میں کیا، پاکستان تو کبھی طالبان کا دشمن نہ تھا، پاکستان تو کسی افغان کا دشمن نہیں تھا۔ پاکستان نے تو افغان عوام کیلئے ہمیشہ قربانیاں دی ہے ۔ افغان مہاجروں کے ساتھ انصار کا سا سلوک کیا ہے، پاکستان نہ ہوتا تو کون کہہ سکتا ہے کہ افغانستان کا حشر کیا ہوتا، سوویت روس کے انخلاءکے بعد پاکستان کی مسلسل کوشش رہی کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو۔طالبان نے پر امن طورپر انقلاب برپا کیا تو پاکستان نے ان کی سو فی صد امداد کی۔ لیکن طالبان اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ انہوں نے جواب میں پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ان کے دور میں پاکستان کے نامی گرامی دہشت گرد،قاتل اور ڈکیت افغانستان میں پناہ گزین ہوئے، پاکستان نے جب کبھی ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے ہمیشہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے بہت کوشش کی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ٹکراﺅ نہ ہو،لیکن سارے فیصلے پاکستان کے بس میں نہ تھے۔طالبان نے ازخود امریکہ سے تصادم کا راستہ اختیار کیا، پاکستان نے جس مجبوری کے تحت امریکہ کا ساتھ دیا، ایک ایک ایک تفصیل سامنے آچکی ہے، اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ طالبان امریکہ کے سامنے نہیں ٹھہرسکے تو پاکستان کیسے اس امرکا مکلف ہوگیا کہ وہ طالبان کو امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے اپنی سرزمین ِ مہیا کرے۔ یہ پاکستان کا حوصلہ ہے کہ 1988ءمیں جہادِ افغانستان کے خاتمے کے باوجود اس نے ساری دنیا کے مجاہدین کو قبائلی علاقوں میں قیام کی اجازت دی،وہ بھی صرف اس لئے کہ یہ لوگ کاروبار میں مصروف ہوگئے تھے، انہوں نے مقامی آبادی میں رشتے ناطے کرلئے تھے، ان لوگوں کو قیام کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ پاکستان نے ان کو دہشت گردی کے اڈے فراہم کردیئے ہیں۔ دنیاکا کوئی ملک اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے تصرف میں نہیں دے سکتا۔ پاکستان نے ان غیرملکیوں کو اپنے وطن کی واپسی کیلئے ایک ٹائم ٹیبل دیا، مقامی جرگوں کے ذریعے ان پراثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی،لیکن ان غیرملکیوں نے بزعمِ خویش یہ سمجھ لیا کہ وہ مجاہدینِ ہیں۔ ہمیں کسی کے اس دعوے کوجھٹلانے کی ضرورت نہیں،لیکن جہادغیرمسلموںکے خلاف کیا جاتا ہے، جب یہ پاکستان پر سنگینیں تانیں گے تو پاکستان بھی ان کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں اترے گا۔اب پاکستان کے خلاف ایک کھلی جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے،پاکستانی علاقے میں فوج کے جوانوں کو بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر ان کو بھی ترکی بہ ترکی جواب ملے گا اور ایک دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی فوج ایسا جواب دینے کی قدرت رکھتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر مشرف اور ان کی فوج اس جنگ میں تنِ تنہا ہے۔ ان کے حکومتی ساتھی محض اللے تللوں میں لگے ہوئے ہیں ، وفاقی یا صوبائی کوئی حکومتی اہلکار جنرل پرویز مشرف کے ایجنڈے پر بات کرنے کا روادار نہیں۔پنجاب کے گورنر خالد مقبول داد کے مستحق ہیں کہ صدرمشرف کے ایجنڈے کے سواکوئی اور بات نہیں کرتے،ورنہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرصاحبان ، وفاقی وصوبائی وزرائ، ارکان پارلیمنٹ ،چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سرکاری ارکان،پارلیمانی سیکرٹریز کی فوجِ ظفر موج نے منہ میں گھنگھنیاں ڈال رکھی ہیں، انہیں محض اپنے مفادات سے غرض ہے،مراعات سے سروکارہے،ان کی فائلوں پر دستخط کردیئے جائیں،انہیں نوکریوںکے کوٹے دیئے جائیں، ان کو مراعات سے لاد دیا جائے، یہ سب دودھ پینے والے مجنوں اور چوری کھانے والے میاں مٹھو ہیں جو پاک فوج کی قربانیوں پر عیش و عشرت میں مصروف ہیں۔کل کو کوئی دوسری حکومت آگئی تووہ اس کے ساتھ اقتدارکا جھولا جھولنے لگ جائیں گے۔ق لیگ کا نام بدل جائے گا،پیٹریاٹس بھی چہرے پر نیا نقاب اوڑھ کر میدان میں آجائینگے، شیر پاﺅاور لغاری کے ساتھی جھٹ سے دوسری کشتی میں چھلانگ مارکر بیٹھ جائیں گے۔
میرا صدر مشرف اور افواجِ پاکستان سے ایک سوال ہے کہ وہ کب تلک اس مفادپرست ٹولے کے لئے جانیں قربان کرتے رہیں گے ۔ صدر مشرف نے کتنے حملے اپنی جان پر برداشت کئے،وہ فوجی آدمی ہیں، کمانڈو ہیں، اس لئے موت سے گھبرانے والے نہیں ہیں، لیکن انہیں اپنے سیاسی اور سول ساتھیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنا چاہئے کہ آپ سب لوگ گھگھوگھوڑے کیوں بنے ہوئے ہیں، وہ سب اپنی کرسیوں کیلئے ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں، لیکن جنرل پرویز اور اس کی قر بانیاںدینے والی فوج کے حق میں ان کی زبانوں سے کلمہ ِ خیر کیوں نہیں نکلتا۔
مجھے افسوس ہے کہ ہماری اپوزیشن ہرمسئلے پرسیاست کرتے ہے۔قاضی حسین احمد،مخدوم امین فہیم،عمران خان سب نے درگئی کے شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔اس قربانی کا پھنداکسی دشمن ملک کے گلے میں ڈالنے کے بجائے صدر مشرف کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔خدا کا خوف کریں، پہلے تحقیقات تو کرلیں،یہ شیطانی فعل کس نے کیا ہے۔میں نہیں کہتا کہ باجوڑ والوں نے کیا ہے بلکہ میرا یقین ہے کہ کسی ایسے مشترکہ دشمن نے کیا ہے جو ہمارا خون بھی کررہا ہے اور ہمیں آپس میں لڑابھی رہا ہے۔ لیکن اس نکتے کو ہماری اپوزیشن نہ سمجھتی ہے ،نہ سمجھنے کیلئے تیارہے،کیونکہ اسے تو صدر مشرف سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
اپوزیشن تو حکومت کی دشمن ہوتی ہی ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ حکمران ٹولہ کس حد تک صدر کے ساتھ ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ جب جنابِ صدراپنے تمام حامیوں کا ایک جرگہ بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ کیا وہ محض اقتدار کے فائدے ہی سمیٹنا چاہتے ہیں،یا کسی قربانی کے لئے بھی تیار ہیں….؟؟؟میں یقین سے کہتا ہوں کہ حکومت میں شامل کوئی بھی فریق کھل کر صدر کے ساتھ چلنے کی حامی نہیں بھرے گا۔ جناب صدر ہمارے سیاستدانوں اور ان کی اولادوں،ان کے بھتیجوں ،بھانجوں،ان کی بہوﺅں،بیٹیوںاور بہنوں کو صرف اقتدارکے مزے لوٹنے سے سروکارہے۔خدانخواستہ اگر کل کلاں کو انہیں بھارت یہ یقین دہانی کرادے کہ تمہارے اللے تللے ،عیش و عشرت،اقتدارکے مزے اسی طرح جاری رہیں گے تو یہ سیاستدان خدا نخواستہ پاکستان کو سکم اور بھوٹان بنانے پر راضی ہوجائیں گے، مفاد پرست ٹولے کے لئے خطرات مول لینے کی ایک حد ہوتی ہے۔جناب صدر ! سوچیے